خاص اسرار جو خواص کانصیب ہے مکتوب نمبر172دفتر اول

 ان بعض خاص اسرار کے بیان میں جو خواص میں سے بہت تھوڑوں کونصیب ہوتے ہیں اور اس بیان میں کہ عارف اس مقام میں اپنے آپ کو دائرہ شریعت سے باہر معلوم کرتا ہے اس کا کیا سبب ہے اور شریعت روشن کے ظاہر کے ساتھ اس کے مطابق کرنے اور اس کے مناسب بیان میں شیخ بدیع الدین کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

حمد وصلوة کے بعد میرے عزیز بھائی کو معلوم ہو کہ شریعت کے لئے ایک صورت یعنی ظاہر ہے اور ایک حقیقت یعنی باطن ہے اس کی صورت وہ ہے جو علمائے ظاہر اس کے بیان کرنے کے ذمہ دار ہیں اور اس کی حقیقت وہ ہے جس سے صوفیہ علیہ ممتاز ہیں۔ شریعت کی صورت کا نہایت عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) سلسلہ ممکنات کی نہایت تک ہے۔ بعد ازاں اگر وجوب کے مر تبوں میں سیرواقع ہوتو صورت حقیقت کے ساتھ مل جائے گی اور اس آمیزش(صورت و حقیقت کے ملنے) کا معاملہ بھی شان علم (علم کی شان)کے عروج تک ہے جو سید البشر ﷺکے تعین کا مبدأ ہے۔ اس کے بعد اگر ترقی واقع ہوتو صورت و حقیقت دونوں کو وداع کریں گے۔ اگر عارف کا معاملہ شان حیات سے جا پڑے گا اور اس عظیم الشان شان کو عالم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے۔ یہ شان حقیقی اور شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) سے ہے جس کو اضافت کی گردنہیں پہنچی تا کہ جہان سے تعلق پیدا کرے اور یہ شان مقصود کا دروازہ اور مطلوب کا مقدمہ ہے۔ اس مقام میں عارف اپنے آپ کو دائرہ شریعت سے باہر پاتا ہے۔ لیکن چونکہ محفوظ ہے اس لئے شریعت کے دقائق(اسرار) میں سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا ہے(یعنی شریعت کا  پابند رہتا ہے) اور وہ لوگ جو اس اعلی دولت سے مشرف ہوئے ہیں بہت ہی تھوڑے ہیں اور اگر ان کی تعداد بیان کی جائے تو بہت ہی کم نکلیں گے اور صوفیوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس مقام عالی کے ظلال تک پہنچے ہیں کیونکہ ہر مقام عالی کے لئے اس میں اس کے ظلال میں سے ایک ظل ہے۔ انہوں نے سمجھا ہے کہ قدم دائرہ شریف سے باہر رکھا ہے اور پوست کو چھوڑ کر مغزتک پہنچ گئے ہیں۔ یہ مقام صوفیوں کے قدموں کے پھسلنے کی جگہ ہے۔ بہت سے ناقص اس طریق سے الحادوزندقہ(بے دینی) میں جاگرے ہیں اور شریعت اغر کی تابعداری سے سرنکال لیا ہے۔ ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور اوروں کو بھی گمراہ کیا اور کامل لوگ جو ولایت کے درجوں میں سے کسی درجہ میں مشرف ہوئے ہیں اور اس مقام عالی کے ظلال میں سے کسی ظل میں اس معرفت کو حاصل کیا ہے اگر چہ اس مقام کے اصل تک نہیں پہنچے لیکن محفوظ ہیں اور شریعت کے آداب میں سے کسی ادب کو فروگزاشت کرنا پسند نہیں کرتے ۔ اگر چہ اس معرفت کے بھید نہیں جانتے اور اصل معاملہ کو نہیں سمجھتے اور جب الله تعالیٰ کی عنایت اور اس کے حبیب ﷺکےصدقہ سے اس فقیر پر اس معمہ کا بھید منکشف ہوگیا ہے اور اصل معاملہ جیسا کہ چاہیئے واضح روشن ہوگیا ہے اور اس کا تھوڑا سا ماجرا معرض بیان میں لاتا ہے شاید کہ ناقص راه راست پر آ جائیں اور کاملوں پر حقیقت معاملہ ظاہر ہو جائے۔ 

جاننا چاہیئے کہ شرعی تکلیفات(شرعی پابندیاں) قالب(جسم) اور قلب پر مخصوص ہیں کیونکہ تزکیہ نفس ا نہی پرموقوف ہے اور وہ لطیفے جو دائرہ شریعت سے باہر قدم رکھتے ہیں وہ ان کے ماسوا ہیں(یعنی لطائف اربعہ  روح،سر، خفی، اخفی)۔ پس جو شریعت سے مکلف ہے وہ ہمیشہ مکلف ہے اور وہ جو مکلف نہیں ہے وہ ہرگز مکلف نہیں ہوگا۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ سلوک سے پہلے لطائف ایک دوسرے سے ملے جلے ہوتے ہیں اور قلب سے جدائی نہیں رکھتے جب سیر و سلوک سے ہر ایک کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور اپنے اصلی مقام میں پہنچایا تو معلوم ہوا کہ مکلف کون تھا اور غیر مکلف کون۔

سوال: اگر کہیں کہ اس مقام میں عارف اپنے قلب اور قالب کوبهی دائرہ شریعت سے باہر پاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

 جواب: ہم کہتے ہیں کہ وہ پانا تحقیقی نہیں ہے بلکہ تخیلی ہے اور اس تخیل کا منشاء قلب و قالب کا ان لطائف (اربعہ)میں سے جنہوں نے قدم باہر رکھا ہے۔ زیاد لطيف لطیفے کے رنگ میں رنگ جانا ہے اور اگر یہ کہیں کہ اگرچہ صورت شریعت کی تکلیفات قلب و قالب پرمخصوص ہیں لیکن شریعت کی حقیقت کو قلب سے آگے بھی گنجائش ہے تو پھر مطلق شریعت سے قدم باہر رہنے کے کیا معنی ہوئے تو ہم کہتے ہیں کہ شریعت کی حقیقت بھی روح وسر سے آگے نہیں گزرتی اور خفی واخفی تک نہیں پہنچتے اور قدم باہر رہے ہوئے حقیقت میں یہی خفی اور خفی ہیں وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ وَجَمِيْعَ الْمُسْلِمِيْنَ عَلىٰ مُتَابَعَةِ سَيِّدِ الُمُرْسَلِيْنَ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ اَتَمُّهَا وَاَکْمَلُھَا ۔ الله تعالیٰ ہم کو اور تمام مسلمانوں کو سید المرسلین ﷺکی متابعت پر ثابت قدم رکھے۔ . 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ21ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں