جذب وفنا اور صحو و بقا (دوسرا مراسلہ)

جذب وفنا اور صحو و بقا کے عنوان سے دوسرے مراسلے کا تیسرا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسرے مقام یعنی جذب وفنا پر ، اور تیسرے مقام یعنی صحو و بقا پرسید ہ حضرت عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس معاملے سے استدلال کیا ، جو ان کو اپنے والد بزرگوار سید نا حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ واقعہ افک میں پیش آیا تھا۔ چنانچہ فرمایا۔ وَقَالَ أَبُو بَكْرِ نِ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا لَمَّا نَزَلَتْ بَرَاءَ تُهَا مِنَ الْإِفْكِ عَلى لِسَانٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم – اُشْكُرِىْ رَسُولَ الله فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا اَشْكُرُ إِلَّا اللَّهَ

حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عائشہ صدیقہ سے اس وقت جبکہ افک ( بہتان ) سےان کے بری ہونے کی آیت حضرت رسول الله ﷺ زبان مبارک پر نازل ہوئی فر مایا ۔ اے عائشہ ! تم رسول اللہ ﷺ کا شکر ادا کرو۔ تو انہوں نے جواب دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی قسم میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا شکر نہ ادا کروں گی۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ واقعہ افک (بہتان ) مشہور ہے۔ سورہ نور میں اس کا ذکر ہے ۔ اہل ظاہر نے اس کی تفسیریں لکھی ہیں ۔ جو تفسیر اور سیرت کی کتابوں میں مرقوم ہے ۔ مگر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے، یہ بات کہنے والے :۔    تم رسول اللہ ﷺ کا شکر اد اکرو    ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق تھے۔ لیکن صحیح بخاری شریف میں یہ ہے کہ جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے کہا۔    تم رسول اللہ ﷺ کا شکر ادا کرو  ۔ وہ ان کی والدہ محترمہ تھیں۔ اور ایک روایت میں اس طرح ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے بیان کیا ہے۔ فَقَالَتْ لِى أُمِّي لَمَّا نَزَلَتْ بَرَاءَتِي مِنَ السَّمَاءِ: قَوْمِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ: وَاللهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا تَشْكُرُ إِلَّا الله

جب میری پاکیزگی کی آیہ آسمان سے نازل ہوئی ۔ تو میری والدہ نے مجھ سے فرمایا ۔ اے عائشہ! حضرت رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کھڑی ہو ۔ تو میں نے ان سے کہا : اللہ تعالیٰ کی قسم، نہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑی ہوں گی نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا شکر ادا کروں گی ۔

اور اس کی تاویل اس طرح کی جاسکتی ہے کہ یہ بات ان کے والد کے اشارے سے کہی گئی ہو یا ان کے والد اور والدہ دونوں نے ایک ساتھ ان سے کہی ہو، یا ان کی والدہ نے کہی ہو ۔ اور ان کےوالد خاموش سامنے موجود رہے ہوں اور ان کی خاموشی گویا کہ اس بات سے ان کے متفق ہونے کی دلیل ہو، وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے حضرت عائشہ صدیقہ کے واسطہ کا شکر ادا کرنے سے انکار پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ۔ دَلَّهَا أَبُو بَكْرٍ عَلَى الْمَقَامِ الْاَ كَمَلِ مَقَامِ الْبَقَاءِ الْمُقْتَضَى لِاثْبَاتِ الْآثَارِ حضرت ابو بکر صدیق نے کامل ترین مقام بقا کی طرف حضرت عائشہ صدیقہ کی رہنمائی فرمائی، جو آثار یعنی مخلوقات کے ثابت کرنے کا تقاضا کرتا ہے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: اثر یعنی مخلوق سے فنا ہو جانے کے بعد اس کے ثابت کرنے سے مرادقدرت اور حکمت کے درمیان جمع کرنے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کو ثابت کرنا ، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی نفی کرنا ہے۔ اور یہ مقام اپنے پہلے مقام سے زیادہ کامل ہے کہ یہ دونوں مقامات کا جامع ہے اس نے باطن میں قدرت کا حق اس کو دیا۔ اور یہ شہود ہے اور ظاہر میں حکمت کا حق اس کو دیا، اور یہ عبودیت ہے۔ لہذا وہ اپنی ذات سے سالک ہے اور دوسرے کیلئے رہنما ہے ۔ کامل ، عالم ، معلم ، عارف، معرف (اللہ تعالیٰ کی پہچان کرنے والا) ہے۔ اور یہی قصد اور طلب کی انتہا ہے۔ کیونکہ کامل خلافت اور رفاہ عام کا مقام ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رفاہ عام ، رفاہ خاص سے بہتر ہے اور رفاہ  عام یہی ہے کہ وہ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرے اور ہر حصہ دار کو اس کو پورا حصہ دیدے۔

ایک عارف سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں دریافت کیا گیا :-

اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے ایسا ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے

اور اس کے ساتھ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:-

اتقو الله ما اسْتَطَعْتُم    تم لوگ اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو، جتنا تم ڈرنے کی طاقت رکھتے ہو

عارف نے جواب دیا :۔ تم اپنے قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ایسا ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور اپنے جسم کے ساتھ اتنا ڈرو، جتنا ڈرنے کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ تا کہ شریعت اور طریقت کے جامع ہو جاؤ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں