خرق عادات حسن ادب سے (تیرھواں باب)

خرق عادات حسن ادب سے کے عنوان سے تیرھویں باب میں  حکمت نمبر 128 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
باطنی خرق عادات : یعنی حجابات کا اٹھنا اور محبوب کا مشاہدہ کرنا ۔ صرف طلب ( خواہش )سے حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ ادب کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اس کے ذرائع میں کوشش کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس سے آگاہ فرمایا ہے ۔
128) مَا الشَّأْنُ وُجُودُ الطَّلَبِ ، إِنَّمَا الشَّأْنُ أَنْ تُرْزَقَ حُسْنَ الأَدَبِ.
طلب کا موجود ہونا کچھ شان نہیں بلکہ در حقیقت شان یہ ہے کہ تم کو حسن ادب کی توفیق دی جائے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہو ں :۔ اس کتاب کے پہلے باب میں یہ بیان گزر چکا ہے کہ اہل عقل محققین کے نزد یک کل طلب : – مدخول ہے یعنی اس میں فساد شامل ہے کیونکہ طلب کرنے کی خواہش نفس کے موجود ہونے اور حس ظاہر کے ساتھ ٹھہرنے سے ہوتی ہے اس لیے کہ محقق عارف کیلئے گوئی کی حاجت باقی نہیں رہتی ہے جس کو وہ طلب کرے ۔ کیونکہ اس کو غناء اکبر (بہت بڑی بے نیازی دولت ) حاصل ہو چکی ہے اور وہ اپنے مولائے حقیقی کی طرف سے بہت بڑا حصہ پانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور وہ اللہ تعالی کی معرفت اور اس کے ماسوا سے غائب ہونا ہے تو تم نے جو کچھ پایا ہے۔ اگر وہ گم ہو جائے تو طلب کی صورت کو پایا جانا ، کچھ شان نہیں ہے۔ بلکہ در حقیقت شان یہ ہے کہ تم اللہ تعالی کے ساتھ ہر مقصد سے بے نیاز ہو جاؤ اور تم کو اس کے ساتھ حسن ادب اور اللہ تعالی کے علم کو کافی سمجھنے اور اللہ تعالی کے ارادے کے ساتھ ٹھہرنے کی توفیق عطا کی جائے۔
حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے ادب کی تین صورتیں ہیں
پہلی صورت۔ ظاہر میں آداب :- اور یہ حقوق کا قائم کرنا ہے۔
دوسری صورت: باطن میں آداب :- اوریہ کل مخلوق سے منہ پھیر لینا ہے۔
تیسری صورت : ظاہر اور باطن دونوں میں آداب :- اور یہ اللہ تعالی کے خوف سے بے قرار ہونا ، اور ہمیشہ اس کے سامنے صدق کے فرش پر ثابت قدم رہنا اور یہی کل مقصد ہے اور اس کی تفصیل ، اور شاخ اور جڑ ہے۔ پس طلب :- عارفین کے نزدیک زبان قال سے نہیں ہوتی ہے بلکہ زبان حال سے ہوتی ہے اور وہ عاجزی اور ذلت اور محتاجی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں