دسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے دسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس العاشر فی عدم التکلف ‘‘ ہے۔

 منعقد ہ24شوال 545   بروز اتوار بوقت صبح

متقین اور منافقین کا عبادت الہی میں تکلف :

رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا: «‌أَنا ‌والأتقياء من أمتِي بُرَآء من التَّكَلُّفمیں اور میری امت کے متقی تکلف سے بیزار ہیں ۔ متقی اللہ کی عبادت بلا تکلف کرتا ہے، کیونکہ عبادت تو اس کی عادت بن گئی ہے وہ اللہ کی بندگی اپنے ظاہر اور باطن دونوں سے اللہ کی بندگی بلا تکلف کرتا ہے۔ جبکہ منافق ہر حال میں تکلف کرتا ہے، خاص طور سے اللہ کی عبادت ظاہری طور پر تکلف سے ادا کرتا ہے، باطنی طور پر عبادت کا ترک کرنے والا ہے،  ، وہ متقیوں کے مقام میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، ہر مقام کی بات الگ ہے، اور ہر عمل کے انسان بھی جداگانہ ہیں، لڑائی کے لائق بھی وہی ہے جو خاص طور سے اس کے لئے پیدا کیا گیا۔

نفاق والو! اپنے نفاق سے تائب ہو جاؤ اور اپنے فرار سے باز آؤ ۔ (اپنی اس بدخصلت کے باعث ) شیطان کو اپنی ہنسی اڑانے اور راحت پانے کا موقع کیوں دیتے ہو۔تمہاری نماز اور تمہارے روزے خلقت کے لئے ہیں ، خالق کے لئے نہیں ہیں، یہی حال تمہارے صدقے اور زکوۃ اور حج کا ہے۔ یہ سب بیکار ہوگا، عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ  ( عمل کرنے والے، مشقت اٹھانے والے ) ۔ اگر تم نے اس کا تدارک نہ کیا تو بہ نہ کی معذرت نہ کی تو عنقریب تم دہکتی ہوئی جہنم میں جلائے جاؤ گے۔ شریعت کی اتباع کو اپنا شعار بنالو، نئی نئی باتیں پیدا نہ کرو، سلف صالحین کا طریقہ لازم پکڑو، صراط مستقیم پر چلو۔ اللہ تعالی کوکسی سے تشبیہ نہ دواور نہ ہی اس کی تعطیل( معطل ہونا بیکار ہونا اللہ تعالی کسی کی مثل ہے اور نہ ہی بیکار) ٹھہراؤ ہے۔ بلکہ رسول اللہ  ﷺ کی سنتوں پرعمل پیرا ہو جس میں کوئی تکلیف اور بناوٹ نہ ہو۔سنتوں کا یہ اتباع بغیر کسی سختی و تشدد کے بغیر کسی بے ادبی و گستاخی اور بغیر کسی غور وفکر کے ہو۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالی تم پربھی ایسی وسیع رحمت والطاف کر یمانہ فرمائے گا جو تم سے پہلوں پر کئے ۔

اوروں کو نصیحت خودرافضیحت :

تیرے پرافسوس ہے کہ تو قرآن حفظ کرتا ہے مگر اس پرعمل نہیں کرتا، رسول ﷺکی احادیث یاد کرتاہےمگر ان پرعمل نہیں کرتا، تو یہ کیا کر رہا ہے۔

لوگوں کو کرنے کے لئے کہتا ہے اور خود وہ نہیں کرتا ،  دوسروں کو روکتا ہے اور خود اس سے نہیں رکتا

ارشاد باری تعالی ہے:

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ اللہ کو سخت ناپسند ہے وہ بات کہ وہ کہو جو خودنہ کرو ۔“

وہ کیوں کہتے ہو جس کے خلاف خود کرتے ہو، ذرا شرم نہیں کرتے ۔ کیوں ایمان کا دعوی کرتے ہو اور ایمان نہیں لاتے ۔ ایمان ہی آفتوں کا مقابلہ کرنے والا ہے، ایمان ہی ہمارے بوجھوں کے نیچے صابر ہے۔ایمان ہی مقابل کو بچھاڑ نے والا اور ٹھکانے لگانے والا ہے۔ ایمان ہی اپنی خوبیوں کے باعث مکرم ومعظم ہے،ایمان ہی اللہ کی تعظیم کرتا ہے، ایمان کی کرامت تعظیم اللہ کے لئے ہے، جبکہ نفس وحرص کی کرامت ، شیطان اور اغراض نفسانیہ کے لئے ہے۔ جو اللہ کے در کو چھوڑ دیتا ہے، وہ خلقت کے در پر جا بیٹھتا ہے۔ جو اللہ کے راستہ کو کھو دیتا ہے اور اس سے بہک جاتاہے، وہ مخلوق کی راہ اختیار کرتا ہے، جس بندے سے اللہ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے، اس پر خلقت کے دروازے بند کر دیتا ہے، خلقت کے عطیئے اس سے روک دیتا ہے۔تا کہ:

اس طریقہ سے اسے اپنی طرف پھیر لے، گہرے پانیوں سے نکال کر اسے کنارے پر لا کھڑا کرے،اسے ناچیز سے چیز بنادے۔

تجھ پر افسوس ہے کہ تو سردیوں کے موسم میں اپنے تالاب کنارے بیٹھ کر خوش ہوتا ہے، عنقریب گرمیوں کا موسم آ کے جو پانی تیرے پاس ہے اسے چوس کر لے گا ، تالاب خشک کر کے تجھے مار ڈالے گا، تو دریا کنارے قیام کر جس کا  پانی گرمیوں میں بھی ختم اور خشک نہیں ہوتا، اور سردیوں میں پھیلتا اور بڑھتا ہے، اللہ کے ساتھ رہ کر اللہ والا بن جا ، اور مالدار ، عزت والا ، امارت والا ، حاکم اور حکم چلانے والا بن جائے گا، اللہ کا تعلق جسے ماسوا سے بے پروا کر دے، ہر شے اس کی محتاج ہو جاتی ہے، یہ مقام زینت و آراستگی اور تمنا سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس چیز سے حاصل ہوتا ہے جو سینوں میں قرار پاتی ہے، اور جس کی تصدیق بندے کے عمل سے ہوتی ہے۔

کم گوئی تیری عادت اور گمنامی تیرالباس ہو:

اے بیٹا! کم گوئی تیری عادت اور گم نامی تیرا لباس ہونا چاہئے ، اور خلقت سے دور رہنا تیرا مقصود ہونا چاہے ۔ اگر ہو سکے تو زمین میں سرنگ نکال کر اس میں چھپ جاءچھپے رہنا تیری عادت ہو جائے ، یہاں تک کہ تیرا ایمان بڑھ جائے اور تیرے ایقان کے پاؤں جم جائیں، تیرے صدق وسچائی کے بازوؤں کے پرنکل آئیں ، اور تیرے دل کی آنکھیں کھل جائیں۔ اس مقام پر پہنچ کر تو اپنے مکان کی زمین سے بلند ہو جائے گا اور علم الہی کی فضا میں اڑنے لگے گا،مشرق ومغرب ، خشک وتر، زمین و پہاڑ اور آسمان وزمین کا چکر لگائے گا ۔ تیرے ساتھ تیرار ہبر ، تجھے امان دینے والا ہوگا ، اور اس سفر وحضر کا رفیق ہوگا اس وقت:

 تیری زبان کو قوت گویائی عنایت ہوگی ، یہ گمنامی کالباس اتار دینا ،خلقت سے بھاگنا چھوڑ دینا، خلوت خانہ کی سرنگ سے نکل آنا ،یقینی طور پر تو خلقت کے لئے دوا ہے ۔ ان کے ملنے ملانے سے تیرے نفس کا کچھ نقصان نہیں ۔ ان کی کمی اور زیادتی ، ان کی تعریف اور برائی ، آنے اور نہ آنے کی پرواہ نہ کرنا ، کہاں گرے، کہاں پڑے، یہ دل سے نکال ڈال کیونکہ تو اپنے رب اللہ تعالی کی حضوری میں ہے۔

ایک ہی دل میں دنیاو آخرت اور خالق و مخلوق کی سمائی کیسے:

اے لوگو! اپنے خالق کو پہچانو اور اس کے حضور ادب سے رہو، جب تک تمہارے دل اس سے دور ہیں تم بے ادب بنے رہو گے۔ جب دل اس کے قریب ہو جائیں تو خوب ادب کرو، بادشاہ کی سواری آنے سے پہلے خدمت گارشور شرابے میں لگے رہتے ہیں : سواری آ جانے پر سب بادب بن کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، کیونکہ وہ اس سے قرب کی حالت میں ہیں، تب ان میں سے ہر ایک کسی گوشے کی طرف بھاگنے لگتا ہے ۔ خلقت کی طرف متوجہ ہونا خالق سےرخ پھیرنے کے برابر ہے، تمہیں فلاح ونجات حاصل نہ ہو گی جب تک کہ تو دوستوں سے الگ نہ ہو جائے اور اسباب سے کوئی واسطہ نہ ر کھے ۔نفع و نقصان میں خلقت کا دھیان چھوڑ دے،تم-بظاہر تندرست ہو مگر باطن میں بیمار ہو۔ بظاہر مال دار ہومگر حقیقت میں مفلس ہو ۔چلتے پھرتے زندہ ہومگر حقیقت میں مردہ ہو، ظاہری طور پر موجود ہومگر حقیقت میں معدوم ہو یہ اللہ کی ذات سے بھا گنا اور اس سے اعراض کرنا کب تک رہے گا،دنیا کی تعمیر آبادی اور آخرت کی خرابی و بربادی کب تک کرو گے ،تم میں سے ہر ایک کا ایک ہی دل ہے چنانچہ – اس سے دنیا و آخرت دونوں کی محبت کیسے کرو گے، اس میں خالق ومخلوق کی سمائی کیسے ہو ، یہ بات ایک ہی وقت میں ، ایک ہی دل میں کیونکر حاصل ہوسکتی ہے ۔ یہ دعوی جھوٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الْكَذِبُ ‌مُجَانِبُ ‌الْإِيمَانِ كُلُّ ‌إنَاءٍ ‌يَنْضَحُ ‌بِمَا ‌فِيهِ’’جھوٹ ایمان سے دور رکھنے والا ہے،  برتن میں جو کچھ ہوگا اس سے وہی ٹپکے گا۔‘‘ اسی لئے اللہ کے بعض بندوں کا کہنا ہے: الظاهر عنوان الباطن  ’’ظاہر باطن کی خبر دیتا ہے ۔‘‘۔

تمہارا باطن اللہ اور اس کے خاص بندوں پر ظاہر ہے  جب تمہیں  اللہ کے خاص بندوں میں سے کوئی مل جائے تو اس   کے سامنے بادب رہو ، اسے ملنے سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرو، اس کے پاس جا کر خود کو نا چیز سمجھ اور عاجزی اختیار کرو، صالحین کے لئے عاجزی اختیار کرنا، اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرنا ہے، عاجزی اختیار کرو، کیونکہ اللہ عاجزی اختیار کرنے والے کے درجات کو بلند کر دیتا ہے۔ بڑے کا ادب کرو، کیونکہ رسول اللہ  ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الْبَرَكَةُ ‌مَعَ ‌أَكَابِرِكُمْ’’بڑوں میں برکت ہے ۔ راوی( مؤلف کتاب ) کا کہنا ہے کہ حضور  ﷺ کی بڑے سے مرادعمر کا بڑا نہیں ہے۔ بلکہ بڑھاپے کے ساتھ احکام الہیہ کی بجا آوری اور ممنوعات سے ر کے رہنا مراد ہے ۔ اور اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پابندی کرنا ہے، جو کہ پر ہیز گاری کے ساتھ ہو،حقیقت میں فرماں بردار ہی بڑا ہے، وگرنہ عمر کے کتنے ہی بڑے ہیں جن کی تعظیم کیسی ،ان سے سلام کرنا بھی جائز نہیں ، اور نہ ان کے دیکھنے میں برکت ہے، بڑے وہ ہیں جو : _متقی ہیں ، صالحین ، پرہیز گار ہیں ، علم پرعمل کرنے والے ہیں، عمل میں اخلاص کر نے والے ہیں ، جن کے دل صاف ہیں، ماسوا اللہ سے اعراض کرنے والے ہیں، اللہ ہی کے لئے عمل کر نے والے ہیں، جواہل دل ہیں ، اللہ کی معرفت والے ہیں، اللہ سے قرب والے ہیں، دلوں کا علم جب زیادہ ہو جاتا ہے، وہ اپنے رب سے قریب تر ہو جاتے ہیں، ہروہ دل جس میں دنیا کی محبت ہے، وہ اللہ سے حجاب میں ہے ( محبوب نہیں، محجوب ہے – ہر وہ دل جس میں آخرت کی محبت ہے، وہ اللہ کے قرب سے حجاب میں ہے۔ جس قدر تجھے دنیا میں رغبت ہوگی ، اس قدر آ خرت میں رغبت کم ہو جائے گی اور جس قدر رغبت آخرت میں ہو گی ،اتنی ہی اللہ کی محبت کم ہو جائے گی ، اس لئے اپنی ذات اور مقام کو پہچانو ۔ اپنے نفسوں کو اس درجہ پر نہ چھوڑ و جس   درجہ میں اللہ نے انہیں جگہ نہیں دی ، اسی لئے اللہ کے بعض ولیوں نے فرمایا: من لم يعرف قدرة عرفته الاقدار قدرہ ” جس نے خودکونہ پہچانا ، تقدیر الہی اسے اس کی پہچان کر دے گی۔‘‘ چنانچہ ایسی جگہ نہ بیٹھو کہ جہاں سے اٹھادیا جائے ۔ جب کسی کے ہاں جاؤ تو ایسی جگہ نہ بیٹھو جہاں تجھے صاحب خانہ نے نہ بٹھایا ہو، کیونکہ تجھے وہاں سے ہٹا دیا جائے گا، اگر حیل و حجت کرو گے تو اٹھا کر ذلیل کر کے نکالے جاؤ گے۔

انبیاء اور علما خلقت کے نگہبان ہیں:

اے بیٹا! تو نے عمل نہ کیا اور اپنی عمر کتابیں پڑھنے  اور انہیں یاد کرنے میں ضائع کردی تمہیں کیا فائدہ ہوا۔ رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا:

يقول الله عز وجل يوم القيمة للانبياء والعلماء التم  کنتم رعاۃ الخلق فما صنعتم في رعاياكم ويقول للملوك والأغنياء التم كنتم خزان كنوزي هل واصلتم الفقراء وربيتم الايتام وأخرجتم منها حقي الذي كتبته عليكم ” قیامت کے دن اللہ تعالی انبیا علیہم الصلوۃ والسلام اور علماء رحمہم اللہ سے فرمائے گا:’’ تم مخلوق کے نگہبان تھے تم نے اپنی رعایا کے ساتھ کیا کیا ، اور بادشاہوں اور امیروں سے فرمائے گا: ” تم میرے خزانوں کے خازن تھے، کیا تم نے محتاجوں کے حقوق ادا کئے ۔ اور کیا تم نے یتیموں کی پرورش کی اور تم نے ان سے میراحق (زکوۃ نکالا جو میں نے تم پر فرض کیا تھا‘‘۔ اے لوگو! رسول کریم  ﷺ کے فرمان سے نصیحت حاصل کرو، اور ان کے کہے پر عمل کرو، کس چیز نے تمہارے دل سخت کر دیئے ہیں۔ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے اپنی خلقت کے دکھ اٹھانے کی مجھے ہمت عطا فرمائی ہے، میں جب اڑنے کا ارادہ کرتا ہوں تو تقدیر کی قینچی میرے پر کاٹ دیتی ہے اور اڑنے سے روک دیتی ہے، اس کے باوجود مجھے اطمینان ہے کیونکہ میں شاہی بارگاہ میں مقیم ہوں ۔

منافقو! اپنی حالت پر خود ہی غور کرو

اے منافق! تجھ پر افسوس ہے کہ تو اس شہر سے میرے نکل جانے کی آرزورکھتا ہے۔ اگر میں حرکت کروں تو امر بدل جائے ، اعضاءالگ ہو جائیں ، اور اپنی بات بگڑ جائے ، بڑی تبدیلیاں آ جائیں ، لیکن میں جلد بازی سے اللہ کے عذاب آنے سے ڈرتا ہوں۔ میں خود سے تیار نہیں بلکہ ایسا ہونا میری تقدیر سے ہے، ایسا ضرور ہوگا، میں اس کے موافق اور اس کے حوالے ہوں ، الہی سلامتی اور تسلیم عنایت فرما۔ تیرے لئے افسوس ہے تو میری ہنسی اڑاتا ہے۔ حالانکہ میں اللہ کے در پر کھڑا ہوں اور اس کی مخلوق کو اس کی طرف بلا رہا ہوں ۔تجھے عنقریب جواب مل جائے گا، میں اوپر کی طرف ایک ہاتھ ہوں اور اس کے نیچے ہزاروں ہاتھ ہیں۔ اے منافقو ا تم جلدہی اللہ کا عذاب دیکھ لو گئے ، دنیا و آخرت میں اس کی مار پڑے گی ، زمانے کو حمل ٹھہرا ہوا ہے، اس سے جو کچھ بھی پیدا ہو گا تم جلد ہی دیکھ لو گے، میں تو دست قدرت کے تصرف میں ہوں ۔ کبھی وہ مجھے پہاڑ بنا دیتا ہے ، کبھی وہ مجھے زرہ بنا دیتا ہے او رکبھی دریا کر دیتا ہے ۔ کبھی وہ مجھے قطرہ بنا دیتا ہے ۔ کبھی وہ مجھے آفتاب بنادیتا ہے، اور کبھی چمک اور روشنی ۔وہ مجھے رات اور دن کی طرح پالتا رہتا ہے، كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ” وہ ہر ایک دن نئی شان میں ہے۔ بلکہ ہر ایک میں، آج کا دن (یعنی دنیا تمہارے لئے ہے، اور ایک پل تمہارے (یعنی اللہ کے ولیوں کے لئے ہے ۔

خلقت کی ایذارسانی پرحق کی رضا کے لئے صبر اختیار کر

اے بیٹا! اگر تم سینے کی فراخی اور دل کی خوشی چاہتے ہوتو خلقت کی ایک نہ سنو، اوران کی بات پر توجہ نہ دو۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ وہ اپنے خالق سے خوش نہیں ، پھر تم سے کیسے خوش ہوں گے ۔ ان میں سے اکثر بے عقل اور اندھے ہیں اور بے ایمان ہیں ، بلکہ اللہ کی تصدیق کرنے کی بجائے تکذیب کر تے ہیں ، ان لوگوں کی اتباع کروجو غیر اللہ کو کچھ نہیں سمجھتے،  غیر اللہ کی نہیں سنتے۔ غیر اللہ کونہیں دیکھتے۔ تو خلقت کی ایذارسانی پرحق کی رضا کے لئے صبر اختیار کر، طرح طرح کی مصیبتوں کی آزمائش برداشت کر ، اللہ کا اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ یہی وطیرہ ہے کہ:

 ان کو سب سے الگ کر دیتا ہے،طرح طرح کی مصیبتوں ، آفتوں اور مشقتوں سے ان کی آزمائش کرتا ہے۔دنیاد آ خر ت اور عرش سے لے کر فرش تک ہر چیز ان پر تنگ کر دیتا ہے۔

 جس سے ان کی ہستی فنا ہو جاتی ہے ، جب ان کی ہستی فنا ہو جاتی ہے تو انہیں نیا وجود عطا کرتا ہے، انہیں اپنا بنالیتا ہے نہ کہ  غیر کا ،اب انہیں اپنے ساتھ قائم کرتا ہے نہ کہ دوسرے کے ساتھ انہیں نئی زندگی عطا کرتا ہے، جیسا کہ ارشادفرمایا: ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ‌فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ پھر ہم نے انہیں دوبارہ پیدا کیا، با برکت ہے اللہ ، سب سے اچھا پیدا کرنے والا ۔ پہلی خلقت مشترک ہے اور دوسری تنہائی والی ، جو اسے اپنے بھائیوں اور تمام ہم جنسوں سے جدا کر دیتی ہے ۔اس کے پہلے معنی میں تغیر و تبدل ہو جا تا ہے۔ اس کی بلندی پستی ہو جاتی ہے، وہ اللہ والا روحانی ہو جاتا ہے، اس کا دل غیر کود یکھنے سے تنگ ہو جاتا ہے۔ اس کا باطنی دروازہ مخلوق سے بند ہو جا تا ہے،

دنیا و آخرت، اور جنت و دوزخ ، اور ساری خلقت اور سب طرح کے عالم اسے ایک ہی معلوم ہوتے ہیں ، پھر یہ چیز اس کے باطن کی دسترس میں دے دی جاتی ہے وہ اسے ایسے نگل جاتا ہے کہ وہ ظاہرہی نہیں ہوتا ۔ ایسے دست باطن میں قدرت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اس کا ظہور حضرت موسی علیہ السلام کے عصا مبارک میں ہوا۔ پاک ہے وہ ذات   جو اپنی قدرت  جس چیز میں اور جس کے ہاتھ میں چاہے ظاہر کرتا ہے، موسی علیہ السلام کا عصا جادوگروں کی ڈھیروں رسیاں وغیرہ نگل گیا ۔ اس کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئی ، اللہ تعالی نے چاہا کہ فرعونیوں کو بتا دے کہ یہ اس کی قدرت ہے، حکمت نہیں ۔ اس دن جادوگروں نے جو مظاہرہ کیا تھا، وہ حکمت اور فن ہندسہ پرمبنی تھا ، اور جو کچھ موسی علیہ اسلام کے عصا میں ظاہر ہوا وہ اللہ تعالی کی قدرت اور خلاف عادت معجزہ تھا، اسی لئے جادوگروں کے سردار نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص سے کہا: موسی (علیہ السلام) کی طرف دیکھے، وہ کس حال میں ہیں ۔ اس نے کہا: موسی (علیہ السلام) کارنگ متغیر ہو گیا ہے،اورعصا اپنا کام کر رہا ہے۔

پھر سردار نے کہا: یہ اللہ تعالی کا عمل ہے، موسی (علیہ السلام کانہیں کیونکہ جادو گر اپنے جادو سے، اور صانع اپنی صنعت سے خوف نہیں کھاتا۔ ان کا یہ معاملہ دیکھ کر وہ جادوگر سردار اپنے ساتھیوں سمیت موسی علیہ السلام پر ایمان لے آیا۔

حکمت والے علم سے اللہ کی قدرت تک رسائی :

اے بیٹا! حکمت چھوڑ کر قدرت کی طرف کب دھیان دو نگے ۔ تیراعمل حکمت کے ذریعے اللہ کی قدرت سے کب ملائے گا ۔ تیرے عملوں کا اخلاص کب تجھے قرب الہی کے دروازے تک لے جائے گا۔ معرفت کا آفتاب عام و خاص کے دلوں کے چہرے کب تجھے دکھلائے گا، تو سنبھل جا! – بلا سے ڈر کے اللہ سے نہ بھاگ ۔ وہ اس سے تیری آزمائش کرتا ہے تا کہ معلوم کرے کہ تو رب کی طرف رجوع کر کے اس کا دروازہ چھوڑتا ہے یا نہیں۔ تو ظاہر کی طرف رجوع کرتا ہے یا باطن کی طرف ،  پائے گئے کی طرف جاتا ہے یا نہ پائے گئے کی طرف ، دیکھے گئے کی طرف جاتا ہے یا نہ دیکھے گئے کی طرف ۔

تیرے حضور التجا ہے: اللهم لا تبتلناه اللهم ارزقنا القرب منك بلا بلاء والتهم قربا و لطفا ، اللهم قربا بلا بعده لا طاقة لنا على البعد منك ولا على مقاساة البلاء فارزقنا القرب منك مع عدم نار الأقـات فـإن كان ولا بد من ثار الأقات فاجعلنا فيها كالشمندل الذي يبيض و يفرح في النار وهي لا تضـرة ولا تخرفة اجعلها علينا كنار إبراهيم خليلك أثبت حوالينا عشبا كما أنبت و تولنا كما توليته واحفظنا كما حفظته . حواليه واغينا عن جميع الأشياء كما أغنيته واي

الی! ہمیں آزمائش میں نہ ڈال، الہی ہمیں آ زمائش کے بغیر اپنا قرب عطا فرما، الہی! اپنا قرب ولطف عنایت فرما، الہی! ہمیں ایسا قرب عطا فرما جس میں دوری نہ ہو، ہم میں تجھ سے دوری کی طاقت نہیں ، نہ بلا کے برداشت کرنے کی ہمت ہے، آفتوں کی آگ بجھا کر اپنا قرب عنایت فرما: قرب کے لئے اگر آفتوں کی آگ ضروری ہے تو آتشی کیڑے (سمندل ) جیسا کر دے، جو آ گ ہی میں انڈے دیتا اور بچے نکالتا ہے، آگ نہ اسے جلاتی ہے نہ کوئی ضرر دیتی ہے، ہم پر اس آگ کو خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ کے مشابہ کر دے ۔ جیسے ان کے ارد گر دگلزار کھلایا، ہمارے آس پاس بھی چمن کھلا دے، جیسے انہیں سب چیزوں سے بے نیاز کر دیا تھا ہمیں بھی ان سب سے بے نیاز کر دے، جیسے ان کا والی اور غم خوار بنا، ہمارا بھی والی وغم خوار بن جا، جیسے ان کی حفاظت کی ، ہماری بھی حفاظت کر ، آمین!‘‘۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سیکھو اور ان کی پیروی کرو:

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سفر سے پہلے رفیق کو،گھر سے پہلے ہمسائے کو-وحشت سے پہلے غم خوار کو مرض سے پہلے پر ہیز کو مصیبت سے پہلے صبر کو -قضاسے پہلے رضائے الہی  کو ، حاصل کر لیا تھا ، تم اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سیکھو، ان کے کہے اور کئے میں ان کی پیروی کروسے پاک ہے وہ ذات جس نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بلا کے دریا میں ان پرمہربانی کی ،۔ انہیں بحر بلا میں تیرنے کا حکم دیا اور خودان کی مددفرمائی ، انہیں دشمن پر حملے کا حکم دیا اور خودان کے ساتھ سوار تھا، انہیں بلند چوٹی پر چڑھنے کا حکم دیا اور اپنا ہاتھ ان کی کمر میں ڈال رکھا تھا ۔ انہیں خلقت کی دعوت طعام کا حکم دیا اور خرچ اپنے پاس سے دیا ہے، عنایت باطنی اور پوشیدہ مہربانی اس کا نام ہے۔

قضاوقدر کے وقت اللہ کے سامنے چپ رہو

اے بیٹا! قضا وقدر کے آتے وقت اللہ تعالی کے سامنے خاموش رہو، تا کہ اس کی طرف سے ہونے والی بہت سی رحمتیں دیکھ سکو کیا تم نے حکیم  جالینوس  کے غلام کا حال نہیں  سنا  وہ جان بوجھ کر  گونگا بیوقوف  اور بھولا بھالا بنا رہا   اور اس طرح جالینوس کا تمام علم سیکھ لیا، بہت بک بک کرنے  دل کے ساتھ جھگڑنے سے  اس پر اعتراض کرنے سے تیرے دل  میں اللہ   کی حکمت نہ آئے گی۔ اللهم ارزقنا الموافقة وترك المنازعة ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی ہمیں موافقت اور ترک منازعت عطا فرما، اور دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطافرماء ، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔ آمین!‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 67،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 48دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں