خاتمہ کے عنوان کا پہلاحصہ ایک حدیث ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اس حدیث شریف کے بیان میں جس کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اشارہ فرمایا ہے۔ اور اس سے متعلق اشیاء کے بیان میں ۔
روى: (أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ صَنَعَ طَعَامًا لِرَسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَاجْتَمَعَ هُوَ وَنَفَرٌ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فِيهِمْ ابُو بَكْرٍ و عُمَرُ وَ عُثمَانُ وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ ، فَتذا كَرُوا فِي الطَّاعَةِ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ ، إِلَى أَنْ قَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنَّمَا حُبَب إِلَى مِنَ الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللهِ ثَلاث – إِنْفَاقُ مَالِى عَلَيْكَ ، والجُلُوسُ بَيْنَ يَدَيْكَ ، وَكَثَرَةُ الصَّلَاةِ عَلَيْكَ وَقَالَ عُمَرُ : – وَأَنَا حُبَب إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا ثلاث : إِكْرَامُ الضَّيْفِ ، وَالصِّيَامُ فِى الصَّيفِ ، وَالضَّرُبُ بَيْنَ يَدَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّيْفِ وَقَالَ عُثمَانُ : حُببَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا ثَلاث .. إِطْعَامُ الطَّعَامِ ، وَإِفْشَاءُ السَّلَامِ ، الصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامُ – وَقَالَ عَلِيٌّ : مِثْلَ ذَالِكَ – فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَأَنَا حُببَ إِلَيَّ مِنْ دُنْيَاكُمْ ثَلاث . النساء الطيبُ ، وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَقَالَ : وَأَنَا حُبَّبَ إلى مِنَ الدُّنْيَا ثَلاث تبليغ الرِّسَالَةِ ، وَادَاءُ الَّا مَانَةِ ، وَعِبَادَةُ الْمَرْضَى ، ثُمَّ عَابٌ وظهرَ وَقَالَ – يَا رَسُولَ اللهِ، وَرَبُّ الْعِزَّةِ يَقُولُ وَآنَا حُبَب إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا ثلاث : لِسَان ذَاكِرٌ ، قَلْبٌ شَاكِرٌ وَجِسْمُ عَلَى الْبَلَاءِ صَابِرُ) ذَكَرَهُ الشَّطِيبِي ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ بِصِحْتِهِ ، غَيْرَ انَّهُ كَلَامٌ صَحِيحٌ فِي نَفْسِهِ
روایت کی گئی ہے:۔ حضرت جابر بن عبد اللہ نے حضرت محمد ﷺ کیلئے کھانا تیار کیا ، پس حضرت محمد ﷺ اور آپ کے کچھ اصحاب رضی اللہ عنہ جمع ہوئے ۔ ان حضرات میں حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی تھے۔ ان حضرات نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے بارے میں باہم گفتگو شروع کی ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا : یا رسول اللہ ﷺمیرے نزدیک دنیا میں سے تین چیزیں محبوب ہیں :- اول – آپ کی ذات اقدس پر اپنا مال خرچ کرنا ، دوم :- آپ کے پاس بیٹھنا ، سوم آپ
کے اوپر کثرت سے درود و سلام پڑھنا۔
حضرت عمر نے فرمایا ۔ اور میری نزدیک دنیا میں سے تین چیزیں محبوب ہیں ۔ اول :- مہمان کی تعظیم و تکریم کرنی ، دوم :- گرمی کے دنوں میں روز درکھنا ، سوم :- رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر تلوار سے جہاد کرنا۔
حضرت عثمان نے فرمایا ۔ میرے نزدیک دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں ۔ اول :- کھانا کھلانا ، دوم : سلام کی اشاعت کرنی ، سوم :- رات میں نمازیں پڑھنی ، جبکہ لوگ سور ہے ہوں۔
حضرت علی نے بھی اسی طرح فرمایا:- پھر حضرت محمدﷺ نے ان حضرات سے فرمایا :- میری نزدیک تمہاری دنیا میں سے تین
چیزیں محبوب ہیں:۔ اول :- عورتیں ، دوم : – خوشبو سوم : ۔ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔
پھر حضرت جبریل نازل ہوئے اور فرمایا:- میری نزدیک دنیا میں سے تین چیزیں محبوب ہیں :۔
اول :- رسالت کا پہنچانا ، دوم :- امانت کا ادا کرنا سوم :۔ بیماروں کی عیادت کرنی ۔ پھر حضرت جبریل غائب ہو گئے ، اور پھر ظاہر ہوئے اور فرمایا : یا رسول اللہ ﷺا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ میرے نزدیک دنیا میں سے تین چیزیں محبوب ہیں:۔
اول :- ذکر کرنے والی زبان ، دوم : – شکر کرنے والا قلب ، سوم : – بلا پر صبر کرنے والا جسم ۔ اس حدیث شریف کو حضرت شطیبی نے بیان فرمایا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا بہتر علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ لیکن اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے یہ حدیث شریف صحیح ہے۔
اور عورتوں کے محبوب ہونے میں حکمت :۔ زیادہ نکاح کرنے کی ترغیب دینی ہے تا کہ نسل زیادہ ہو ، جو اس عالم پر چھا جا ئیں ۔
اور خوشبو – تو حضوراکرم ﷺ خود سراپا خوشبو تھے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے وجود میں پھیلا دیا ، او رکل کائنات اس خوشبو سے معطر ہوگئی اور حضرت محمد ﷺ کے جسم مبارک سے خوشبو پھیلتی تھی خواہ آپ خوشبو لگاتے یا نہ لگاتے ۔ آپ کبھی کبھی خوشبو اس لیے استعمال کرتے تھے تا کہ اس کی وجہ سے وہبی( اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ) خوشبو چھپ جائے اور ایسا اس خوف سے کرتے تھے تا کہ لوگ آپ کی شان مبارک میں غلو نہ کریں۔ جیسا کہ لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان مبارک میں غلو کیا اور حد سے آگے بڑھ گئے ۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے :۔ خوشبو اہل جنت کی صفت ہے اور حضرت محمدﷺ جنت میں تھےاس کی خوشبو آپ کے جسم اطہر میں بس گئی۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس تیسرے مکتوب میں اللہ تعالیٰ سے خوشی بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے احسانات سے خوشی کا بیان فرمایا:-
النَّاسُ فِي وَرُودِ الْمِنَنِ عَلَيْهِمْ عَلَى ثَلَاثَۃِ أَقسَامٍ
احسانات کے نازل ہونے میں انسانوں کی تین قسمیں ہیں
عوام، خواص اور خواص الخواص
بھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے عوام کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا :- فَرِحَ بِالْمِنَنِ لَا مِنْ حَيْثُ مُبْدِئِهَا وَمُنْشِئِهَا ، وَلَكِنْ بِوُجُودِ مَتْعَتِهِ فِيهَا
وہ احسانات سے خوش ہوتے ہیں لیکن اس کے پیدا کرنے والے اور بھیجنے والے کی حیثیت سے خوش نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ وہ ان سے اپنا فائدہ حاصل ہونے کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ یہ لوگ چار پا یہ جانوروں کی طرح ہیں ان کی کل شان اور ہمت ان کو نفس اوران کا ظاہر ہے۔
حضرت ابن البناءنے ان لوگوں کی شان میں کیا خوب فرمایا ہے:۔
وَاعْلَمْ بِأَنَّ عُصْبَةَ الْجُهَّالِ بَهَا ئِمٌ فِى صُورَةِ الرِّجَالِ
تم یہ جان لو کہ جاہلوں کا گروہ آدمیوں کی شکل میں جانور ہیں
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ان لوگوں کا حکم بیان فرمایا :-
فَهَذَا مِنَ الْغَافِلِينَ پس یہ لوگ غافلوں میں سے ہیں
اس لیے کہ جب ان کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو یہ ان میں مشغول ہو کر لذت اور آسودگی حاصل کرتے اور اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتے ہیں اور جب نعمتیں ان سے واپس ہو جاتی ہیں تو وہ ان کی طلب اور حرص میں منکر ہوتے ہیں اور جب وہ نعمتیں پاتے ہیں، تو ان کا فائدہ اور اللہ ان کو نعمتوں کی شکر گزاری سے غافل کر دیتا ہے۔ لہذان کی یہ غفلت ان نعمتوں کے زوال کا سبب بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ اور اگر تم لوگ میری ناشکری کرو گے تو بیشک میرا عذاب سخت ہے
اور اکثر اوقات ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کا یہ قول صادق آتا ہے۔
حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا خَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ یہانتک کہ جب وہ ان نعمتوں میں جو ان کو دی گئی ہیں مگن ہو گئے تو ہم نے ان کو اچا نک پکڑلیا تو اب وہ محروم نا امید ہیں
یہ آیت کریمہ اگر چہ کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کا حکم عام ہے۔ لہذا ہر و ہ شخص جو دنیا کی نعمتوں اور اس کی زمینوں میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ، اور اپنے مطلوبہ فرائض سے غافل ہو جاتا ہے اس کے اوپر یہ صادق آتا ہے کہ دو ان نعمتوں میں جو اس کو دی گئیں ، مگن ہو گیا ۔ تو اسی درمیان میں کہ وہ اپنی غفلت میں منہمک اور اپنی شہوت میں غرق رہا۔ اچانک اس کو موت نے پکڑ لیا، تو وہ نعمتوں کی طرف لوٹنے سے نا امید، اور ان سےفائدہ حاصل کرنے سے مایوس ہو گیا۔ اور کبھی وہ نعمتیں اس کی موت کے پہلے ہی اس سے چھین لی جاتی ہیں تو وہ ان پر سخت حسرت وافسوس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ جو شخص نعمتوں کا شکر نہیں ادا کرتا ہے، وہ ان کو زوال کیلئے پیش کر دیتا ہے (یعنی ناشکری نعمتوں کے زائل ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے )۔ اور جو شخص نعمتوں کے موجود ہونے کی حالت میں ان کی قدر نہیں پہچانتا ہے وہ ان کے ختم ہو جانے کے بعد ان کی قدر پہچانتا ہے۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسری قسم کے لوگوں یعنی خواص کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَفَرِحَ بِالْمِنَنِ مِنْ حَيْثُ إِنَّهُ شَهِدَهَا مِنَّةٌ مِمَّنْ أَرْسَلَهَا وَنعْمۃُ مِمَّنْ أَوْ صَلَهَا
اور وہ یعنی خواص احسانات سے اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ وہ اس کو اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان اور نعمت سمجھتے ہیں جس نے ان کو یہ نعمتیں عطا فرمائیں ہیں میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ وہ ان نعمتوں سے اس ذات مقدس کی طرف بڑھنے ، اور اس کے ذکر کا فائدہ حاصل کرتے ہیں جس نے وہ نعمتیں ان کو عطا فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی :۔
اے موسی ! تم یہ جان لو کہ جب میں تم کو کوئی تازو کھجور عطا کرتا ہوں تو میں اس کے ذریعے تم کو یا دو بانی کرتا ہوں ۔ لہذا تم اس پر میرا شکر ادا کرو کیونکہ وہ میرے سوا کوئی دوسرا تم کو نہیں دیتا ہے ۔ لہذادہ نعمت منعم حقیقی کی طرف ان کے کھینچنے کا سبب بنتی ہے پھر وہ ترقی کر کے تیسرے درجے میں پہنچ جاتے ہیں ۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس قسم کے لوگوں یعنی خواص کی شہادت قرآن کریم سے پیش فرمائی ۔ فَيَصْدُقُ عَلَيْهِ قَوْلِهِ تَعَالَى ، فَبِذَالِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
پس ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کا یہ قول صادق ہوتا ہے ۔ پس ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہونا چاہیئے وہ ان کیلئے ان چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ یعنی ان کی خوشی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل – ایمان ہے ، اور اس کی رحمت – قرآن ہے اور اس کے علاوہ دوسری نعمتیں ہیں ۔ وہ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت ، دنیا کے حقیر مال اور اس کی دھوکہ دینے والی خواہشات سے جن کو وہ جمع کرتے ہیں بہتر ہے۔
اس کے بارے میں یہ اشعار غالبا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں۔
طَلِّقِ الدُّنْيَا ثَلَاثاً وَالْتَمِسْ زَوْجًا سِوَاهَا
تم دنیا کو تین طلاقیں دیدو اور اس کے سوا کوئی دوسری رفیقہ حیات تلاش کرو
تُبْ إِلَى رَبِّكَ مِنْهَا وَاحْتَرِسْ قَبلَ آذَاهَا
تم اس سے منہ پھیر کر اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور ان کی ایذارسانی سے پہلے تم اس سے اپنی حفاظت کرو
اِنَّهَا زَوْجَةٌ سُوْ ءٍ لَا تُبَالِي مَنْ آتَاهَا
وہ بدترین بیوی ہے وہ اپنے پاس آنے والے کی پرواہ نہیں کرتی ہے۔
انه نَفْسَكَ عَنِ الْغَيِّ وَجَانِبْ هَوَاهَا
تم اپنے نفس کو سرکشی اور گمراہی سے روکو اور اس کی خواہش سے پر ہیز کرو
منقول ہے ۔ ابلیس نے ایک عابد کو بہکانے کا ارادہ کیا تو وہ عابد اس کے پاس دنیا کی رغبت کے دروازے سے آیا تو اس نے دیکھا کہ عابد نے دنیا کی رغبت کا درو ازہ زہد و قناعت سے بند کردیاہے۔ پھر وہ اس کے پاس شہوت اور خواہش کے دروازے سے آیا۔ تو اس نے دیکھا کہ عابد نے شہوت اور خواہش کا درو ازہ و دائمی رنج و مشقت سے بند کر رکھا ہے۔ پھر وہ ان کے پاس غصہ اور تیز مزاجی کے دروازے سے آیا۔ تو اس نے دیکھا کہ عابد نےغصہ اور تیز مزاجی کا درو ازہ تواضع اور انکساری سے بند کر رکھا ہے۔ تو ابلیس نےچیخ کر گیا ۔ یہ ایک ایسا بندہ ہے جو مجھ سے محفوظ ہے اور اس پر میرا کوئی اختیار نہیں چل سکتا ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے۔
إِنَّ الْمُنَادِي يُنَادِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أيْنَ اَصْحَابُ الْمَتَاجِرِ الرَّابِحَةِ مِنْ أَهْلِ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ فَيَقُومُ الْأَوْلِيَاءُ وَالْأَصْفِيَاءُ وَالْعَبَّادُ وَالزُّھَّادُ ، فَيُؤْتُونَ بِنَجَانِبِ مِنَ النُّورِ فَتَطِیْرُ بِهِم نَحْوَ الْعَرْشِ وَتَسْبِقُهُمُ الْمَلائِكَةُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ إِلَى أَنْ تُنزِلَهُمْ فِي مَنَازِلِهِمْ منَ الْجَنَّةِ ، وَيَقُولُونَ لَهُمْ هَذِهِ اَحْمَالُكُمْ وَفِيهَا اَعْمَالُكُمْ ، وَيُنَادِى الْمُنَادِى أيضا: – اَيْنَ اَبْنَاءُ الدُّنْيَا اَىِ الْمُحَلِّفُونَ وَالْمُقَصِّرُونَ ایْنَ مَنْ عَصَى الْمَوْلِي هَلُّمُوا إِلَى دَارِ الْبَلْوٰى ، فَيَاتُونَ وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ ، اَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ .فَیُؤْ مَرُ بِهِمْ إِلَى الْعَذَابِ
قیامت کے دن ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا :- اعمال صالحہ کی نفع مند تجارت کرنے والے کہاں ہیں؟ تو اولیاء اور اصفیاء اور عابدین اور زاہدین کھڑے ہو جا ئیں گے۔ تو ان لوگوں کو نور کی بہترین سواریوں پر سوار کیا جائے گا۔ وہ سواریاں ان کو لے کر عرش کی طرف پرداز کریں گی۔ اور ان کے آگے آگے فرشتے چل رہے ہوں گے، یہاں تک کہ وہ فرشتے ان کو لے جا کر جنت میں ان کے مکانوں میں اتاریں گے اور ان سے کہیں گے ۔ یہ تمہارے سامان ہیں اور انہی میں تمہارے اعمال ہیں۔پھر اعلان کرنے والا اعلان کرے گا۔ اعمال صالحہ کو ترک کرنے والے ، اور ان میں کوتاہی کرنے والے لوگ کہاں ہیں؟ وہ لوگ جو اپنے مولائے حقیقی کی نافرمانی کرتے تھے ، کہاں ہیں؟ سختی اور مصیبت کے گھر کی طرف آؤ تو وہ لوگ اس حال میں آئیں گے کہ اپنی پیٹھ پر اپنے گنا ہوں کا بو جھ اٹھائے ہوں گے ۔ خبردار ہو جاؤ وہ بو جھ کتنا برا ہے جس کو وہ اٹھائے ہوں گے پھر ان کو عذاب کی طرف لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔