روح کی بیماری حکمت نمبر34
روح کی بیماری کے عنوان سے باب سوم میں حکمت نمبر34 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ معرفت سے روح کا حجاب وہمی وعدمی امر ہے جس کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ اور وہ بشری اوصاف سے روح کا بیمار ہونا ہے۔ تو اگر وہ صحت یاب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی معرفت ضرور حاصل کرے گی اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔
34) اخْرُجْ مِنْ أَوْصَافِ بَشَرِيَّتِكَ عَنْ كُلِّ وَصْفٍ مُنَاقِضٍ لِعُبُودِيَّتِكَ لِتَكُونَ لِنِدَاءِ الْحَقِّ مُجِيبًا وَمِنْ حَضْرَتِهِ قَرِيبًا.
تم اپنے بشری اوصاف سے باہر نکلو ہر وصف سے جو تمہاری عبودیت کی خلاف اور ضد ہیں تا کہ تم حق تعالیٰ کی پکار پر حاضر کہنے والے اور اس کے حضور کے قریب ہو جاؤ
بشری اوصاف
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ بشری اوصاف:۔ وہ اخلاق ہیں جو عبودیت کے خلوص کی ضد اور مخالف ہیں اور وہ دو طرف رجوع ہوتے ہیں۔
حیوانی اخلاق
اول: حیوانوں کے اخلاق سے قلب کا تعلق ہوتا ہے۔ اوروہ پیٹ اور شرگا ہ کی خواہش ہے اوردنیا اور اس کی فنا ہونے والی خواہشات سے جو چیزیں ان دونوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٰتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلۡبَنِينَ وَٱلۡقَنَٰطِيرِ ٱلۡمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلۡفِضَّةِ وَٱلۡخَيۡلِ ٱلۡمُسَوَّمَةِ وَٱلۡأَنۡعَٰمِ وَٱلۡحَرۡثِۗ خواہشات کی محبت آدمیوں کیلئے زینت ہے یعنی ان کو خوشنما معلوم ہوتی ہیں مثلا عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے ڈھیروں اور نشان کئے ہوئے گھوڑوں اور دوسرے مویشیوں اور کھیتی یعنی زمین وغیرہ کی خواہشات۔
شیطانی اخلاق
دوم :۔ شیطانی اخلاق سے قلب کا موصوف ہونا۔ جیسے غرور اور حسد اور کنیہ اور غضب اور پریشانی اور اتر انا اور تکبر، مرتبہ اور تعریف کی خواہش ہے۔ بے رحمی ، بد زبانی سخت دلی ، اور دولتمندوں کی تعظیم ، فقیروں کو حقیر سمجھنا محتاجی کا خوف ، روزی کی فکر بخیلی اور ریاء ، خود پسندی ، وغیرہ جن کا شمار نا ممکن ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ جو صفتیں اللہ تعالیٰ کیلئے کمالات ہیں وہ نفس کیلئے عیوب ہیں ۔ حضرت شیخ ابو عبدالرحمن سلمی نے نفس کے عیوب اور ان کے علاجوں کے بیان میں ایک کتاب تصنیف کی ہے اور حضرت شیخ زروق نے اس کو نظم کیا ہے۔ جو تقریبا آٹھ اشعار پرمشتمل ہے۔ اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے شیخ تربیت کے حوالے کر دیا:۔ اس کیلئے شیخ کی باتیں سننے اور اس پر عمل کرنے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ پس جب مرید حیوانی صفات سے باہر ہو جاتا ہے۔ تو روحانیوں کے اخلاق سے موصوف ہو جاتا ہے۔ جیسے زہد و ورع ، قناعت، پاکدامنی ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس و محبت اللہ میں مشغولیت مخلوق سے بے نیازی۔
اور جب وہ شیطانی اخلاق سے پاک ہو جاتا ہے تو مومنوں ، یا فرشتوں کے اخلاق سے آراستہ ہو جاتا ہے۔ جیسے تواضع سینہ کی سلامتی حلم، سکینہ یعنی سکون کامل سنجیدگی ، اطمینان ، نرم دلی گمنامی ، اللہ تعالیٰ کے علم کو کافی سمجھنا، شفقت و رحمت ، فقیروں اور محتا جوں اور اہل نسبت اور تمام امت کی تعظیم و تکریم بخشش و سخاوت ، اخلاص ،صدق ، مراقبہ ومشاہدہ ، ومعرفت ۔
تو جب بندہ ان اخلاق سے موصوف ہو جاتا ہے اور ان کا ذوق اس میں پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی ضد اور مخالف صفات سے پاک ہو جاتا ہے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ماسوا سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی پکار پر حاضر اور اس کے حضور کے قریب ہو جاتا ہے تو جب اس کا رب کہتا ہے :۔ اے میرے بندے۔ تو وہ کہتا ہے :۔ اے میرے رب !پس وہ اپنی عبودیت کی سچائی کی بنا پر اپنی قبولیت میں سچا ہوتا ہے۔
بخلاف اس کے جو اپنے ظاہری اور باطنی خواہشات میں منہمک اور مشغول ہوتا ہے۔ وہ اپنے نفس اور خواہشات کا بندہ ہوتا ہے۔ تو جب وہ کہتا ہے :اے میرے رب ! تو وہ جھوٹاہوتا ہے۔ کیونکہ جو شخص جس کو محبت کرتا ہے وہ اس کا بندہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ نہیں پسند کرتا ہے کہ وہ اس کے غیر کا بندہ بنے اور جب وہ خواہشات و لذات کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کے قریب بلکہ اس میں مختلف ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انہیں وہمی خیالات کی محبت نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور سے دور رکھا ہے۔ تو جب ہم ان سے آزاد ہو گئے اور عبودیت میں ثابت اور قائم ہو گئے ، تو ہم نے اپنے کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں پایا۔
اور یہاں صرف اللہ تعالیٰ کے مظاہر اوراس کی تجلیات ہیں اور ا سکے سوا یہاں کچھ نہیں ہے اور سب اختیار اور قوت صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور اسکے سواکسی کے ساتھ کوئی اختیار اور قوت نہیں ہے۔
اور انسان میں ان عیوب کے باقی اور قائم ہونے کا سبب حکمت کے اعتبار سے ان کی تحقیق سے غفلت ہے۔ اور غفلت کا سبب نفس سے راضی ہونا ہے کیونکہ جب اس کا گمان نفس کے ساتھ خراب ہوگا تو اس کے عیوب کی تحقیق و تلاش کرے گا۔ پھر ان کو دور کرے گا اور پاک ہو جائے گا۔