تیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثلاثون الاعتراف بنعم اللہ عز وجل ‘‘ ہے۔

  منعقده 16/ جمادی الآ خر 545 ھ بوقت صبح ، بمقام خانقاہ شریف

اللہ تعالی کی نعمتوں کا اعتراف باعث بشارت ہے:

اس شخص کے لئے بشارت ہے جس نے اللہ تعالی کی نعمتوں کا اعتراف کیا، اور ان سب کو اس سے منسوب کیا۔ اور اپنے نفس کو اور تمام اسباب ،اپنی طاقت اور قوت کو بیکار سمجھا۔ عقل والا وہی ہے جو اللہ پر اپنے عمل کا حساب نہ رکھے اور کسی بھی حالت میں اس سے اس کا عوض نہ چاہئے ۔

تجھ پر افسوس علم کے بغیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، اور علم کے بغیر زاہد بنا پھرتا ہے، اور علم کے بغیر دنیا حاصل کرتا ہے ۔ یہ حجاب در حجاب اور عذاب در عذاب ہے ۔ تو بھلائی اور برائی میں کوئی فرق نہیں کرتا اور نہ نفع ونقصان میں کوئی فرق سمجھتا ہے۔ دوست اور دشمن کو نہیں پہچانتا، یہ سارا بگاڑ اس وجہ سے ہے کہ تو اللہ کے حکم سے بے خبر ہے، اور تو نے باعلم وباعمل مشائخ کرام کی خدمت کرنا چھوڑ دی ہے۔ وہی تجھے اللہ کی راہ دکھا سکتے ہیں، تیری رہنمائی کر سکتے ہیں ، جو بھی اللہ تک پہنچا ہے علم ہی کے ذریعہ پہنچا ہے ۔دنیا میں زاہد دل اور جسم کو اس سے موڑ کر واصل باللہ ہوتا ہے، بتکلف زہد کرنے والا دنیا کو اپنے ہاتھ سے نکالتا ہے ۔ اور جو زاہد اپنے زہد میں پختہ ہو ، وہ دنیا کو دل سے نکالتا ہے ۔ انہوں نے دنیا سے دلی طور پر بے رغبتی کی ،یہ ز ہدان کی طبیعت میں داخل ہو گیا ۔ ان کے ظاہر و باطن باہم مل جل گئے ، ان کی طبیعتوں کا جوش ٹھنڈا ہو گیا، ان کی خواہشیں ٹوٹ گئیں، ان کے نفس مطمئن ہو گئے ، اوران کے شر کی حالت بھی بدل گئی۔

انبیاء و اولیاء کی پیروی سے ہی زہد ملتا ہے۔

 یہ زید کوئی صنعت نہیں کہ جسے خود بناسکو، اور وہ کوئی معمول شے نہیں کہ جسے ہاتھ میں لے لے اور پھینک دے  بلکہ یہ ایک دشوار گزار راہ ہے جس کے کئی مرحلے ہیں ۔ پہلے جب دنیا کا چہرہ دیکھوتو اس طرح دیکھو جیسے تم سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور اولیاء وابدال نے دیکھا ہے کہ جن سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہے۔ دنیا کا اصلی چہرہ دیکھنا اس طرح نصیب ہوگا کہ اگلے بزرگوں کے اقوال وافعال میں پیروی کرو تب تو بھی وہ کچھ  دیکھ سکے گا جو کچھ انہوں نے دیکھا ہے۔

 جب اولیاء اللہ کے قول فعل خلوت و جلوت علم وعمل اور صورت و معنی میں قدم بقدم چلے گا، ان جیسے روزے رکھے گا، ان کی سی نماز پڑھے گا، ان کی طرح لین دین کرے گا ، ان کی طرح ترک کرنا ترک کرے گا  اوران سے محبت رکھے گاتو اللہ تعالی تمہیں ایک نورعنایت فرمائے گا جس سے اپنے نفس اور اپنے غیر کو بخوبی دیکھنے لگے گا، وہ نورتمہیں تمہارے اور خلقت کے عیب بتا دے گا، پھر تم اپنے نفس اور خلقت سب سے بے پرواہ ہو جاؤ گے ، جب یہ حالت تمہارے لئے درست ہو جائے گی تو قرب الہی کے انوار تمہارے قلب پر وارد ہوں گے۔ تم سچے ایمان والے، یقین والے، عارف وعالم ہو جاؤ گے، ہر چیز کوان کی صورتوں اور باطنوں پر دیکھو گے تم دنیا کو ویسے ہی دیکھو گے جیسے کہ تم سے پہلے زاہدوں اور اس سے اعراض کرنے والوں نے دیکھی ہے ۔دنیا ایک بدشکل بوڑھی چڑیل کی شکل میں دکھائی دے گی۔ اللہ والوں کے نزدیک دنیا اسی شکل وصورت پر ہے۔جبکہ دنیا کے بادشاہوں کے نزدیک بنی سجی دلہن کی طرح بہترین صورت میں ہے۔ اولیاء اللہ کے نزدیک دنیا حقیر وذلیل ہے، وہ دنیا کے کپڑے پھاڑ ڈالتے ہیں، اس کے چہرے کو نوچ ڈالتے ہیں۔ زور اور طاقت کے ساتھ دنیا سے اپنے نصیب کا لکھا حاصل کرتے ہیں ، اور خود آخرت کے کاموں میں مگن رہتے ہیں

حکم الہی کے بغیر نفس کا کوئی امر قبول نہ کر :

اے اللہ کے بندے! دنیا میں جب تیرے لئے زہد درست ہو جائے تو اپنے اختیار اورمخلوق  میں زہد کر ، ان سے کسی قسم کا خوف اور امید نہ رکھ ۔ جس چیز کا نفس کوئی امر کرے حکم الہی آنے تک اسے قبول نہ کر، حکم الہی کا اکثر نزول تمہارے دل پر بذریعہ الہام یا خواب کے ہوگا، جب تمہارے دل کو تمام خلقت سے اعراض اور نفرت ہوگی ۔ دل کے سوا تمہارے دیگر اعضاء ساکن ہو جائیں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں۔ کہ یہ امر تجھے نقصان نہ دے گا ، اصل اعتبار تو دل کے سکون پکڑنے کا ہے، یہ مقام بڑا کٹھن ہے۔ تجھے قرارنہیں آ سکتا جب تک کہ تمہارا نفس اور حرص اور خواہش اور ماسوا اللہ نہ مر جائے ۔ اب  اس کے قرب میں زندہ رہو گے ۔ پہلے مرنا ہے پھر جی اٹھنا، پھر جب وہ چا ہے تجھے اپنے لئے زندہ کر دے اور طاقت کی طرف واپس لوٹا دے ۔ تا کہ تو ان کی علامتوں میں نظر کرے اور انہیں اللہ کے دروازے کی طرف لوٹالا ئے ۔ اس وقت تجھے دنیا اور آخرت کی طرف رغبت حاصل ہو گی تا کہ دونوں سے اپنی قسمت کا لکھا حاصل کر سکو۔ اور خلقت کی تکالیف برداشت کرنے کا کے لئےتمہیں قوت عنایت ہو گی ۔ اس قوت سے انہیں گمراہی سے بچاؤ گے، اور ان میں اللہ کاحکم جاری کرو گے، اگرتم خلقت میں واپس نہ آ نا پاو گے تو اس کا قرب تمہارے لئے کافی ہے اور غیر اللہ سے بے نیاز کرنے والا ہے ۔ جب تجھے خالق مل گیا تو مخلوق پرتکیہ نہ کرو گے پھرخالق ہی تیرے لئے کافی ہے، جو کہ تمام اشیاء کا بنانے والا ہے ؟

ہر شے کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے وہ ہر ایک چیز سے پہلے موجود ہے ہر ایک چیز کے بعدر ہنے والا ہے،

تیرے گناہ بارش کے قطروں سے ہی زیادہ ہیں، چنانچہ تجھے ہرلمحہ اپنے گناہوں پر تو بہ کرتے رہنا چا ہئے ۔ تجھ پر افسوس ہے کہ تو گھمنڈی ، لالچی ،سراپا حرص مجسم خواہش اور بے معنی عبارت ہے ۔ تو پرانی اور خستہ حال قبروں کی طرف دیکھ اور ایمان کی زبان سے قبروں والوں سے باتیں کر ، کیونکہ وہ تجھے اپنے احوال سے مطلع کریں گے۔

اولیاءاللہ کی ارادت کا محض دعوئی بے فائدہ ہے:

اے بیٹا! تو اللہ تعالی اور اولیاء اللہ کی ارادت کا دعوے دار ہے ( محض دعوی بے فائدہ ہے ، ان جیسا بن ) میں تجھے چھوڑ دوں اور معیار پر نہ پرکھوں ، اورتجھے شرم نہ دلاؤں ۔ کیونکہ  حکم الہی سے میں تم پر محتسب ہوں، وہ منافق جو اپنے اقوال وافعال میں جھوٹے ہیں ، ان کی گردنیں اڑادوں گا، میں متعدد بار بہت سے مشائخ پرمحتسب رہ چکا ہوں ۔ یہاں تک  کہ میرے لئے حساب لینا درست ہو گیا ہے ۔

اے زمین والو! جنہوں نے نمک کے بغیر اپنے اعمال کا آٹا گوندھا ہے، آؤاس کے لئے نمک لے لو، اے نمک کے خریدنے والے، بڑھو! – اے منافقوا تمہارا آٹا بغیر نمک کے اور بغیر خمیر کے ہے،  وہ علم کے خمیر اور اخلاص کے نمک کا محتاج ہے، ۔علم واخلاص سے عمل کی اصلاح کرلو۔

اے منافق ! تو نفاق سے گوندھا گیا ہے، یہی نفاق عنقریب تجھ پر آگ بن کر ٹوٹ پڑے گا۔ اپنے دل کو نفاق سے خالص کر ، تو یقینا اس سے خلاصی پالے گا ، جب دل مخلص ہو گیا تو دیگر اعضاء بھی مخلص ہو جائیں گے اور خلاصی پالیں گے، ۔ دل دوسرے تمام اعضاء کا چرواہا ہے، جب یہ سیدھا ہوا تو وہ بھی سیدھے ہو جائیں گے، جب قلب اور دیگر اعضاء راہ راست پر آ گئے تو ایمان والے کا ہر معاملہ کامل ہو جائے گا، اور وہ اپنے گھر والوں اور ہمسایوں اور بستی والوں پر چرواہا ہوگا، جتنی قوت ایمان سے وہ اپنے مولی کے قریب ہوگا اتناہی اس کا حال بلند ہوگا۔

اللہ کے ساتھ اپنے معاملات درست رکھو :

 اے لوگو! اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو درست رکھو، اس سے ڈرتے رہو اور اس کے حکم پرعمل کرو، کیونکہ اس نے اپنے حکم سے تمہیں عمل کے لئے پابند کر دیا ہے، نہ کہ اس علم میں مشغول ہونے کا پابند کیا ہے جو تمہاری نسبت پہلے ازل میں ہو چکا ہے۔تم اس حکم پرعمل کرو اور اس کا حق پورا ادا کرو، کیونکہ جب تم اس کے حکم پر عمل کرو گے تو وہ تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں اس کے پاس پہنچادے گا جس کے لئے تو نے عمل کیا ہے،  اس سے تجھے ایساعلم ملے گا جو اس سے پہلےتجھے حاصل نہ تھا، لہذاتم علم کے ذریعے اس کے ساتھ ہو گے اور اس کے حکم سے خلقت کے ساتھ بھی ، تم نے پہلے علم پر عمل ہی نہیں کیا تو دوسرے کی طلب کرنے لگے، جب تیرے قدم پہلے (علم ظاہر میں ) میں قرار پکڑ لیں تو دوسرے ( یعنی علم باطن ) کی طلب کرو۔

وہی ایمان والا ہے جوضروری علم سیکھے اور خلقت سے الگ ہو جائے:

 اسے بیٹا تجھے نہیں معلوم کہ استاد سے کیسے ملا جاتا ہے، تو اس سے کیسے ملے گا ۔ پیچھے لوٹ جا اور عقل مندی کر ، پہلے علم حاصل کر، پھرعمل کر اور مخلص بن ،  رسول اکرم  ﷺ نے فرمایا

‌تَفَقَّهْ، ‌ثُمَّ ‌اعْتَزِلْ’’فقہ حاصل کر، پھر کنارا کر “

ایمان والا وہی ہے جو ضروری علم سیکھے اور خلقت سے الگ ہو جائے ، اور اللہ کی عبادت میں گوشہ نشیں ہو جائے ۔ اس مقام پر وہ خلقت کو پہچان کر اس سے نفرت کرے، اور اللہ کو پہچان کر اس سے محبت رکھے، اس کا طالب بن کراس کا خدمت گذار بن جائے ۔خلقت پیچھے پڑے تو اس سے بھاگے، ،ان کے غیر کو طلب کرے،ان میں بے رغبتی کرے،جبکہ غیر میں رغبت کرے بھی جان لے کہ خلقت کے ہاتھوں میں بھلائی ہے نہ برائی نفع ہے نہ ضرر، اگر ان کے ہاتھوں سے کچھ بھی واقعہ ہو جائے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے نہ کہ ان کی طرف سے ، خلقت سے دور رہنانزدیک رہنے سے بہتر ہے۔شاخ کو چھوڑ کر جڑ (خدا) کی طرف رجوع کرے۔ جان لے کہ شاخیں بیشمار ہیں اور اصل ایک ۔ چنانچہ اسی ایک کو مضبوطی سے تھام لے،فکر کے آئینے میں دیکھے اور جان لے کہ بہت سے دروازوں پر پھرنے سے ایک ہی دروازے پر ٹھہرنا بہتر ہے ۔ چنانچہ ایک ہی در پرٹھہر جائے اور اسی درکا ہور ہے۔ ایمان والا ، یقین رکھنے والا ،اخلاص ولا ہی عقل مند ہے کہ اسے سب عقلوں کی عقل عطا کی گئی ہے ۔ اس لئے وہ لوگوں سے بھاگ کر ان سے الگ تھلک ہو گیا۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 222،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 127دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں