زہد اور معرفت

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

دنیا کی نعمتوں کا ترک کر ناز ہد اور ان کا لینا معرفت ہے:

اے عراق والو! -اے دنیا کی حکومت والو!اے دنیا کے بادشاہو! ۔اے دنیا کے لباس ولایت والو! میرے پاس بہت سے کپڑے ہیں ، جو چاہو پہن لو ۔ مگر میرے بارے میں سلامت روی کو اختیار کرو، اور تم پر ایسالشکر لے کر آؤں کہ جس کا تم سامنا نہ کر سکو ۔ والسلام!

دنیا کی نعمتوں کا ترک کر ناز ہد ہے، اوران کالینا معرفت ہے، اگلوں کی باتوں کو چھوڑ ان میں سے ہر ایک وقت کا شیخ تھا، زاہد، عارف کا غلام ہے، جب تک زاہد کی ذات میں دنیا اور مافیہا اور آخرت کی بہتری میں سے کچھ ہے، وہ زہد کرے گا، آخرت بھی ایک طرح کی خواہش اور طبیعت کا حصہ ہے ، کیا تیرے ہاں اسے ترک کر دینا موجود ہے، جو چیزیں عارف لیتا ہے اگر وہی کچھ زاہد کا دل بھی لینے لگے اور یہ کہ اس کے دل سے ساری لذتیں جاتی رہیں، یعنی اس درخت کا جڑوں سمیت قلع قمع ہو جائے تو زہد ختم ہو جائے گا ، معرفت آ جائے گی ، کدورت چلی جائے گی ،صفائی آ جائے گی، معرفت میں استغراق حاصل ہوگا ، اسباب کے پیدا کرنے والا اللہ آ جائے گا اور سبب منقطع ہو جائے گا ۔ اس وقت اس سے ثبات واستقامت رجوع کرے گی ، وہ آستانہ الہٰی کے دروازے پر بیٹھ جائے گا ،خلق کو اچھے کاموں کا حکم دے گا اور اسے برے کاموں سے منع کرے گا ، تیرے گناہ تیرےساتھ متعلق ہورہے ہیں، دشمن تاک لگار ہے ہیں ، اگر تو دشمنوں کو ذلیل وخوار کرنا چاہتا ہے تو ابھی تو بہ کر لے اور اپنی آخرت میں مشغول ہو جاء اللہ تجھ پر گواہ ہے ، اور وہ جہاں کہیں بھی ہو تیرے ساتھ ہے، حضرت ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ دعا کیا کرتے تھے : اللهم ارحم غريبي في دنیای الہی دنیا میں میری غربت پر رحم فرما!‘‘

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 737،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں