دین کی ترقی اور رواج کی کوشش مکتوب نمبر47دفتر اول

یہ بھی سرداری کے پناہ والے شیخ فرید کی طرف لکھا ہے ۔ سابقہ زمانوں کی شکایت کرنے کے بیان میں جب کہ کفار غالب تھے اور اہل اسلام خوار اور بے اعتبار اور اس بات کی ترغیب میں کہ بادشاہت کی ابتداء میں اگر دین کی ترقی اور رواج میسر ہو جائے تو بہتر ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی گمراہ اور خلقت کو گمراہ کرنے والا درمیان میں آ کر اہل اسلام کے کارخانہ میں خلل ڈال دے اور پہلے زمانہ کی طرح کر دے۔

ثبتکم الله سبحانه على جادة ابائکم الكرام على أفضلهم سيد الكونين اولا و على بواقيهم ثانيا الصلوة والسلام والتحية حق تعالی آپ کو بزرگ باپ دادا کے راستہ پر ثابت قدم رکھے اول ان میں سے افضل یعنی سرداری والے دو جہان پر اورپھر باقیوں پر صلوۃ وسلام ہو۔

بادشاہ کی نسبت جہاں کے ساتھ ایسی ہے جیسے دل کی نسبت بدن کے ساتھ اگر دل اچھا ہے تو بدن بھی اچھا ہے اگر دل بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جاتا ہے ایسے ہی جہان کی بہتری بادشاہ کی بہتری پر منحصر ہے اور اس کے بگڑنے پر جہان کا بگڑنا وابستہ ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ زمانہ میں اہل اسلام کے سر پر کیا کیا گزرا ہے۔ گزشتہ زمانہ میں باوجود کمال غریب ہونے کے اہل اسلام پر اس قسم کی خرابی اور تباہی نہ گزری تھی کہ مسلمان اپنے دین پر قائم رہتے اور کفار اپنے طریق پر لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِاسی مضمون کا بیان ہے اور گزشتہ زمانہ میں کافر غلبہ پا کردار اسلام میں کفر کے احکام جاری کرتے تھے اور مسلمان اسلام کے احکام جاری کرنے سے عاجز تھے اور اگر کرتے تھے تو قتل کئے جاتے تھے۔

ہائے افسوس! حق تعالی کے محبوب حضرت محمد رسول الله ﷺکی تصدیق کرنے والے ذلیل و خوار تھے اور ان کے منکر عزت و اعتبار میں ۔ مسلمان زخمی دلوں کے ساتھ اسلام کی ماتم پرسی کرتے تھے اور دشمن ٹھٹھا کر کے ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے تھے ۔ ہدایت کا آفتاب گمراہی کے پردہ میں چھپا ہوا تھا اور حق کا نور باطل کے پردوں میں آ گیا تھا۔ آج کہ دولت اسلام کی ترقی اور بادشاہ اسلام کی تخت نشینی کی خوشخبری خاص و عام کے کانوں میں پہنچی۔ اہل اسلام نے اپنے اوپر لازم جانا کہ بادشاہ کے مددگار اور معاون ہوں اور شریعت  کے رواج دینے اور مذہب کے تقویت دینے میں اس کی رہنمائی کریں ۔ خواہ یہ امداد و تقویت زبان سے ہو سکے خواہ ہاتھوں سے ۔ سب سے بڑھ کر مدد کتاب و سنت اور اجماع امت کے طریق پر شرعی مسائل کو بیان کرنا اور کلامیہ عقیدوں کا ظاہر کرنا ہے تا کہ کوئی بدعتی اور گمراه در میان آ کر راستہ سے نہ بہکاوے اور کام خراب نہ کردے

۔ اس قسم کی امداد علمائے اہل حق سے مخصوص ہے جو آخرت کی طرف توجہ رکھتے ہیں اور علمائے دنیا کا جن کا مقصود ہمہ تن دنیا کمینی ہے ان کی صحبت زہر قاتل ہے اور ان کا فساد متعدی ہے۔

عالم کہ کامرانی وتن پروری کند او خویشتن گم است کرا رہبری کند

ترجمہ :وہ عالم جو کہ ہر دم تن کو پالے وہ خود گمراہ ہے کس کو رہ بتائے

گزشتہ زمانہ میں جو بلا اسلام کے سر پر آئی وہ اسی جماعت کی کم بختی کے باعث تھی۔ بادشاہوں کو انہوں نے ہی بہکایا۔ بہتر مذہب جنہوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا ہے ان کے مقتدا اور پیشرویہی برے علماء ہیں۔ علماء کے سوا ایسے لوگ بہت کم ہیں جو گمراہ ہوئے ہوں اور ان کی گمراہی کا اثر اور لوگوں تک پہنچا ہو۔

اکثر جاہل اس زمانہ صوفیوں کا لباس پہن کر برے علماء کا حکم رکھتے ہیں۔ ان کا فسادبھی متعدی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص باوجود طاقت کے کسی قسم کی بھی مدد نہ کرے اور کارخانہ اسلام میں فتور پڑ جائے۔ تو اس کوتاہی کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔ اس لئے فقیر بے سرو سامان بھی چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کے مددگار گروہ میں داخل کرے اور اس بارے میں کوشش کرے۔ مَنْ ‌كَثَّرَ سَوَادَ ‌قَوْمٍ فهُوَ مِنْهُمْ (جس نے قوم کے گروہ کو زیادہ کیا وہ انہی میں سے ہے) کے موافق ہوسکتا ہے کہ اس فقیر کو ان بزرگوں کی جماعت میں داخل کر لیں فقیر اپنے آپ کو اس بڑھیا کی طرح خیال کرتا ہے جو اپنا تھوڑا سا سوت لے کر حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے خریداروں میں شامل ہوگئی تھی۔ امید ہے کہ فقیر جلد ہی انشاء اللہ العزیز حاضر خدمت ہونے کا شرف حاصل کرے گا۔ آپ کی جناب شریف سے امید ہے کہ جب حق تعالی نے آپ کو بادشاہ کا قرب پورے طور پربخشا ہے تو شریعت  محمدی ﷺکے رواج دینے میں ظاہر و باطن کوشش کریں اور مسلمانوں کوغریبی سے نکالیں گے۔

حال رقیمہ ہذا مولانا حامد کا اقبال مند سرکار سے وظیفہ مقرر ہے۔ پچھلے سال ظاہرا حضور سے لے آیا تھا ۔ اس سال بھی امیدوار ہو کر حاضر خدمت ہوا ہے۔ خدائے تعالی حقیقی اور مجازی دولت آپ کے نصیب کرے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ172 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں