حقیقی عاشق (پچیسواں باب)

حقیقی عاشق کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 243 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔
243) لَيْسَ المُحِبُّ الَّذِي يَرْجُو مِنْ مَحْبُوبِهِ عِوَضاً وَيَطْلُبُ مِنْهُ غَرضاً
وہ شخص عاشق نہیں ہے، جو اپنے محبوب سے بدلہ پانے کی امید رکھتا ہے۔ اور اس سے کوئی غرض حاصل ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ بلا شبہ و ہ محبت جو مقاصد اور فوائد پر مبنی ہو محبت نہیں ہے۔ بلکہ وہ صرف حاجت پوری کرنے کے لئے ہتھکنڈہ ہے۔لہذا جو شخص کسی سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اس کو کچھ دے یا اُس سے کچھ دور کرے تووہ در حقیقت صرف اپنے نفس سے محبت کرتا ہے۔ اس لئے کہ اگر اس میں اس کے نفس کی غرض ہوتی تو وہ اس سے محبت نہ کرتا۔
حضرت ابو رویم رضی اللہ نے فرمایا ہے ۔ ۔ جو شخص بدلہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے نیز انہوں نے فرمایا: – بدلہ چاہنے والا ، ایسا سوداگر ہے جو چاہتا ہے کہ اُس کو دیا جائے تا کہ وہ کچھ پائے ۔ اور محبت کرنے والا تو اپنے محبوب کی محبت میں مقتول ہوتا ہے۔ وہ اُس کے سوا کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ہے۔
اور اسی مفہوم میں یہ اشعار کہے گئے ہیں:۔
بُنِی الحُبُّ عَلَى الجَور فَلَو أَنْصَفَ المَحْبُوْبُ فِيْہِ لَسَمُجْ
محبت کی بنیادظلم پر رکھی گئی ہے۔ لہذا اگر محبت میں محبوب سے انصاف طلب کیا جائے تو یہ گستاخی ہے۔
لَيْسَ يُسْتَحْسَنُ فِي حُكْمِ الْهَوَى….. عَاشِقٌ يَطْلُبُ تَالِيفَ الْحِجَج
محبت میں یہ بہتر نہیں سمجھا جاتا ہے کہ عاشق محبت کرنے والے کی دلجوئی کا مطالبہ کرے۔
اور اُن چیزوں میں سے جو محبت اور عشق میں بہتر نہیں سمجھی جاتی ہیں محبوب کے ظلم و ستم سے رنج و غم ظاہر کرنا ، یا اُس کی شکایت اور گلہ کرنا ہے۔ بلکہ محبوب کے ظلم وستم پر صبر اور برداشت کرنا واجب ہے۔ تا کہ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے ۔ اور اس کے بارے میں یہ اشعار کہے گئے ہیں:۔
إِنْ شَكَوتَ الْهَوَى فَمَا أَنتَ مِنَّا —- احْمِلِ الصَّدَّ وَ الْجَفَا يَا مُعَنَى
اگر تم محبت میں شکایت کرتے ہو تو ہم میں سے نہیں ہو۔ اے مظلوم عاشق تم محبوب کے ظلم اور اُس کی بے تو جہی کو برداشت کرو ۔
تَدَّعِي مَذَهَبَ الهَوَى ثُمَّ تَشْكُوا أَيُّ دَعْوَاكَ فِي الْهَوَى قُلْ لِي آیْنَا
تم محبت کے راستے پر چلنے کا دعوی کرتے ہو، پھر تم شکایت کرتے ہو۔ تم مجھ کو بتاؤ کہ تمہاری محبت کادعوی کتنا صحیح ہے۔
لَوْ وَجَدْنَاكَ صَابِرًا لِهَوَانَا لَاتَيْنَاكَ كُلَّ مَا تَتَمَنَّى
اگر ہم تم کو اپنی محبت میں صابر پاتے تو ہم تم کو وہ سب کچھ عطا فرماتے جن کی تم آرزو کرتے ہو۔
اور ایک دوسرے عارف شاعر نے کہا ہے :-
الحبُّ دِينِي فَلَا ابْغَى بِهِ بَدَلًا وَالْحُسْنُ مَلٌكَ مُطَاعٌ جَارَ امْ عَدْلًا
محبت میرا مذہب ہے۔ میں اُس کا کوئی بدلہ نہیں چاہتا ھوں اور حسن قابل اطاعت بادشاہ ہے خواہ وہ ظلم کرے یا انصاف کرے۔
وَ النَّفْسُ عَزَّتْ وَلكِنْ فِيكَ آبْذُلُهَا وَالذلُ مُرٌّ وَلكِنْ فِي رِضَاكَ حَلَا
اور نفس اگر چہ پیارا ہے لیکن میں اُس کو تیری محبت میں قربان کر دوں گا ۔ اور ذلت اگر چہ کڑوی ہے لیکن تیری رضا مندی میں میٹھی ہو گئی ہے۔
يَا مَنْ عَذَابِي عَذَبٌ فِي مَحَبَّتِهِ لَا اشْتَكَى مِنْكَ لَا صَدا و لَا مَلَلا
اے وہ ذات جس کی محبت میں میری سختی شیریں ہو گئی ہے۔ نہ میں تجھ سے تیری بے تو جہی کی شکایت کرتا ہوں ، نہ رنج وغم کی ۔
اور اگر تم چاہو تو اس طرح کہو :- محبت – بندے کے قلب میں اللہ تعالیٰ کا اس طرح قائم ہونا ہے کہ وہ اس کے غیر کی طرف توجہ نہ کرے۔
یا محبوب کے جمال کا قلب کی محبت میں اس طرح قائم ہونا ہے کہ وہ محبوب کے سواد و سری شے کی طرف توجہ کرنے کی گنجائش اپنے اندر نہ پائے۔ لہذا جب کسی دوسری شے کی طرف توجہ واقع ہوتی ہے۔ تو اس کے مطابق محبت میں کی ہوتی ہے۔
کسی شخص نے ایک عورت سے کہا: میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ اُس عورت نے جواب دیا ۔
تم مجھ سے کس طرح محبت کرتے ہو۔ جبکہ تمہارے پیچھے ایک ایسی صورت موجود ہے جو مجھ سے زیادہ حسین و جمیل ہے۔ وہ شخص پیچھے کی طرف دیکھنے لگا۔ تو عورت نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ تم جیسے محبت کرنے والوں کو برباد کرے۔ تم میری محبت کا دعوی کرتے ہو۔ اور دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہو۔
اسی طرح بندہ جب اپنے آقائے حقیقی کی محبت کا دعوی کرتا ہے پھر کسی دوسری شے کو چاہتا ہے، یا اس کے ماسوا کسی شے کو بہترسمجھتا ہے یا کچھ شکایت کرتا ہے، یا اپنے محبوب کے سوا کسی شے سے ڈرتا ہے تو وہ محبت میں ناقص ہے۔ یا محبت کا صرف دعوی کرتا ہے۔ اور جو شخص ایسی شے کا دعوی کرتا ہے جو اس کے اندر نہیں ہے تو امتحان کے گواہان اُس کو ذلیل ورسوا کر دیتے ہیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں