خصوصی عنایتیں (باب ہفتم)

 خصوصی عنایتیں کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر68 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اوراد میں ہمیشہ قائم رہنا۔ اعضاء کی خدمت ہے۔ اور اہل خدمت کی شان ہے۔ اور عابد اور زاہد لوگ ہیں۔ اور اس سے قلوب کے عمل کی طرف منتقل ہونا ، اہل محبت اور معرفت کی شان ہے۔ اور وہ عارفین ہیں۔ اور سب اللہ کے بندے اور اس کی عنایت والوں سے ہیں۔ تو ان کو صرف جاہل یا مردودہی حقیر سمجھ سکتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا۔
68) قَوْمٌ أَقَامَهُمْ الْحَقُّ لِخِدْمَتِهِ ، وَقَوْمٌ اخْتَصَّهُمْ بِمَحَبَّتِهِ، ﴿كُلا نُمِدُّ هَؤُلاءِ وَهَؤُلاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا﴾.
ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خدمت کے لئے قائم کیا۔ اور ایک گروہ کو اپنی محبت کے ساتھ خاص کیا۔ اور ہم ان کی اور ان کی تمہارے رب کی بخشش سے مدد کرتے ہیں ۔ اور تمہارے رب کی بخشش محدود نہیں ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: عنایت کے ساتھ مخصوص بندوں کی دو قسمیں ہیں:۔ ایک قسم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خدمت کی طرف متوجہ کیا اور ان کو اس میں قائم کیا۔ اور ان کی کئی قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک قسم وہ لوگ ہیں جو رات کی نفلوں ، اور دن کے روزوں کے لئے آدمیوں سے علیحدہ ہو کر جنگلوں ، اور چٹیل میدانوں میں گزر کرتے ہیں۔ اور یہ عابدین اور زاہدین ہیں ۔
ان میں سے دوسری قسم :۔ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کے قائم کرنے اور شریعت کی حفاظت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اور یہ علما و صالحین ہیں۔
اور ان میں سے تیسری قسم : وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کی مدور اور اپنے کلمات کے بلند کرنے کے لئے قائم کیا ہے۔ اور یہ مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں۔
اور ان میں سے چوتھی قسم :۔ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ملک کی درستی اور بندوں کے آرام کے لئے قائم کیا ہے اور یہ امراء و بادشاہ ہیں۔
دوسری قسم وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ قائم اور اپنی معرفت کے ساتھ مخصوص کیا۔ اور یہ عارفین کا ملین ہیں۔ انہوں نے سیدھے راستے کا سلوک کیا۔ اورعین حقیقت تک پہنچ گئے ۔ اور دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اہل خدمت:۔ اجر کے طالب ہیں۔ اور اہل محبت سے پردے اٹھالئے گئے ہیں۔ اہل خدمت اپنا اجر دروازے کے باہر سے لیتے ہیں۔ اور اہل محبت :۔ احباب کے ساتھ مناجات میں ہیں۔ اہل خدمت:۔ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب حائل ہے اور اہل محبت ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب اٹھا دیا گیا ہے۔ اہل خدمت اہل دلیل و برہان سے ہیں ۔ اور اہل محبت : اہل مشاہدہ وعیاں سے ہیں ۔ اہل خدمت ۔ ان سے حظوظ نفس جدا نہیں ہوتے ہیں۔ اور اہل محبت :۔ ان کے اوپر فیوض الہٰیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اہل خدمت: ان کی محبت بہت سی چیزوں میں تقسیم ہے۔ اور اہل محبت : ۔ ان کی محبت ایک ذات میں جمع ہے۔ پس اس وجہ سے اہل خدمت، ہمیشہ اپنی خدمت میں مشغول رہتے ہیں۔ اور اہل محبت، اپنے محبوب کے مشاہدہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ پس اگر اہل خدمت حظوظ کو چھوڑ دیں۔ اور اپنی محبت ایک محبوب میں منحصر کر دیں۔ تو وہ بھی اپنے محبوب تک پہنچ جائیں گے۔ اور یقین کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کریں گے اور خدمت کی مشقت سے آرام پا جائیں گے۔ لیکن حکیم مطلق کی حکمت نے ان کو خدمت میں قائم کیا ہے۔ تو بہر حال ان کی تعظیم واجب ہے۔ اور اس سے ان کے او پر اہل محبت و معرفت کی فضیلت نہ ہونالازم نہیں ہوتا ہے۔ غور کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
انظر كيف فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلآخِرَةُ اكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَاكْبَرُ تَفْضِيلاً
غور کرو۔ کس طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ۔ اور البتہ آخرت درجات اور فضیلت کے اعتبار سے بہت بڑی ہے ۔ یہ آیت ان کے بعض کی بعض پر فضیلت کی دلیل ہے۔ لیکن بادشاہ کے سب غلام قابل عزت و تعظیم ہیں۔ بادشاہ یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ تم اس کے کسی بھی غلام کو حقیر سمجھو۔ اگر چہ وہ لوگ اس کے نزدیک مختلف درجے کے ہیں ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
حضرت با یزید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے قلوب سے واقف ہے۔ تو ان میں سے جو معرفت کے برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ ان کو عبادت میں مشغول کر دیا۔ حضرت ابو العباس دینوری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں ۔ جن کو اس نے اپنی معرفت کے لئے مناسب نہیں سمجھا ۔ تو ان کو اپنی خدمت میں مشغول کر دیا۔ اور اس کے کچھ بندے ایسے ہیں ۔ جو اس کی خدمت کیلئے موزوں نہیں ہیں ۔ تو ان کو اپنی محبت کیلئے اہل بنا دیا۔
حضرت یحیی بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ زاہد دنیا سے اللہ تعالیٰ کا شکار ہے۔ اور عارف ۔ جنت سے اللہ تعالیٰ کا شکار ہے۔ یعنی زاہد کو اللہ تعالیٰ نے دنیا سے شکار کر کے اپنے قبضے میں کیا ۔ اور اس کو جنت میں داخل کیا اور عارف کو اللہ تعالیٰ نے جنت سے شکار کر کے اپنے حضور میں داخل کیا۔ ظاہر کی جنت سے اس کو شکار کیا۔ اور حقیقت کی جنت میں اس کو رکھا۔ اور وہ معرفت کی جنت ہے۔ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ایک جماعت کو اپنی خدمت کے لئے آمادہ کیا۔ اور ان کو اس میں مشغول کیا ۔ اور ایک جماعت کو اپنی محبت کے لئے آمادہ کیا۔ اور ان کو اس میں مشغول کیا۔ اہل خدمت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جلال اور ہیبت کی صفت کے ساتھ تجلی کی۔ تو وہ مخلوق سے متنفر ہو گئے ۔ ان کے قلوب اس طرف جھکے ہوئے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حضور سے ان پر وارد ہوتے ہیں۔ ان کے بدن لاغر، اور ان کے رنگ زرد ہو گئے ۔ ان کے پیٹ دب گئے ۔ اور شوق سے ان کے جگر چھل گئے ۔ اور رونے اور فریاد کرنے کے ذریعے انہوں نے تاریکیوں کو دور کیا۔ اور مجاہدہ کے ذریعہ انہوں نے دنیا کو دین میں بدل دیا۔
وہ جنت کی طرف راغب ہیں۔ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ اور متقین کے لئے تیار کی گئی ہے۔
اور اہل محبت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمال اور محبت کی صفت کے ساتھ تجلی کی ۔ تو وہ قرب کے لذیذ شراب سے مست ہو گئے۔ معبود برحق نے ان کو اپنی طرف مشغول کر کے عابدین و زاہدین میں ہونے سے روک دیا۔ وہ ظاہر اور باطن کے ساتھ اللہ تعالیٰ میں مشغول ہو گئے ۔ اور ہر ظاہر و باطن سے حجاب میں ہو گئے ۔ انہوں نے نعمتوں اور انعام میں زہد کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مشغول ہو گئے ۔ یہاں ساتواں باب ختم ہوا۔
خلاصه
اس باب کا ماحصل یہ ہے۔ ہمت کو بلند کرنا نعمت کا شکر ادا کرنا ، خدمت میں حسن ادب ، عزم کا دوام خدمت سے منتقل ہو کر محبت اور معرفت تک پہنچنا۔ اور جب اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ کسی بندے کو اپنی معرفت تک لیجائے ، اور اس کو اس کی خدمت کی مشقت سے منتقل کرے۔ تو اس پر واردات الہٰیہ غالب ہوتے ہیں۔ پھر اس کو ر بانی حضور کی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اور یہ دھبی ہیں ، نہ کہ کسبی اور یہ اچانک ہی آتے ہیں۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے آٹھویں باب کی ابتداء اس کے بیان سے کی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں