حد سے تجاوز

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

تفسیر غوثیہ

سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد باری تعالی : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ اپنے رب کو پکارا کر وعاجزی سے اور پوشیدہ طور پر ، یقیناوہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ کی تفسیر یوں بیان فرمائی تحقیق حد سے بڑھنے والا ہی غیر اللہ سے تجاوز کرنے والا اور اللہ کے سوا دوسروں سے مانگنے والا ہے۔سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء سے فرمایا کرتے تھے۔ ” تم میرے دل کی روشنی ہو، جو شخص میرے کلام کو اللہ کے لئے سنے اور میرے کلام سے نفع حاصل کرے، وہ اس کے دل کی روشنی ہے ورنہ وہ میرے پاس حاضر ہی نہ ہو، اس لئے کہ اس کی حاضری کدورت کا باعث ہوگی –

سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب آگ سے باہر تشریف لائے ، آپ کے مویشی اور نوکر چاکر زیادہ ہو گئے تو آپ نے ملک شام میں بہت سے دروازوں والا ایک گھر بنایا ۔ اس کی قیمت ادا کر دینے اور اپنی قوم کے معالجے سے فارغ ہونے کے بعد آپ وہیں ٹھہر گئے ۔ مخلوق الہٰی کی تربیت کرنے گئے ،خلت کیا ہے صحبت کیا ہے اور محبت کیا ہے؟ یہ سب واصل ہونے کا نام ہے۔

 سوال:سید ناغوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا: ’’قول کی پیروی کی جائے یا حال کی؟‘‘

جواب:آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا: عوام لوگ تو قول کی پیروی کرتے ہیں اور خواص حال کی پیروی کرتے ہیں ، کون اہل ہے؟ — تو کون ہے؟ – آج مجھے تو اپنی نبض دکھا تا کہ میں تجھے تیرے حال پر بٹھاؤں اور تیرے مرض کی شدت کو دور کروں اور اسے اچھا کر دوں۔ رسول اللہﷺکی عادت مبارک تھی کہ آپ بیماروں کی عیادت کیا کرتے تھے، اور ہم اس سے منع کئے گئے ہیں مگر ہم تندرستوں کی عیادت اپنی ہمت سے کرتے ہیں، ہمارے پاؤں تمہارے گھروں کی طرف چلنے سے اور ہمارے ہاتھ تمہارے طعام اور مال لینے سے منع کر دیئے گئے ہیں ۔ ہم بحیثیت حال و تقدیر کے مامور ہیں ، جو مقدر ہے اس پر راضی  ہیں اور کام کر نے کومستعد ہیں ۔

قضاء وقدر کے سامنےتد بیر کا کیازور:

سید نا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک دن ارشاد فرمایا

ہوسکتا  ہے  ایک شخص دس بیٹے چھوڑ کر مر  جائے اور وہ سب کے سب  باپ کے فرماں بردار ہوں ، باپ کے مرنےکے بعد اس کے ترکہ کو برابری کے ساتھ تقسیم کر لیں ، اور ان میں ایک بیٹا ایسا ہو جس کی طرف باپ کا دل زیادہ مائل تھا ، اور اس کی دلی خواہش تھی کہ میرا یہی بیٹا میرے سارے تر کے کا وارث ہے ، تقدیر الہٰی سے باپ کے بعد ایک ایک کر کے سب بیٹے فوت ہو گئے سوائے اس کے محبوب بیٹے کے،  اس نے تر کے کا سارا مال حاصل کر لیا، قضاوقد رالہی آ گئی، کیا اس میں یہاں تک کچھ عیب ہے، اس میں غور وفکر کرو۔ والسلام !

اللهم كف الخلق عنا اللهم كف النفس عنا والأهوية والطباع – الہٰی ! تو ہم سے مخلوق کو روک دے الہٰی ! تو ہم سے نفس اور خواہشوں اورطبیعتوں کو روک دے۔آمین!‘‘

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 673،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں