دل اورتوجہات الہی

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

دل کے معاملے اور توجہات الہٰی:

بے شک تمہارے بعض دنوں میں اللہ تعالی کی خاص توجہات ہوتی ہیں، خبردار ہو جاؤ تم اس کی تو جہات کے لئے متوجہ رہا کرواور ہر وقت دعا میں مشغول رہا کرو،  نہیں ہوسکتا کہ تیرادل بوڑھا ہو جائے اور بادشاہ اسے اپنے قرب کے دروازے پر بٹھالے،نہیں ہوسکتا کہ تیرا ظاہر ضعیف ہو جائے اور باطن قوی ، نہیں ہوسکتا کہ تیرے دل کی ایک ہڈی ضعیف ہو جائے ، اور اس کی کھال پتلی پڑ جائے ،منت واحسان الہٰی نے اس کے باطن کوا چک لیا ہو،

تیرا دل آستانہ الہٰی کو دیکھ رہا ہے، اسے قلب الہٰی نے ڈھانپ لیا ہے، چنانچہ اسے گراتا رہتا ہے، بے شک دل کی حفاظت میں ایک بہت بڑا شغل ہے، دل کے عملوں سے ظاہر کے ہزارعملوں سے ، دوسرے مشغلوں سے روکنے والا ایک ذرہ بہتر ہے ۔ جب تک فرائض وسنت قائم رہیں گے ،کوئی چیز تجھے نقصان نہ دے گی ۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ایک شہری آ دمی چکی پر کھڑا ہے جو اسے بھی گھمارہی ہے، وہ نہ کچھ کھا تا ہے اور نہ پیتا ہے (وجد کی حالت میں بے ہوش ہے ، آپ نے فرمایا: تم نماز کے اوقات میں اس کی حالت دیکھو کیسی رہتی ہے۔

آپ سے کہا گیا:’” بے شک مؤذن جب اذان دیتا ہے، وہ سکون میں آ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا: پھر کوئی حرج نہیں‘‘۔ بعض اولیاء اللہ میں سے وہ ہیں جو اپنے بچپن سے لے کر مرنے کے وقت تک عملوں پرقوی رہتے ہیں ،   بعض ان میں سے وہ ہیں جو کہ ضعیف ہونے تک عمل کرتے ہیں ، اگر یہ کمی قرب اور علم اور مشاہدے کی حیثیت اور اعتبار سے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، اور اگر اس کے سوا کچھ اور ہو، تو یقینا وہ شیطان ہے جو تجھے بہکاتا ہے، اورنفس ہے جو کہ تجھے ایذاد یتا ہے، ۔حکم کی صحبت علم کا نتیجہ دیتی ہے، اور انہیں باطن کا نتیجہ دیتی ہے ۔ کیا تجھے اس کے بارے میں کچھ پتہ بھی ہے، پہلے غیر اللہ سے علیحدگی اختیار کر ، پھر اللہ سے اتصال کر، پہلے اتصال کر، پھر واصل الی اللہ ہو جا اور دوسروں کو پہنچا ، حسرت ہے ان پر جو کہ حرص اور آرزواور دھوکے کی دکانوں پر بیٹھے ہیں، ممکن ہے کہ تیرا باطن مر جائے اور تیرادل سیاہ پڑ جائے ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ” بے شک دلوں پر زنگ آ جاتا ہے، اور بے شک اس کا صیقل قرآن پاک کا پڑھنا ہے۔ اللهم اهدنا وهد بنا وارحمنا وارحم بنا عرفنا وتعرف بنا اجعلني مبارکا”اے اللہ! تو ہمیں ہدایت دے، اور ہمارے ذریعے سے دوسروں کو ہدایت دے اور ہم پر رحم فرماءاور ہمارے سبب سے دوسروں پر رحم فرما،ہمیں اپنی معرفت عطا فرما اور ہمارے ذریعے سے دوسروں کو معرفت عطا فرما اور میں جہاں کہیں رہوں مجھے بابرکت بناء آمین!‘‘

پہلے تو مل لے، پھر واصل ہو۔ سمجھ اور دانائی حاصل کر علم سیکھ، پھر گوشہ نشینی اختیار کر، جو آدمی اللہ کی عبادت جہالت کے ساتھ کرتا ہے، اس کی اصلاح کی نسبت اس کا بگاڑ بہت زیادہ ہوتا ہے، تو اپنے رب کی شریعت کا چراغ اپنے ساتھ رکھے تو حکم کے باعث علم پر داخل ہو جائے گا، اپنے آپ سے سارے اسباب کو قطع کر دے، بھائیوں اور ہمسائیوں سے الگ ہو جا، جو کچھ ازل سے تیرا مقدر ہو چکا ہے ان میں زہد کرنا ٹھیک نہیں ، وہ تجھے لا بدی پہنچیں گے، تو اپنی بیوی سے رخ پھیر لے، تو زاہد بن، پھر بہ تکلف زاہد بن ماسوی اللہ سے بہ تکلف روگردانی کر، حرص کو چھوڑ کر حسن ادب اختیار کر ماسوئی اللہ سے قطع تعلقات کر لے اغیار واسباب سے علیحدہ ہو جہا۔ اس بات سے ڈرتا رہ کہ کہیں تیرا چراغ گل ہو کر ،ہمیشہ کا اندھیرا ہو جائے ، اس حالت میں اللہ تعالی تیرے چراغ کے لئے اپنی امداد کا تیل عنایت فرمائے گا، -تیرانور تیرے عمل میں ہے، جو کوئی اپنے علم پرعمل کرتا ہے، اللہ  اسے نامعلوم چیزوں کا وارث بنا دیتا ہے۔

جو شخص اللہ کیلئےچالیس دن  اخلاص سے عبادت کریگا اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت  کے چشمے جاری ہو جائیں گے، وہ اس حالت میں ہوگا کہ اسے سیدنا موسی علیہ السلام کی طرح اللہ تعالی کی آگ دکھائی دے گی ، انہوں نے ۔اپنی اہلیہ سے کہا تھا: تم اپنی جگہ پرٹھہری رہو، بے شک میں نے آگ دیکھی ہے۔ اللہ تعالی نے آگ کے ذریعے انہیں آواز دی تھی ، ان کے لئے آگ کو اپنا قرب قرار دے دیا ،موسی علیہ السلام کے لئے آگ کو اپنی دلیل بنا دیا ۔ اسی طرح سے عارف باللہ اپنے دل کے درخت سے آگ دیکھے گا ، اپنے نفس اور خواہش اور طبیعت اور اسباب اور وجود سے کہے گا: تم اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو، بے شک میں نے آگ کو دیکھا ہے۔ ۔ باطن ، دل کو آواز دے گا:

” بے شک میں تیرارب ہوں ، میں ہی تیرا اللہ ہوں ، پس تو میری عبادت کر ، میرے غیر کی طرف نہ جھک ،مجھ ہی کو پہچان اور میرے غیر سے جاہل بن جا، مجھ سے مل جا اور میرے غیر سے قطع تعلق کر لے، مجھ ہی کو طلب کر ، اور دوسروں سے گریز کر کے میرے علم اور میرے قریب اور میری حکومت اور میری سلطنت کی طرف ‘‘۔ جس وقت یہ مرتبہ کامل ہو جا تا ہےتولقاء الہی کامل طور پر حاصل ہو جاتی ہے ، اس کے اور اللہ کے درمیان میں جاری ہوتا ہے جو کچھ بھی جاری ہوتا ہے، وہ اپنے بندے کی طرف الہام کرتا ہے جو کچھ کہ الہام کرتا ہے، حجاب اور کدورت زائل ہو جاتے ہیں نفس ٹھہر جا تا ہے ،سکون آ جا تا ہے ۔ اللہ کی عطائیں اسے گھیر لیتی ہیں ،اسے کہا جا تا ہے: ’’اے دل! تو فرعون کی طرف جا، تو شیطان اور نفس اور خواہش کی طرف رجوع کر ، ان کے سروں کو میری طرف جھکا دے، ان میں میرے اہل بننے کی لیاقت پیدا کر اور ان سے کہو:

اے میری قوم !تم میری اتباع کرو، میں تمہیں ہدایت کا راستہ بتا تا ہوں‘‘ ۔ تو پہلےمل ، پھر جدا ہو جا، پھرمل ، پھر واصل ہو جا، لیکن اے مسکین ! تو تو قریب ہے کہ تیری قوتیں منقطع ہو جائیں گئی اور وہ خیانت کریں گی ، کچھ کام نہ کر یں گی ، تیرے دوست تجھے چھوڑ دیں گے اور دنیا کی محتاجی اور آخرت کا عذاب دونوں چیز یں تیرے لئے جمع ہو جائیں گی ، تو مر کر قبر میں چلا جائے گا، وہ تجھ پر تنگ ہوگی یہاں تک کہ تیری پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جائیں گی ، تیری یہ حالت منکر نکیر کے جواب دینے سےتجھے بہرا بنادے گی ،تجھے قبر میں عذاب دیا جائے گا ، تیرے لئے دوزخ کا دروازہ کھول دیا جائے گا ، اس کی زہریلی ہوا اور عذاب ہونے لگے گا ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 706،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں