روح و نفس کے درمیان تعلق مکتوب نمبر22 دفتر اول

روح و نفس کے درمیان تعلق اور ان کے نزول و عروج اور فنائے جسدی اور روحی اور ان کے بقاء اور مقام دعوت اور مغلوب الحال درویشوں اور ان لوگوں کے درمیان فرق کے بیان میں جو مقام دعوت کی طرف راجح ہیں۔

شیخ محمدمفتی لاہوری کے بیٹے شیخ عبدالمجید کی طرف لکھاہے: ۔

 پاک اور منزہ ہے وہ ذات جس نے نور(روح) کو ظلمت (نفس) کے ساتھ جمع کیا اور لا مکانی(روح ) کو جو جہت (اطراف) سے بری ہے مکانی (روح ) کے ساتھ جو جہت میں ہےہمقرین (ساتھی) کیا اور ظلمت کو نور کی نظر میں محبوب کر دیا۔ پس وہ نور اس پر فریفتہ ہو گیا اور کمال محبت سے اس کےساتھ مل گیا تا کہ اس تعلق سے اس کی روشنی زیادہ ہوجائے اور ظلمت کی ہمسائیگی سے اس کی صفائی کامل ہوجاۓ جس طرح کہ آئینے کو جب صیقل کرنا اور اس کی لطافت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس کومٹی سے آلوده کرتے ہیں تا کہ مٹی کی ظلمت کی ہمسائیگی سے اس کی صفائی ظاہر ہوجائے اور مٹی کی کثافت کی وجہ سے اس کی روشنی زیادہ ہو جائے۔

پس اس نور نے ظلمانی معشوق کے مشاہدہ میں غرق ہونے اور عنصری جسم سے تعلق ہونے کے باعث جو کچھ اس کو پہلے قدسی شہود(مشاہدہ)  سے حاصل تھا۔ فراموش کردیا بلکہ اپنی ذات اور اپنے وجود کے متعلقات سے بھی بے خبر ہو گیا۔ پس وہ اس کی ہم نشینی سے اصحاب مشئمه یعنی بائیں  ہاتھ والوں میں سے ہو گیا اور اس کی صحبت میں اصحاب میمنہ یعنی دائیں ہاتھ والوں کے فضائل کو ضائع کر دیا۔ پس اگر اسی استغراق کے تنگ کوچہ میں پڑا رہا اور اطلاق و آزادی کے میدان میں نہ پہنچا تو اس پر ہزار افسوس ہے کیونکہ اس کے وجود سے جومقصود تھا۔ حاصل نہ ہوا بلکہ اس کی استعداد کا جوہر بھی ضائع ہوگیا۔ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ، (پس بڑاگمرہ ہوگیا اور اگر نیکی کی تو فیق اسکومل  اور خدا کی عنایت اس کے شامل حال ہوئی تو اس نے غفلت سے سر کو اٹھایا اور جو کچھ اس سےگم ہوا تھا یاد کیا اور یہ کہتے ہوئے اپنی پہلی حالت کی طرف رجوع کیا ۔

اے امیدم سوے تو بس عمرہ وحج من است حج  گو میکرد قومے جانب خاک وحجر

ترجمہ: اے میری امید میرا حج و عمرہ ہے توئی مٹی پتھر کی طرف ہے دوسروں کا گرچہ حج

 اگر اس کو دوبارہ اپنے قدسی مطلوب کے مشاہدہ میں اچھی طرح استغراق حاصل ہو گیا اور بارگاه مقدس کی طرف پورے طور پر توجہ نصیب ہوگی تو اس وقت ظلمت اس کے تابع ہو جائے گی اور اس کے انوار کے غلبوں میں مندرج ہوجائے گی۔ پس جب یہ استغراق اس حد تک  پہنچ جائے کو ظلمانی متعلق کو بالکل بھول جائے اور اپنی ذات اور اپنے وجود کے توابع سے کلی طور پر بے خبر ہو جائے اور مشاهد ہ نور الانوار میں فانی ہو جائے اور اس کو پردوں کے پیچھے سے مطلوب کا حضور حاصل ہو جائے تو فناۓ جسدی اور روحی سے مشرف ہوجائے گا اور اگر اس مشہود میں فنا حاصل ہونے کے بعد اس کو شہود(مشاہدہ)  میں بقا بھی حاصل ہوئی تو فنا اور بقا کی دونوں جہتیں اس کو پورے طور پر حاصل ہوگئیں اور اب اسم ولایت کا اطلاق اس پر صحیح ہوگیا۔ پس اس وقت اس کا حال دو امروں سے خالی نہیں ہے یا تو اس کو مشہود(مشاہدہ)  میں کلی طور پر استغراق اور دائمی استہلاک اورفنا ہوگیا یا خلقت کو اللہ تعالی کی طرف بلانے کے لئے راجح ہوگا اس طرح پر کہ اس کا باطن اللہ تعالی کے ساتھ اور اس کا ظاہر خلق کے ساتھ ہوگا اور اس وقت نور اس ظلمت سے جو اپنے مطلوب کی طرف متوجہ ہے آزاد ہوجاتا ہے اور اس آزادی کے باعث اصحاب یمین یعنی دائیں ہاتھ والوں سے ہو جاتا ہے اگر چہ حقیقت کے لئے نہ راست ہے نہ چپ۔ لیکن دست راست اس کے حال کے موافق اور اس کے کمال کے مناسب ہے کیونکہ یمن و برکت میں دونوں ہاتھوں کے مشترک ہونے کے باوجود دست راست خیر یت کی جہت کا جامع  ہے۔ چنانچہ الله تعالی کی شان میں وارد ہے۔ کلتا يديده یمین. (اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہاتھ کی طرح ہیں ) اور وہ ظلمت اس نور سے بندگی اور اطاعت کے مقام میں اتر آتی ہے اور ہماری مرادنورلا مکانی سے روح بلکہ اس کا خلاصہ ہے اور جنت میں مقید ہوئی ۔ ظلمت سے مرادنفس ہے اور ظاہر و باطن سے بھی ہماری مراد یہی ہے۔

اگر کوئی کہے کہ اولیا مغلوب الحال کوبھی عالم کے ساتھ شعور اور اس کی طرف توجہ اور اپنے بنی نوع کے ساتھ اختلاط ہوتا ہے۔

پس دائمی طور پر پوری توجہ اور استہلا ک و فنا کے کیا معنی ہیں اور ان کے اور ان لوگوں کے در میان جو دعوت کے لئے عالم کی طرف راجع ہیں کیا فرق ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ استہلاک اور توجہ تام مراد ہے۔ روح ونفس دونوں کی اکٹھی توجہ سے بعد اس کے کہ روح کے انوار میں نفس مندرج (داخل)ہوجائے جیسا کہ پہلے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور عالم کے ساتھ اس کا شعور حواس قو یٰ اور اعضاء کے ذریعے  ہوتا ہے جس کے لئے تفصیلوں کی مانند ہیں۔ پس مجمل مخلص اپنے مشہود(مشاہدہ)  کے مطالعہ کے باعث روحانی انوار کےضمن میں مستہلک اور فانی رہتا ہے اور اس کی تفصیل پہلے ہی شعور پر باقی رہتی ہے۔ بغیر اس کے کہ اس میں کسی قسم کافتور واقع ہو۔ برخلاف اس شخص کے جو عالم کی طرف راجع ہے کیونکہ اس کا نفس اطمینان حاصل کرنے کے بعد ان انوار سے دعوت کے لئے باہر نکل آتا ہے اور اس کو عالم کے ساتھ مناسبت حاصل ہو جاتی ہے اور اس مناسبت کے سبب سے اس کی دعوت مقبول ہو جاتی ہے لیکن اس بات کا بیان کہ نفس مجمل ہے اور اس کے حواس وغیرہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ نفس کا قلب صنوبری (صنوبر کی شکل کا گوشت کا ٹکڑا جو کہ انسان کے جسم میں سینہ کے بائیں جانب ہوتا ہے)کے ساتھ تعلق ہے اور قلب صنوبری کا تعلق حقیقت جامع قلبیہ کے وسیلہ سے روح کے ساتھ ہے اور روح سے فیوض و اراده مجمل طور پر نفس پر نازل ہوتے ہیں۔ پھر اس کے وسیلہ سےتمام قویٰ و اعضاء پر مفصل طور پر پہنچتے ہیں۔ پس ان اعضاء کا خلاصہ مکمل طور پر نفس میں موجود ہے اس بیان سے دونوں گروہوں (مستہلکین و مرجوعین)کے درمیان فرق ظاہر ہوگیا۔

اور جاننا چاہئے کہ پہلا گروہ صاحبان سکر(صوفیاء کی اصطلاح سلطان الحال کا غلبہ ،ارباب قلوب)  میں سے ہے اور دوسرا اصحاب صحو (صوفیاء کی اصطلاح تربیت افعال کی طرف لوٹنا،حقائق غیبیہ کے مکاشفین) میں سے اورشرافت پہلے کے لئے ہے اور فضیلت دوسرے کے لئے اور پہلا مقام ولایت کے مناسب ہے اور دوسرا نبوت کے مناسب۔ اللہ تعالی ہم سب کو اولیاء کی کرامتوں سے مشرف فرمائے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی کمال متابعت پر ثابت قدم رکھے۔ صلوات الله وسلامه على نبينا عليهم وعلى جميع إخوانه من الملائكة المقربين وعلى عباد الله الصالحين إلى يوم الين. (اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے نبی پر اور تمام انبیاء پر اور نبی ﷺکے اصحاب اور ملائکہ مقربین اور بندگان صالحین پر قیامت تک صلوۃ و سلام نازل ہو ) آمین۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ92 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں