ریاکاری کے وار (سترھواں باب)

ریاکاری کے وار کے عنوان سے سترھویں باب میں  حکمت نمبر 160 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس دوا کی تشریح کی جو طاعت کے اندر اپنی بعض جزئیات کے ساتھ پوشیدہ ہوتی ہے اور وہ بہت بڑی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
160) رُبَّما دَخَلَ الرِّياءُ عَلَيْكَ مِنْ حَيْثُ لا يَنْظُرُ الخَلْقُ إلَيْكَ.
اکثر اوقات ریا ءتمہارے اندر اس حال میں بھی داخل ہوتی ہے کہ مخلوق تمہاری طرف نہیں دیکھتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- ریاء لوگوں کے نزدیک قدر ومنزلت کی خواہش اور کسی نیک عمل کے ذریعے اس کے ارادہ کرنے کا نام ہے۔ خواہ وہ عمل لوگوں کے سامنے ظاہر ہو اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ خواہ وہ لوگوں سے پوشیدہ ہو۔ کیونکہ ریاء ، پوشیدہ عمل میں بھی ہوتا ہے۔ لہذار یا ء تمہارے اندر اس حال میں بھی داخل ہوتا ہے۔ کہ کوئی شخص تمہارے عمل کو نہ دیکھے۔ اور یہ پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ بعض عارفین فرماتے تھے ۔ میں نے اپنے قلب سے ہر طریقے پر ریاء کو دور کر نیکی کوشش کی۔ لیکن جب میں نے اس کو ایک طریقے سے دور کیا ۔ تو وہ دوسرے طریقے سے پیدا ہوگیا۔ جس کا مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اور بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ بڑی ریاؤں میں سے یہ ہے:۔ کہ دینے اور روکنے اور نقصان اور فائدہ کو مخلوق کی طرف سے سمجھے۔
اور بعض عارفین نے فرمایا ہے : ۔ ریاء کی تین قسمیں ہیں۔ اور تینوں دین کی خرابی کا سبب ہیں۔
پہلی قسم :- اور یہ سب سے بڑی ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ اپنے عمل سے مخلوق کا ارادہ کرے۔ اور اگرمخلوق موجود نہ ہو تو وہ عمل نہ کرے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ مدح و ثنا کے لئے عمل کرے۔
تیسری قسم: یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کرے۔ لیکن اس عمل سے ثواب حاصل کرنے یا عذاب دور ہونے کی امید کرے۔ اور یہ تیسری قسم :- ایک طریقے سے بہتر ہے اور ایک طریقے سے بری ہے۔ عارفین کے نزدیک یہ ریاء ہے۔ اور عام مسلمانوں کے نزدیک یہ اخلاص ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ اور عمل صالح کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے۔
اور عمل صالح : ۔ وہ ہے جو ظاہری اور باطنی ریا سے اس طرح محفوظ ہو، کہ اس عمل کا کرنے والا دنیا اورآخرت کے کسی فائدسے کا ارادہ نہ کرے
اور ریا کار کی بہت سی علامات ہیں۔ جو پوشید ہ نہیں ہیں :۔ ان علامات میں سے :۔ لوگوں کے سامنے اس کا خوشی اور سرگرمی سے عمل کرنا ، اور تنہائی میں، اس کا عمل میں کاہلی اور سستی کرنا ہے۔ یعنی جب لوگ اس کو دیکھتے ہوں، تو پوری مستعدی سے عمل کرتا ، اور جب اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہ دیکھتا ہوتو کا ہلی اور سستی سے عمل کرتا ہے۔ اور ریاء کی علامات میں سے :۔ اس کا اپنے دل میں لوگوں سے اپنی عزت اور تعظیم کی خواہش رکھنا ہے اور اپنی ضروریات کے پورا کرنے میں ، لوگوں کے ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لینے کا طلبگار ہونا ہے۔ اور جب کوئی شخص اس کے اس حق میں کوتاہی کرے، جس کا وہ اپنے نزدیک اپنے کو مستحق سمجھتا ہے۔ تو وہ اس سے دور رہے۔ اور اس کو برا سمجھے۔ نیز یہ کہ وہ اپنی عزت اور اپنے غیر کی عزت اور اپنی تو ہین اور اپنے غیر کی تو ہین میں اپنےساتھیوں کے سلوک میں فرق محسوس کرے۔ یہاں تک کہ اکثر اوقات بعض کم عقل اور کم ظرف لوگ اس کو اپنی زبان سے ظاہر کر دیتے ہیں۔ پھر جو لوگ ان کے حق کے معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے جلد سزادینے کی دھمکی دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ کہ ان کی مدد کرے۔ اور ان کا بدلہ لے۔ لہذا اگر فقیر اپنے اندر ان علامات کو پائے ۔ تو اس کو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ اپنے عمل میں ریا کاری کر رہا ہے۔ اگر چہ اس نے اپنے عمل کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا ہو ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے :- اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فقیروں سےفرمائے گا۔ کیا تم لوگ اپنا بھا ؤ سستا نہیں کرتے تھے ؟ کیا تم لوگ سلام کرنے میں جلدی نہیں کرتے تھے؟ کیا تم اپنی حاجتوں کو پورا نہیں کرتے تھے؟ (یعنی اپنی حاجتوں کے پورا کرنے کے لئے اہل دنیا کے پاس نہیں جاتے تھے )
حدیث شریف میں ہے:۔
لَا أَجْرَ لَكُمْ ‌قَدْ ‌اسْتَوْفَيْتُمْ أُجُورَكُمْتمہارے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ تم اپنا اجر پورا پورا پا چکے ہو۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :۔ ایک عابد نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:۔ ہم نے صرف سرکشی کے خوف سے مال اور اولا د سے جدائی اختیار کی۔ لیکن اب ہم کو یہ خوف ہے۔ کہ ہمارے اندر ہمارے اس معاملے میں ، اس سے زیادہ سرکشی نہ داخل ہو جائے۔ جو مالداروں کے اندر ان کے مالوں کے سلسلے میں داخل ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ہم میں سے کوئی شخص جب کسی سے ملتا ہے تو وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی دینداری کی وجہ سے اس کی عزت کی جائے اور جب وہ کوئی حاجت طلب کرتا ہے۔ تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی دیانتداری کے سبب اس کی حاجت پوری کر دی جائے ۔ اور اگر وہ کوئی چیز خریدتا ہے۔ تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی دینداری کے سبب اس کی قیمت اس سے کم لی جائے ۔ یہ خبر ان کے بادشاہ کو پہنچی تو وہ سوار ہو کر فوج کے ساتھ روانہ ہوا۔ تو میدان اور پہاڑ لوگوں سے بھر گیا۔ عابد نے دریافت کیا :- یہ کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا۔ بادشاہ آپ سے ملاقات کے لئے آیا ہے تو انہوں نے لڑکے سے کہا ۔ تم میرے پاس کھانا لاؤ۔ تو وہ ان کے پاس کچھ ساگ اور زیتون کا تیل اور درخت کا گودا لایا۔ تو وہ منہ میں کھانا بھرے ہوئے اور جلدی جلدی کھاتے ہوئے اس کے سامنے آئے۔ بادشاہ نے دریافت کیا یہ تمہارا ساتھی شیخ کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا : یہی ہیں ۔ بادشاہ نے پوچھا:۔ آپ کیسے ہیں؟ عابد نے جواب دیا ۔ آدمیوں کی طرح اور دوسری حدیث میں خیر کے لفظ کے ساتھ یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔ پھر بادشاہ نے کہا: اس کے پاس کوئی بھلائی نہیں ہے۔ پھر واپس ہو گیا تو عابد نے کہا: – سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ جس نے تم کو میرے پاس سے اس حال میں واپس کیا۔ کہ تم میری مذمت کر رہے تھے۔
اور ریاء کی اس قسم سے اکابر اولیائے نے خوف محسوس کیا اور انہوں نے اپنے کو برے لوگوں میں شمار کیا۔ جیسا کہ حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا ۔ جو شخص کسی ریا کار کو دیکھنا چاہتا ہے۔ تو اس کو چاہیئے کہ وہ فضیل بن عیاض کو دیکھے۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے ایک عورت کو یہ کہتے ہوئے سنا ۔ اے میرے ریا کار! تو حضرت مالک نے فرمایا:- اے عورت ! تم نے میرا وہ نام معلوم کر لیا ہے جو بصرہ والے بھول گئے ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہیں۔ جو اکابر اولیائے کرام سے اس سلسلے میں منقول ہیں۔ اور ظاہری اور باطنی ریاء سے موحدین عارفین کے سوا کوئی شخص محفوظ نہیں رہتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے موحدین عارفین کو شرک کی باریکیوں سے پاک کر دیا ہے۔ اور مخلوق کا دیکھنا ، ان کی نظر سے غائب کر دیا ہے۔ کیونکہ ان کے قلوب میں یقین اور معرفت کے انوار روشن ہو چکے ہیں۔ اس لئے وہ مخلوق سے کسی فائدے کی امید نہیں رکھتے ہیں ۔ نہ اس سے کسی نقصان کا خوف کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے اعمال خالص ہوتے ہیں۔ اگر چہ وہ لوگوں کے سامنے عمل کریں اور جو شخص اس مقام میں نہیں پہنچا ہوتا ہے۔ اور وہ مخلوق کو دیکھتا ہے اور ان سے فوائد کے حاصل ہوئے اور نقصانات کے دور ہونے کی امید رکھتا ہے۔ وہ اپنے عمل میں ریا کاری کر رہا ہے۔ اگر چہ وہ پہاڑ کی اونچی چوٹی پراللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہو۔ جہاں کسی کی نظراس پر نہ پڑتی ہو۔ یہ حضرت شیخ ابن عباد رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں