محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
اے ہماری قوم!
تم اللہ سے ڈرو، اللہ تعالی نے اپنے بعض نبیوں کی طرف وحی بھیجی تھی ” تم ڈرو کہ تمہیں کہیں اچانک نہ پکڑلوں‘۔ سید نا یعقوب علیہ السلام شروع میں سیدنا یوسف علیہ السلام پر رویا کرتے تھے، پھر گرفت کے خوف سے اپنے نفس پر رونے لگے تھے، ان کا نبی ہونا معلوم کر لیا تھا ، ان کے حسن و جمال سے ، ان کی عصمت و پاک دامنی پر ڈرنے لگے تھے ، تم تو گونگے بہرے،اندھے ہو تمہارے سروں کے کان تو ہیں مگر دلوں کے کان نہیں ہیں ۔ اے جہنم کی لکڑیو! اے عام لوگو! اے کمینو!
تم سراپا ہوس میں مبتلا ہو، خبردار ہو جاؤ! تمام امراللہ کی طرف لوٹیں گے۔خبردار ہو جاؤ میں تمہارا چرواہا اور ساقی ہوں تمہارا محافظ ہوں، میں نے یہاں تک تمہارے وجود اور نفع ونقصان پر نظر کر کے ترقی نہیں پائی ، بلکہ سب کو توحید کی تلوار سے قطع کر کے میں اس مقام تک پہنچا ہوں ، تمہاری تعریف اور برائی تمہاری توجہ اور بے رخی میرے لئے ایک جیسے ہیں، مجھے کسی کی پرواہ نہیں ، کتنے لوگ ہیں جو اکثر میری برائی کرتے رہتے ہیں، پھر ان کی برائی تعریف ہو کر پلٹتی ہے۔ یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں نہ کہ بندے کی طرف سے ، میرا تمہاری طرف متوجہ ہونا بھی اللہ کے لئے ہے تم سے لینا بھی اللہ کے لئے ہے، اگر مجھے قدرت دی جاتی تو میں تمہارے اوپر رحمت اور شفقت کر کے تم میں سے ہر ایک کے ساتھ قبر میں داخل ہوتا اور اس کی طرف سے منکر نکیر کو جواب دے دیتا، اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے کسی کو محبوب رکھتا ہے تو اس کے دل میں اپنا شوق اور وجد ڈال دیتا ہے۔
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو سات بار شہر بدر کیا گیا، اس لئے کہ ان سے عجیب عجیب باتیں سننے میں آ ئیں جو شوق اور وجد میں ان کے منہ سے نکلتا تھا، اللہ تعالی اولیاء اللہ کے دلوں پر اپنے قرب کے دروازے کو کھول دیتا ہے، سوائے پانچ نمازوں اور آدمیت اور بشریت کے لقب کے ، انہیں مخلوق کے ساتھ جمع نہیں کرتا ، ان کی صورتیں انسانوں جیسی ہیں اور ان کے دل تقدیر کے ساتھ ہیں اور ان کے باطن محبت الہٰی میں رہتے ہیں، تیری طاعتیں تیرے چہرے پر اور تیرے کپڑوں اور ظاہر پر ہیں، تیری بے دینی تیری خلوتوں میں ہے اور تیرا کفر تیرے باطن پر ہے جبکہ دل نفاق اور غرور اور مخلوق سے بدگمانی سے بھرا ہوا ہے، تلوار کے سوا کوئی چیز تجھے پاک نہیں کر سکتی ، اگر چہ توبہ سے پاک ہونا ممکن ہے ۔ ہمیں شریعت نے سکوت اور خاموشی اور پردہ پوشی کا حکم دیا ہے، ورنہ میں تیری طرف اشارہ کرتا اور وہ تجھے آستین سے پکڑ کر نکال دیتا، اور تو باہر کر دیا جاتا ۔ ہمارا کلام تمہارے ظاہر میں اثر کرتا ہے اور ہمارے قلب تمہارے باطن میں ، جو کوئی مجھے تہمت لگا تا ہے اور مجھے جھٹلاتا ۔اللہ اسے جھٹلائے گا اس کے اہل و عیال اورمال اور شہر کے درمیان میں تفریق ڈال دیگا مگر یہ کہ وہ توبہ کر لے۔
کوئی نماز کا وقت ایسا نہیں ہوتا کہ یں اس باتکا ارادہ نہ کرتا ہوں کہ کسی کو لوگوں کی نماز پر جانےکے لئے خلیفہ بنا دوں، یہاں تک کہ جب نماز کا وقت آ تا ہے تو نماز پڑھانے کی طرف لوٹا دیا جا تا ہوں ، اور ہر مجلس کے وقت یہی حال ہوتا ہے۔
اللهم لا تحملنا مالا طاقة لنا بہ “الہٰی! تو ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔
تو خوش ہونے والے کے ساتھ خوشی نہ کر بلکہ غم کرنے والے کے ساتھ غم کیا کر ، تو ہنسنے والے کے ساتھ مت ہنس بلکہ رونے والے کے ساتھ رویا کر ، تم بلند ہمتی کے ساتھ طریقت کے راستے کی سیر کیا کرو، اور اپنے مقدرحصوں کو اس کے قرب کے دروازے کی چوکھٹ پر سر رکھ کر کھایا کرو، تیرے پاس تو عقل ہی نہیں ہے، تو دنیا سے اپنے مخصوص حصوں سے رخ پھیر لے، اور اگر اہل وعیال تیرے متعلق ہوں تو ان کے لئے دنیا سے ہم سے لے لیا کرا نہ کہ اپنے لئے ۔ رسول اللہ ﷺ صدقات کا مال لیا کرتے تھے اور اسے فقراء ومساکین اور مجاہدین پرتقسیم فرمادیا کرتے تھے، اس کے بعد اپنی ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لاتے اور دریافت فرماتے:
کیا کوئی چیز بھیجی گئی کوئی چیز ہمارے لئے آئی‘‘۔ آپ کو جواب دیا جا تا : نہیں ہے!‘‘ – اس پر آپ ارشادفرماتے: اچھا اب ہمارا روز ہ ہے۔
اس بندش سے آپ یہ اطلاع دیتے تھے کہ اس سے ہمارا روزہ رکھنا مقصود ہے ۔ اولیاء اللہ کا حال بھی ایسا ہی ہے، کبھی وہ گرمی کی شدت سے گھر کی چھت پر سونے کے ارادے سے چڑھنا چاہتے ہیں، سیڑھی پر دروازہ کھلا دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ ان سے مقصود گھر میں سونا ہے نہ کہ چھت پر، چنانچہ پلٹ آتے ہیں اور اپنے گھر کا دروازہ کھلا ہوا دیکھتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ اس سے مقصود جنگل اور میدان کی طرف جانا ہے، چنانچہ صحرا اور میدان کی طرف نکل کھڑے ہوتے ہیں ،یہ نبوت مخلوق میں باقی ہے جس کا اثر اور فائدہ اورمعنی اولیاءاللہ کے دلوں پر منقسم ہیں، نبوت ایک کامل کھانا اور پینا تھا، اب ان کا بچا کھچا باقی رہ گیا ہے۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 750،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور