رسول کریم ﷺ کی امام حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت

عَنْ سَعِیدٍابْنِ رَاشِدٍ عَنْ یَّعْلٰیْ بْنِ مَرَّۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ حُسَیْنُ مِنِّی وَاَنَا مِنْ حُسَیْنَ اَحَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْناً حُسَیْنُ سَبْطٌ مِنْ الْاَ سْبَاطِ (قال الترمذی ھذا حدیث حسن)

ترجمہ : حضرت یعلی بن مرہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے محبت رکھے اﷲ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے ۔حسین میرا (قابل فخر )نواسہ ہے ۔

 ہادی برحق ﷺ نے متعدد مقامات پر عظمت حسین رضی اﷲ عنہ کے مختلف گوشوں کو واضح اور واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا ہے تاکہ مقام حسین اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ ہر دل پر نقش ہو جائے اور کوئی بھی فریب میں پھنس کر عظمت حسین رضی اﷲ عنہ کا انکار نہ کر بیٹھے۔

 رسول کریم ﷺ کو حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے اس قدر شدید محبت تھی کہ جس کی مثال شائد محبت کی دنیا میں نہیں مل سکتی ۔ظاہر ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ کا ہر کام وحی الٰہی کے تابع تھا اور رسول اﷲ ﷺ کی محبت کا سبب صرف رضائے الٰہی ہی تھا ۔کیوں کہ تکمیل ایمان کی نشانی یہ بتائی گئی کہ ہر آدمی کی نفرتوں اور محبتوں کا سبب صرف ذات الٰہی ہو جائے ۔جسطرح کہ سرکار دوعالم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے ’’جس نے محبت اور بغض صرف رضائے الٰہی کے لئے کئے اس کا کسی کو کچھ دینا یا نہ دینا بھی صرف اﷲ تعا؂لیٰ کی رضا کے لئے ہو تو اس کا ایمان مکمل ہو جاتا ہے ۔اس سے بلکل واضح ہو جا تا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت صرف نواسہ ہونے کی وجہ سے نہ تھی بلکہ عنداﷲ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا مقام اور مرتبہ اس محبت کا سبب تھا اور رسول کریم ﷺ نگاہ نبوت سے شہادت حسین رضی اﷲ عنہ کی عظمتوں کو دیکھ کر ہی ان سے والہانہ محبت کرتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ سرکار دوعالم ﷺ نے حسین رضی اﷲ عنہ کو اپنے سے جدا نہ بتایا بلکہ امام حسین علیہ السلام کی محبت کو اپنی محبت قرار دے کر واضح فرما دیا کہ حسین رضی اﷲ عنہ کی محبت میری محبت ہے ۔اب جو بھی امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتا ہے درحقیقت وہ نبی کریم ﷺ سے محبت کرتا ہے ۔اور جو نبی کریم ﷺ سے محبت رکھے گادرحقیت وہ اﷲ تعالی سے محبت ہوگی۔

حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی محبت کے بارے میں سرکار دوعالم ﷺ نے کئی مقامات پر امام حسین علیہ السلام سے محبت کرنے کی تعلیم دی ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :

’’جس نے ان دونوں سے( حسن و حسین ) سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ‘‘ ۔(المعجم الکبیرللطبرانی ، ج ۳، ص۴۸)

جسطرح کہ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے حضرت یزید ابن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے دروازے کے پاس سے گزرے اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے رونے کی آواز سنی تو فرمایا بیٹی ! میرے حسین کو رونے نہ دیا کرو ’’الم تعلمی ان بکا ۂ یؤذینی‘‘ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔(المعجم الکبیرللطبرانی ، ج ۳، ص۱۱۶)

حضور اکرم ﷺ کو اپنے لاڈلے نواسوں سے کتنی محبت تھی وہ انہیں کتنا چاہتے تھے شاید آج ہم اس کا اندازہ نہ کر سکیں کیونکہ ہم جھگڑوں میں پڑ گئے ہیں ۔ حقائق ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں ۔ حقائق کا چہرہ گرد آلود ہے ، آئینے دھند میں لپٹے ہوئے ہیں حالانکہ خلفائے راشدین اور اہل بیت رضوان اﷲ اجمعین اخوت اور محبت کے گہرے رشتوں میں منسلک تھے ۔ خاندان مصطفی ﷺ کے احترام کی فضائے نور قلب و نظر پر محیط تھی ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین علیہ السلام دونوں کو دیکھا نبی مکرم ﷺ کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کہ ان شہزادوں کوکتنی اچھی سواری میسر آئی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سوار بھی تو دیکھو کہ کتنے اچھے ہیں۔ (کنز العمال ج۷ص۱۰۷)

وہ منظر کیا دلکش منظر ہو گا جنت کے جوانوں کے سردار شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین اپنے نانا جان کے مقدس کندھوں پر سوار ہیں ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ یہ روح پرور منظر دیکھتے ہیں اور شہزادوں کو مبارک باد دیتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ۔شہزادو تمہارے نیچے کتنی اچھی سواری ہے فرمایا تاجدارِ کائنات ﷺ نے عمر دیکھا نہیں سوار کتنے اچھے ہیں ۔ایک طرح کا یہ بھی پیارے آقا ﷺ کی محبت کا انوکھا انداز تھاجو وہ اپنے اصحاب پر منکشف فرما رہے تھے اور کبھی کبھی یوں ہوتا کہ آپ ﷺ حالت نماز میں ہوتے تو حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام تشریف لے آتے اور نماز کی حالت میں آپ ﷺ کی پشت اقدس پر چڑھ جاتے تھے جسطرح کہ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۱۳ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز آقا ﷺ کے ساتھ پڑھی ، آپ ﷺ سجدے میں گئے حسن اور حسین علیہ السلام دونوں بھائی حضور نبی کریم ﷺ کی پشت مبارک پر چڑھ گئے جب حضور نبی ﷺ نے سر انور سجدے سے اٹھایا اور دونوں کو اپنے ہاتھوں سے تھام لیا اور زمین پر بٹھا لیا ۔جب آپ ﷺ سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتیٰ کہ آپ ﷺ نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی اور پھر شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا ۔

قارئین غور فرمائیں یہ سجدہ خدا کے حضور ہو رہا ہے حضورنبی کریم ﷺ حالت نماز میں ہیں سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے حضور ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے دونوں شہزادوں کو تھام لیا کہ کہیں دونوں شہزادے نیچے نہ گر جائیں اور بڑی احتیاط سے زمین پر بٹھایا اور اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی کریم ﷺ حالت نماز میں سجدے میں تھے کہ حضرت حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما آئے اور پشت پر چڑھ گئے پس آپ ﷺ نے ان کی خاطر سجدہ طویل کر دیا۔ نماز سے فراغت کے بعد عرض کیا گیا ائے اﷲ کے نبی ﷺ کیا سجدہ طویل کرنے کا حکم آگیا ، فرمایا نہیں میرے دونوں نواسے حسن اور حسین رضی اﷲ عنہ میری پشت پر چڑھ گئے تھے میں نے یہ ناپسند کیا کہ جلدی کروں ( مجمعہ الزوائد )

حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے شہزادوں کے لئے قصداً سجدہ طویل کر دیا تاکہ حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما گر نہ پڑیں تاکہ ان کو گزند نہ پہنچ جائے اور اسی محبت کے رشتے کو سرکار دوعالم ﷺ نے اﷲ عزوجل کے حضور پیش کیا جسطرح کہ حضرت عطا رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ائے اﷲ تعالیٰ میں حسن اور حسین علیہ السلام سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر ۔ (مسند امام احمد بن حنبل ج۵ ص۳۶۹)

بارگاہ خدا وندی میں آقا ﷺ کے مقدس ہاتھ اٹھا ئے ہوئے ہیں معطر اور معتبر لبوں پر دعائیہ کلمات مہک رہے ہیں کہ باری تعالیٰ تو بھی حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما کو اپنی محبت کاسزا وار ٹھہرا ۔اور یہ دعائیہ کلمات بھی حضور نبی کریم ﷺ کے لبِ اقدس سے نکلے ’’مولا مجھے حسن اور حسین سے بڑا پیار ہے ، تو بھی ان سے پیار کر ،جو حسن اور حسین رضی اﷲ عنہم سے پیار کرتا ہے گویا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے ‘‘تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کی دعا کو قبول کیا اور اپنے کلام مقدس میں اپنے پیارے محبوب ﷺ کو فرمایا ’’تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت‘‘ (الشوری ۲۳)

ایک قول کے مطابق اس سے مراد حضور ﷺ کی آل پاک ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ صبح کے وقت تشریف لے گئے ، اس وقت آپ ﷺ نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی ۔ جس پر سیاہ اون سے کجاوں کے نقش بنے ہوئے تھے ۔حضرت حسن ابن علی آئے آپ ﷺ نے ان کو چادر میں لے لیا پھر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ آئے تو ان کو بھی چادر میں لے لیا پھر یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اﷲ تو یہی چاہتا ہے اے نبی ﷺ کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے ‘‘ ۔ (کنزالایمان) (الاحزاب)

آئین ِ مشیت کا شنا سا ایسا

جس کے قدموں میں ہو کوثر وہ پیاسا ایسا

کیوں فخر سے جھومیں نہ رسول عربی ﷺ

تقدیر سے ملتا ہے نواسا ایسا

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا لعب دہن چوستے ہوئے دیکھا جیسے آدمی کھجور چوستا ہے ۔ (الشرف المؤ بد لال محمد)

اور کبھی کبھی سرکار دوعالم ﷺ اپنے دونوں نواسوں کو سونگھا کرتے تھے تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ابا جان لوگ اپنے بچوں کو بوسا دیتے ہیں پیار کرتے ہوئے اور آپ ﷺ انھیں سونگھتے بھی ہیں اس کی کیا وجہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹی یہ میرے جنت کے دو پھول ہیں۔

ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور فرمانِ خداوندی کے مطابق ہم پر یہ بات لازم ہو گئی کہ جس ذات کے ساتھ (یعنی امام حسین رضی اﷲ عنہ ) حضور اکرم ﷺ اس قدر شدیدمحبت کا اظہار کریں اگر ہم حضور ﷺ کی غلامی کا دم بھرتے ہیں اگر حضور ﷺ کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں ، اگر عشق رسول ﷺ کو اپنا تشخص قرار دیتے ہیں تو پھر حضور ﷺ جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر تو رسول اکرم ﷺ کے اس محبوب سے بغض و عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہیے۔بلکہ محبوب کے اس محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار کرکے اپنے رسول اکرم ﷺ سے گہری وابستگی کو مزید مستحکم بناناچاہیے ۔کہ قصر ایمان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا یہ ایک موء ثر ذریعہ ہے ۔حضور ﷺ نے حسین رضی اﷲ عنہ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا ہے گویا حسین رضی اﷲ عنہ سے نفرت حضور ﷺ سے محبت کی عملاً نفی ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔وہ حسین جو حضور ﷺ کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا وہ حسین رضی اﷲ عنہ جو نماز کی حالت میں آپ ﷺ کی پشت مبارک پر بیٹھا تو سرور کائنات ﷺ نے اپنے سجدوں کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آجائے ۔وہ حسین رضی اﷲ عنہ جو یتیموں کے آقا غریبوں کے مولیٰ ﷺ کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسین رضی اﷲ عنہ جس کے منہ میں رسول اکرم ﷺ اپنی زبان مقدس دے دی اور اپنا لعاب دہن کو لب حسین رضی اﷲ عنہ سے مس کیا ۔ کہ ایک دب میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پرتشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے ۔ تو حسین رضی اﷲ عنہ نے بھی میدان کربلا میں ۔اپنے نانا کی محبتوں کی لاج رکھتے ہوئے اور دین اسلام کی بنیادوں کو قائم و دائم رکھنے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور دین اسلام کی آبپاری اپنے لہو سے کر کے اسے ہمیشہ کے لئے زندہ و تابندہ کر دیا ۔

کیوں سو جان سے فدا تھے نبی کریم ﷺ حسین پر

عقدہ کھلا یہ واقعہ کربلا کے بعد

اور سرکار دوعالم ﷺ نے اسی محبت کو دوام بخشنے اور تعلیمات اسلامیہ کو مسلمانوں کی آنے والی نسلوں میں پختگی سے رائج رکھنے کے لئے اور ایمان کی سلامتی اور بقاء کیلئے حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ’’اے لوگو میں اپنے بعد تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اور اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے ان میں ایک ہے میری سنت اور دوسرا اہل بیت ۔اور دوسری روایت میں کتاب اﷲ اور اہل بیت کا ذکر ہے غور فرمایئے ۔سردار مدینہ ﷺ نے اس ظلمت بھرے جہان سے کامیاب ہو کر جانے کا کیا احسن ذریعہ بتایا لیکن افسوس صد افسوس کہ اس پر فتن دور کے اندر لوگ جہاں قرآن مجید کی تعلیمات سے بے بہرا ہیں وہاں ان دلوں میں اہل بیت اور رسول اکرم ﷺ کی سنت کی محبت بھی کم ہو گئی ۔ اور ہر ایک نے اپنے طریقے سے شریعت کو اپنایا ہوا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر کرم کیا اور قیوم زماں مجدد عصر حاضر حضرت اخوندزادہ پیر سیف الرحمن مبارک دامت برکاتہم العالیہ کی صورت میں ایک ایسی ہستی ہمیں عطا کی کہ جن کے سینے میں نسبت مصطفی ﷺ کا وہی حقیقی نور ہے اور جن کی نظر کرم سے لاکھوں لوگوں کے سینے منور ہوئے اور اس پرفتن دور میں ایک بار پھر راہ ہدایت پر گامزن ہوئے ۔

اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ جس طرح بزرگان دین نے امام حسین علیہ السلام کی محبت کو ایمان کا جزولازم سمجھا اور اپنے قلوب و اذہان کی روشنی اور روح کی تازگی کا سبب بنایا اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی اہل حق کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے ساتھ استقامت کے ساتھ وابستہ رہنے کی توفیق عطا کرے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں