حیلہ اسقاط کاطریقہ اور ثبوت

حیلہ اسقاط کاطریقہ اور ثبوت

حیلہ اسقاط ایک فقہی اصطلا ح ہےجس کامطلب ہے کہ اگر کسی میت کے ذمہ کچھ نماز، روزہ، زکوۃ، کفارہ قسم دیگر واجبات شریعہ رہ گئی ہوں اس پر لازم ہے کہ باقاعدہ قضا کرےقضا نہ کرنے کی صورت میں وہ مجرم ہوگا اگر ادا نہ کر سکا مرض الوفات کی وجہ سے یا کسی اور غلطی کوتاہی بھول چوک کی وجہ سے تو اس پر وصیت لازم ہے کہ اس کےترکہ میں سے ایک تہائی نماز روزوں کا فدیہ دیا جائے اور اگر ایک تہائی سے تمام چیزوں کا فدیہ ادا نہ ہوسکے اس کے لیے ایک حیلہ فقہاء نے نکالا ہے کہ مرد کے لیے بارہ سال عورت کے لیے  نو سال نکال کر اس کے مرنے تک کے سالوں اور دنوں کی نماز روزہ کا حساب لگایا جائے کہ مرض الوفات میں کتنی نمازیں یا روزے رہ گئے اور بھول چوک سے اندازاً کتنی نمازیں روزے رہ گئے ہوں گے ایک سال میں 365 دن ہوتے ہیں ایک دن میں چھ نمازیں اور ایک سال میں 30 روزے ہیں اس طرح تمام نمازوں اور روزوں کے فدیہ کا حساب کر لیں ایک نماز کا فدیہ روزہ کی فدیہ کے برابر ہے یعنی نصف صاع گندم(تقریبا دو کلو گندم) یا اس کی قیمت علامہ طحطاوی اور علامہ شرنبلالی نے نماز، روزہ کے بعد کفارہ یمین، کفارہ قتل خطا، کفارہ ظہار، حالت احرام میں جو جنایت کی، نذر کے روزے چھوڑنے ، نفقہ واجبہ، صدقات واجبہ ،اعتکاف نفل کو بھی شامل کیا ہے۔

أَرَادَ ‌الْفِدْيَةَ عَنْ صَوْمِ أَبِيهِ أَوْ صَلَاتِهِ وَهُوَ فَقِيرٌ يُعْطِي مَنَوَيْنِ مِنْ الْحِنْطَةِ فَقِيرًا ثُمَّ يَسْتَوْهِبُهُ ثُمَّ يُعْطِيهِ وَهَكَذَا إلَى أَنْ يُتِمَّ(الاشباہ والنظائر)

اگر کسی نے اپنے باپ کے روزہ یا نماز کا فدیہ ادا کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اتنی وسعت نہیں کہ تمام نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرے تو حیلہ اسقاط کرے۔

صرف نمازوں کا حساب لگایا جائے تواس طرح ہوگاکہ ایک دن کی چھ نمازوں(بشمول وتر) کا فدیہ تقریبا 12 کلو گرام گندم  یا اس کی قیمت ہو گا ایک ماہ(30 دن) کی نمازوں کا فدیہ 360کلوگرام (9 من)یا اس کی قیمت ہوا اور عیسوی سال(365دن) کا فدیہ 4380کلوگرام (109.5من)یا اس کی قیمت ہوگی۔ بعض لوگ قرآن کو اس میں رکھتے ہیں کہ اس کی کوئی قیمت نہیں تو یہ غلط ہےاس قرآن پاک کی موجودہ قیمت (ہدیہ) شمار ہوگا

اگر میت کے ایک تہائی مال کو دے کر بھی یہ فدیہ ادا نہ ہو سکے تو اس کی ادائیگی کا حیلہ یہ ہے کہ جتنی رقم کی طاقت ہے اتنی رقم ایک فقیر کو صدقہ کر دی جائے اور فقیرسے درخواست کی جائے کہ مجھے دوبارہ رقم ہبہ کر دی جائے اور وہ اگر بخوشی ہبہ کر دے تو اس رقم کو اسی فقیر یا کسی اور کو دوبارہ صدقہ کردیا جائے اور یہ عمل متعدد بار دوہرا کر کفارہ ادا کیا جائےاور یہ رقم اب وارث واپس نہیں لے گا اب اس رقم کے حقدار صرف محتاج ہی ہونگے

اس متعدد بار لینے دینے کو دور کہا جاتا ہے اور وہ لوگ جن پر ان چیزوں کا دور کرایا جاتا ہے فقیر محتاج زکوۃ لینے کے قابل ہونے چاہئیں اگر ان میں کوئی بھی محتاج نہ ہوا سب غنی ہوئے تو بے شک کفارہ ادا نہیں ہوگا(فتاویٰ رضویہ)

حیلہ اور دھوکہ میں فرق ہےحیلہ شرعی ضرورت کے پورا کرنے کی تدبیر کو کہتے ہیں جس کے دلائل قرآن و حدیث اور فقہ میں موجود ہیں یہ اللہ کی رحمت کا سہارا لینا ہے جوباعث ثواب ہے جبکہ دھوکہ حرام و گناہ ہےمسلمانوں کو اس دور اسقاط میں سستی نہ کریں کیونکہ یہ حیلہ اسقاط میت کیلئے عذاب قبر، غضب الہی سے بچنے کا ذریعہ ہےولا ینبغی ان یتساھل فی ھذا الامر(ای دور الاسقاط)فان بہ نجات المیت من عذاب اللہ تعالیٰ وغضبہ(مجموعہ رسائل الشامی جلد 1رسالۃ المنۃ الجلیل لاسقاط ما علی الذمۃ من کثیر و قلیل)

اسقاط کے معنی

یہ عربی لفظ ہے جس کا معنی گرادینا ہےجبکہ اصطلاح شریعت میں میت کے ذمہ احکام شرعیہ کو گرا دینا تاکہ فوت ہونے والے کے عمدا یا سہوا غفلت سے چھوڑے ہوئےشرعی احکام (اللہ کے قرض)کیلئے کوئی حیلہ کیا جائےتاکہ عذاب سے بچ جائے جن پر اب وہ میت قدرت نہیں رکھتایہ شرعی ضرورت نہیں میت کی مدد،بھلائی اور نجات کیلئےہے۔

حیلہ کے معنی

حیلہ جس کی جمع حیل ہے کے معنی قوت و طاقت، ہوشیاری و دوربینی اور کاموں میں تصرف کی قوت ہے ۔اصطلاح شریعت میں حیلہ اس جائز طریقے کو کہتے ہیں جس سے ضرورت شرعیہ کو پورا کیا جاسکےاور دور اندیشی سے اس طرح انتظام کیا جائے کہ مقصد کی طرف راہ مل جائے(الحِيلَة ‌ما ‌يتوصّل ‌به إلى حالة ما في خفية)۔ اس میں مساکین کا فائدہ، میت کی بخشش کی امید اور صدقہ کرنے والوں کوبشرط اخلاص صدقہ کا ثواب ملتا ہے

وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُدْخِلُ بِلُقْمَةِ الْخُبْزِ، وَقَبْضَةِ التَّمْرِ، وَمِثْلِهِ مِمَّا يَنْتَفِعُ بِهِ الْمِسْكِينُ ثَلَاثَةً الْجَنَّةَ: رَبَّ الْبَيْتِ، وَالْآمِرَ بِهِ، وَالزَّوْجَةَ تُصْلِحُهُ، وَالْخَادِمَ الَّذِي يُنَاوِلُ الْمِسْكِينَ “. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي ‌لَمْ ‌يَنْسَ ‌أَحَدًا ‌مِنَّا(الترغیب والترہیب للمنذری)

اللہ عزوجل روٹی کے لقمے، کھجور کی مٹھی ، اور اس کے مثل جو مسکین کو نفع دے کی بدولت تین لوگوں کو جنت میں داخل کرتا ہے گھر کے مالک، جس نے اس کے دینے کا حکم کیا، بیوی کو جس نے وہ چیز تیار کی اور وہ خادم کو جس نے مسکین کو وہ شے اٹھا کردی۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم میں سے کسی کو نہیں بھلایا

اگر میت نے حیلہ اسقاط کی وصیت کی ہو تو اس کی طرف سے اس کے ترکہ میں سے تیسرا حصہ دیکر کر وصیت پوری کرنا واجب ہے اور واجب کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہےاور اگر وصیت کے بغیر اس کے ورثاءیا کوئی بھی شخص اسقاط کرے تو ثواب کی امید ہے

 مسلمان میت سے احکام خداوندی کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں ہوئیں، ان کوتاہیوں کے ازالہ کے لیے کوئی شرعی حیلہ کیا جائے تاکہ میت کو فائدہ ہو اور غرباء کی مدد۔ شرعی اصول یہ ہے کہ جب تک کسی امر شرعی کی خلاف ورزی نہ ہو، ہر کام کم از کم جائز ہوتا ہے۔ اگر حیلہ اسقاط کرنے والے اسے فرض یا واجب نہیں مانتے تو اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جب کہ حیلہ شرعی میں احکام شرع کو ٹالنا ، کسی کو ضرر پہنچانا ، کسی کو اس کے جائز حق سے محروم کرنا مقصود نہ ہو، حیلہ امر شرعی (امور واجبہ کے ذمہ سے سقوط کے لیے بوقت مجبوری )کیا جاتا ہے ،لہٰذا یہ جائز اور مباح حیلہ کی قسم سے ہے

حیلہ اسقاط کے شرائط

  حیلہ اسقاط کیلئے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں

1) میت اور ورثا کے مال میں سے فدیہ ذمے سے ساقط نہ ہوسکتا ہو۔ 

2) میت کے مال میں سے اگر کیا جائے تو تمام بالغ ورثا اس پر دل سے راضی ہوں۔

3) اگر کوئی نابالغ وارث بھی ہے تو اس کے حصے میں سے اس رقم سے کوئی کمی نہ ہونے پائے ،بلکہ جو بالغ ورثا یہ حیلہ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے حصوں سے ادا کریں۔ 

4) جس کو یہ مال دے رہے ہیں وہ مستحق ہو۔ 

5) اس مستحق فقیر کو اس مال کا مالک بناکر اس پر قبضہ دیا جائے۔

6) جس فقیر کو دیا جاتا ہے اس کا اپنی مرضی اور دلی رضا مندی سے اس مال کا میت کے ورثا کو ہبہ کرنا بھی ضروری ہے۔اس پر کوئی زور زبردستی نہ کی جائے۔

حیلہ کی کئ قسمیں ہیں

پہلی قسم حیلہ حرام اگر جائز طریقہ سے کسی کا حق باطل کیا جائے یا کسی باطل کو حاصل کیا جائے تو یہ حرام ہے جیسے اصحاب السبت نے کیا تھا

دوسری قسم جو جائز طریقہ سے کسی حق کو حاصل کیا جائے یا کسی باطل اور ظلم کو دفع کیا جائے تو یہ حیلہ مباح ہے جیسے حضرت ایوب علیہالسلام نے کیا۔

ھماریے ھاں مروجہ حیلہ میں نہ تو حرام کو حلال اور نہ کسی کا حق باطل کیا جاتا ھے

حیلہ اسقاط کا ثبوت قرآن سے

(البقرہ:182)وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ

اور جو روزے کی طاقت نہیں رکھتے ان پر فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا

اہل سنت وجماعت کے نزدیک ہر نماز کا فدیہ ایک روزہ کے برابر ہےاور حیلہ اسقاط کی اصل یہ آیت مبارکہ ہے

حضرت ایوب علیہ السلام نے دیر سے آنے پر اپنی اہلیہ محترمہ کو سو لکڑیاں مارنے کی قسم کھائی تو اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا

(ص:44)وَخُذْ بِيَدِكَ ‌ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ  

کے آپ اپنے ہاتھ میں جھاڑو لے کر انہیں ماریں اور قسم نہ توڑیں
یہ حیلہ کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے خود بتائی ہے
حضرت یوسف علیہ السلام بنیامین کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے ساتھ ہی یہ ارادہ تھا کہ حقیقت کا انکشاف نہ ہو اس لیے یہ حیلہ اختیار فرمایا کہ شاہی پیالہ حضرت بنیامین کے کجاوے میں رکھوا دیا اور تلاش سے پہلے بھائیوں سے پوچھ لیا کہ چور کی سزا کیا ہے انہوں نے کہا کہ مال کا مالک چور کو غلام بنا لے تلاشی ہوئی پیالہ اس طرح آپ نے حضرت بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیا حالانکہ مصر کے قانون میں گنجائش نہ تھی اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے

كَذَلِكَ ‌كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ(یوسف :76)

ہم نے یوسف علیہ السلام کو یہی تدبیر بتائی بادشاہی قانون میں اپنے آپ بھائی کو نہ رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ تعالی چاہتا
حضرت موسی علیہ السلام نے جب حضرت خضر سے وعدہ کیا تو کہا

قَالَ ‌سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا  (الکہف:69)

یعنی آپ مجھے ان شاء اللہ تعالی صابر پائیں گے
حضرت موسی علیہ السلام نے ان شاء اللہ کی قید کا اضافہ کر کے اپنے کلام کو جھوٹ ہونے سے بچا لیا یہ بھی ایک حیلہ تھا

حیلہ اسقاط کے ثبوت حدیث میں

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لَا يُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، وَلَا يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ وَلَكِنْ يُطْعِمُ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مُدًّا مِنْ حِنْطَةٍ(شرح مشكل الآثار ابو جعفر طحاوی۔سنن النسائي الكبرى)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص کسی میت کی طرف سے نہ نمازپڑھے اور نہ روزہ رکھے لیکن ہر نماز اور ہر روزہ کے بدلے میں دو مد (نصف صاع)گندم مسکین کو دے

عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، وَلَا يَصُومَنَّ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ وَلَكِنْ إِنْ كُنْتَ فَاعِلًا تَصَدَّقْتَ عَنْهُ أَوْ أَهْدَيْتَ(مصنف عبد الرزاق)

سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إنَّا نَتَصَدَّقُ عَنْ مَوْتَانَا وَنَحُجُّ عَنْهُمْ وَنَدْعُو لَهُمْ فَهَلْ يَصِلُ ذَلِكَ إلَيْهِمْ قَالَ نَعَمْ وَيَفْرَحُونَ بِهِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالطَّبَقِ إذَا أُهْدِيَ إلَيْهِ(المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود)

عَنْ أَبی سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَائَ بِلَالٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَيْنَ هَذَا قَالَ بِلَالٌ کَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِکَ أَوَّهْ أَوَّهْ عَيْنُ الرِّبَا عَيْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ وَلَکِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعْ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِهِ(بخاری)

حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں، کہ بلال نبی ﷺ کے پاس برنی کھجور (ایک عمدہ قسم کی کھجور) لے کر آئے، آپ نے پوچھا کہاں سے ملی ؟ بلال نے عرض کیا، کہ میرے پاس خراب قسم کی کھجور تھی، میں نے ایک صاع کے عوض دو صاع کھجوریں بیچ ڈالیں، تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھلاؤں، نبی ﷺ نے اس وقت فرمایا : اوہ، اوہ، توبہ، توبہ، یہ تو بالکل سود ہے، یہ تو بالکل سود ہے ایسا نہ کیا کرو، بلکہ جب تم خریدنا چاہو تو اپنی کھجور کسی چیز کے بدلے بیچ دو ، پھر اس کے عوض دوسری کھجور خرید لو۔

گویا سود(جو حرام ہے) سےبچنے کا حیلہ بتایا اور مقصد بھی حاصل ہو گیااس میں کسی کا حق بھی نہیں مارا گیا

عَنْ أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ “أَنَّهُ اشْتَكَى رَجُلٌ مِنْهُمْ حَتَّى أُضْنِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَادَ جِلْدَةً عَلَى عَظْمٍ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ جَارِيَةٌ لِبَعْضِهِمْ فَهَشَّ لَهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ رِجَالُ قَوْمِهِ يَعُودُونَهُ أَخْبَرَهُمْ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَفْتُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي قَدْ وَقَعْتُ عَلَى جَارِيَةٍ دَخَلَتْ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا رَأَيْنَا بِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ مِنَ الضُّرِّ مِثْلَ الَّذِي هُوَ بِهِ لَوْ حَمَلْنَاهُ إِلَيْكَ لَتَفَسَّخَتْ عِظَامُهُ مَا هُوَ إِلَّا جِلْدٌ عَلَى عَظْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذُوا لَهُ مِائَةَ شِمْرَاخٍ فَيَضْرِبُوهُ بِهَا ضَرْبَةً وَاحِدَةً(سنن ابو داؤد)

ابوامامہ اسعد بن سہل بن حنیف انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری صحابہ نے انھیں بتایا کہ انصاریوں میں کا ایک آدمی بیمار ہوا وہ اتنا کمزور ہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑا باقی رہ گیا، اس کے پاس انھیں میں سے کسی کی ایک لونڈی آئی تو وہ اسے پسند آگئی اور وہ اس سے جماع کر بیٹھا، پھر جب اس کی قوم کے لوگ اس کی عیادت کرنے آئے تو انھیں اس کی خبر دی، اور کہا میرے متعلق رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھو، کیونکہ میں نے ایک لونڈی سے صحبت کرلی ہے، جو میرے پاس آئی تھی، چنانچہ انھوں نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا، اور کہا : ہم نے تو اتنا بیمار اور ناتواں کسی کو نہیں دیکھا جتنا وہ ہے، اگر ہم اسے لے کر آپ کے پاس آئیں تو اس کی ہڈیاں جدا ہوجائیں، وہ صرف ہڈی اور چمڑے کا ڈھانچہ ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ درخت کی سو ٹہنیاں لیں، اور اس سے اسے ایک بار مار دیں ۔

لَوْ أَنَّ الصَّدَقَةَ جَرَتْ عَلَى يَدَيْ سَبْعِينَ أَلفَ إِنْسَان، كَانَ ‌أجْرُ ‌آخِرِهم مِثْلَ أجر أوَّلِهمْ(الفردوس بماثور الخطاب:کنز العمال)

اگر صدقه ستر لاکھ انسانوں کے ھاتھوں پھر جاۓ تو اول وآخر ثواب برابر ھے

حیلہ اسقاط کے ثبوت فقہ میں

ہمارے فقہاء کرام نے اپنی تصانیف میں شرعی حیلہ کے جواز کیلئے مستقل باب باندھے ہیں

فقہ حنفی کی مشہور کتاب نور الایضاح میں ایک مکمل فصل(‌‌فصل في إسقاط الصلاة والصوم) ہے

اس میں نماز روزہ نہ رکھنے اور نماز روزوں کے فدیہ کا مکمل طریقہ بتایا ہے

فتاویٰ عالمگیری میں حیلوں کا ایک مستقل باب ہے جس کا نام کتاب الحیل رکھا

اور درالمختار میں دور کے جائز ہونے کا ذکر کیاا ہے وَلَوْ لَمْ يَتْرُكْ مَالًا يَسْتَقْرِضُ وَارِثُهُ ‌نِصْفَ ‌صَاعٍ مَثَلًا وَيَدْفَعُهُ لِفَقِيرٍ ثُمَّ يَدْفَعُهُ الْفَقِيرُ لِلْوَارِثِ ثُمَّ وَثُمَّ حَتَّى يَتِمَّ

اگر میت نے کچھ مال نہیں چھوڑا تو وارث نصف صاع گندم لے کرفقیر کو دے ،فقیر وارث کو دے اور وارث فﷺیر کو دے حتی کہ مقدار پوری ہو جائے

اور علامہ شامی نے اس کا طریقہ بھی بتایا ہے۔وَالْأَقْرَبُ أَنْ يَحْسِبَ مَا عَلَى الْمَيِّتِ وَيَسْتَقْرِضَ بِقَدْرِهِ۔۔۔۔۔الی اخر

اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حساب کرے کہ میت پر کتنی نمازیں اور روزے وغیرہ ہیں اور اس انداز سے قرض لے اس طرح کے ایک ایک مہینہ یا ایک سال کا انداز ہ کر لیں یا میت کی کل عمر کا اندازہ کرلیں اور پوری عمر میں سے بلو غت کی کم از کم مدت مرد کے لئے 12 سال ہے اور عورت کے لیے نو سال نکال دیں پھر حساب کرلے تو ہر مہینہ کی نمازوں کا فدیہ نصف عزارہ ہوگا اور ہر شمسی سال کا کفارہ 6 عزارہ ہواپس وارث اس کی قیمت قرض لے اور فقیر کو اسقاط کے لیے دے پھر فقیر اس کو دے دے اور وارث ہبہ قبول کرکے موہوب(ہبہ کردہ شے) پر قبضہ کرلے پھر وہی قیمت اسی فقیر کو یا دوسرے کو فدیہ میں دے اسی طرح دورہ کرتا رہے تو ہر دفعہ میں ایک سال کا کفارہ ادا ہو گا اور اس کے بعد روزہ اور قربانی کے کفارہ کے لیے دورہ کریں پھر کفارہ یمین(قسم) کے لئے کفارہ ہے لیکن اس میں دس مسکینوں کا ہونا ضروری ہےبرخلاف فدیہ نماز کے کہ اس میں چند نمازوں کا فدیہ ایک شخص کو دے سکتا ہے

حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، ایک بار حضرت ِسیِّدَتُنا سارہ اور حضرتِ سیِّدَتُنا ہاجَرہ رضی اللہ عنھا میں کچھ چَپقَلِش ہوگئی۔حضرتِ سیِّدَتُنا سارہ رضی اللہ عنھا نے قسم کھائی کہ مجھے اگر قابو ملا تو میں ہاجَرہ رضی اللہ عنھا کا کوئی عُضو کاٹوں گی۔ اللّٰہ عزوجل نے حضرتِ سیِّدُنا جبر ئیل عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو حضرت سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی خدمت میں بھیجا کہ ان میں صُلح کروا دیں۔حضرتِ سیِّدَتُنا سارہ رضی اللہ عنھما نے عرض کی،’’مَاحِیلَۃُ یَمِیْنِی‘‘ یعنی میری قسم کا کیا حِیلہ ہوگا؟ تو حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر وَحی نازِل ہوئی کہ (حضرتِ) سارہ رضی اللہ عنھا کو حکم دو کہ وہ (حضرتِ) ہاجَرہ رضی اللہ عنھاکے کان چَھید دیں۔ اُسی وَقت سے عورَتوں کے کان چَھیدَنے کا رَواج پڑا۔(غمزعُیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر)


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں