حقیقتیں اور دعوے(مناجات 12)

یہ بارھویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

بارھویں مناجات

 إِلٰهِي مَنْ كَانَتْ مَحَاسِنُهُ مَسَاوِيَ فَكَيْفَ لَا تَكُونُ مَسَاوِيُّہُ مَسَاوِيَ وَمَنْ كَانَ حَقَائِقُهُ دَعَاوِي فَكَيْفَ لَا تَكُونُ دَعَاوِیُهُ دَعَاوِى
اے میرے اللہ ! جس شخص کی نیکیاں بھی برائیاں ہوں، تو اس کی برائیاں کیوں برائیاں نہ ہوں گی ؟ اور جس شخص کی حقیقتیں بھی دعوے ہوں ،اس کے دعوے کیوں دعوے نہ ہوں گے؟
انسان کی نیکیاں خلل اور نقصان سے خالی نہیں ہوتی ہیں ۔ اور اگر ان میں کوئی خلل اور نقص نہ ہو۔ تو ان کی نسبت اپنے نفس کی طرف کرنی، اور ان کو اپنا فعل سمجھنا، اور ان کو اپنی قوت اور اختیار سے خیال کرنا ہی ان میں خلل اور نقص ہونے کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ وہ یہ ظاہر نیکیوں کی شکل میں ہونے کے باوجود برائیوں میں بدل جاتی ہیں۔ لہذا جب اس کی نیکیاں بھی برائیاں ہیں۔ تو اس کی برائیاں کیوں برائیاں نہ ہوں گی؟
اور اسی طرح بندے کی حقیقتوں کا حال ہے۔ اور حقیقت وہ مقامات اور منزلیں ہیں جن میں وہ ثابت ہوتا ہے۔ اور عارفین کے ذوق، اور عاشقین کے وجد و حال ہیں۔ جو دعوؤں کی آمیزشوں ، اور خواہش کی چوریوں سے پاک نہیں ہوتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی چشم پوشی ان کے شامل حال نہ ہو ۔ تو جب اس کی وہ حقیقتیں جن میں وہ ثابت و قائم ہوا ہے۔ اور اس کا ذوق اس کو حاصل ہواہے، دعوی کی آمیزشوں سے پاک نہیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ جب وہ ان کی نسبت اپنے نفس سے کر دیتا ہے، تو وہ سب کے سب دعوے بن جاتے ہیں۔ تو پھر اس کے خالی دعوے کیوں دعوے نہ ہوں گے؟ لہذا جب بندہ اس کو سمجھ لیتا ہے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات پر شرم کرتا ہے کہ وہ کسی نیکی کواپنی ذات سے منسوب کرے۔ یا اپنے لئے کوئی حقیقت ثابت کرے ۔ اور اکثر اوقات وہ مخلوق کے سامنے ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔ اور شک کرنے والے کے لئے سلامت رہ جانا ہی کافی ہے۔
حضرت ذوالنون رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ سے حیا، عبارت (بیان ) کو ختم کر دیتی ہے۔ اور اشارے کو باریک کر دیتی ہے۔ اور حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ سے حیا، قلب کو کھٹکھٹاتی ہے۔ لیکن جب وہ اس میں دنیا کی کچھ محبت پاتی ہے، تو وہ واپس چلی جاتی ہے۔ اور حضرت ابوسلیمان دارانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندے !جب تو مجھ سے شرم کرتا ہے۔ تو میں لوگوں سے تیرے عیوب کو بھلا دیتا ہوں۔ اور زمین کے خطوں سے تیرے گناہوں کو بھلا دیتا ہوں۔ اور ام الکتاب سے تیری خطاؤں اور لغزشوں کو مٹادیتا ہوں ۔ اور میں قیامت کے دن حساب میں تجھ سے جرح نہ کروں گا۔
اور حضرت نبی کریم ﷺ نے حیاء کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے۔
الْحَيَاءُ مِنَ اللَّهِ : أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى وَالْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَتَذْكُرُ الْقَبْرَ وَالْبَلَى ، وَ تَتْرُكَ أَفْضَلَ زِيْنَةِ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَالِكَ فَقَدِ اسْتَحْیَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ
اللہ تعالیٰ سے حیا یہ ہے کہ تم اپنے سر کی اور اس کی متعلق اعضاء کی ( آنکھ ،کان ، زبان کی ) اور حکم کی اور اس سے متعلق اعضاء کی ( قلب و معدہ و شرم گاہ کی حفاظت کرو ۔ اور قبر اور اس میں بوسیدہ ہو جانے کو یاد کرو۔ اور دنیا کی بہترین زینتوں کو ترک کر دو۔ لہذا جس نے ایسا کیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کی جیسا کہ اس سے دیا کرنے کا حق ہے ۔
روایت ہے. ایک شخص ایسے خطر ناک مقام میں جہاں درندوں اور دوسری آفتوں کی کثرت تھی، سویا ہوا تھا۔ اور اس کی سواری کا جانور اس کے کنارے چر رہا تھا۔ اس سے کہا گیا۔ تم ایک خطر ناک مقام پر سو رہے ہو۔ اس نے جواب دیا: ہم کو اس سے شرم آتی ہے کہ ہم غیر اللہ سے ڈریں۔ یہ کہہ کر وہ پھر سو گیا۔
حکمت میں مرقوم ہے۔ جو شخص اپنی اطاعت کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے شرم کرتا ہے۔ تو اس کی گناہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ اس سے شرم کرتا ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا۔ حیا کیاشے ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حیاء ایسی حالت ہے جو نعمت دیکھنے اور خطاء و کوتاہی دیکھنے کے درمیان پیدا ہوتی ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے بدبختی کی پانچ علامتیں ہیں۔
اول: حیا کی کمی۔ دوم: دل کی سختی سوم: آنکھ کی بے حسی چہارم: دنیا کی رغبت پنجم: لمبی امید
پھر اگر نیکیاں برائیوں میں تبدیلی سے محفوظ ، اور حقیقتیں دعوؤں سے پاک بھی ہوں ۔ پھر بھی مشیت الہٰی کا معاملہ مبہم، اور سابقہ اور خاتمہ دونوں نا معلوم ہیں۔ لہذا کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کیا کرے گا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں