ایک استفسار کے جواب میں جو اپنی قبولیت کے بارے میں کیا تھا اور اپنے یاروں میں سے ایک یار کے احوال میں علوم شرعیہ کی تعلیم اور احکام فقہیہ کے پھیلانے پر ترغیب دینے اور اس کے مناسب بیان میں ملا احمد برکی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد عرض کرتا ہے کہ آپ کے دونوں مبارک نواز نامے جو شیخ حسن وغیرہ کے ہمراہ ارسال کئے تھے، پہنچے اور بہت خوشی حاصل ہوئی۔ ایک خط میں خواجہ اویس(قرنی) رحمتہ اللہ علیہ کا احوال لکھا تھا اور دوسرے خط میں اپنے قبولیت کی نسبت استفسار فرمایا تھا۔ اسی اثناء میں آپ کے حال پر توجہ کی۔ دیکھا کہ اس گردونواح کے لوگ آپ کی طرف دوڑتے آتے ہیں اور آپ کی طرف التجا کرتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ آپ کو اس زمین کامدار بنایا گیا ہے اور ان حدودو اطراف کے لوگوں کو آپ کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ لِلہِ سُبْحَانَہٗ الْحَمْدُ وَالْمِنَّةُ عَلىٰ ذٰلِكَ اس امر پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور احسان ہے) اس معاملہ کے ظہور کو واقعات سے نہ خیال کریں کیونکہ واقعات میں شک و شبہ کا گمان ہوتا ہے بلکہ مشاہدات اور محسوسات سے جانیں۔
اس دولت کے حاصل کرنے کے لئے آپ کے واسطے عمدہ ذریعہ یہ ہے کہ آپ اس محبت و اخلاص کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دوستوں کے واسطے محض اپنی عنایت سے عطا فرمائی ہے۔ ایسے مقامات میں جہاں کہ کفر متمکن(جگہ پکڑے) ہو اور بدعتیں جاری ہوں۔ علوم شرعیہ کی تعلیم دیں اور احکام فقہیہ کو پھیلائیں۔ فعلیكم بتعليم العلوم الدينية ونشر الأحکام الفقهية ما استطعتم فإنهما ملاك الامر ومناط الإرتقاء ومدار النجاة آپ کو لازم ہے کہ علوم دینیہ کی تعلیم دیں اور جہاں تک ہو سکے۔ احکام فقہیہ کو پھیلا ئیں کیونکہ یہی دونوں اصل مقصود ہیں اور انہی پر ترقی اور نجات کا مدار ہے۔
اپنی کمر ہمت کومضبوط باندھ کر علماء کے گروہ میں داخل رہیں اور امر معروف اور نہی منکر کر کے خلق کو حق تعالیٰ کے راستے کی طرف رہنمائی کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًايہ قرآن وعظ ونصیحت ہے جو شخص چاہے اللہ کی طرف راستہ حاصل کرلے۔
ذکر قلبی بھی کہ جس کے ساتھ آپ مجاز ہیں ۔ احکام شرعیہ کے بجالانے میں مدد دینے والا اور نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کی سرکشی کو دور کرنے والا ہے۔ اس طریق کو بھی جاری رکھیں اور اپنےیاروں کے احوال سے اطلاع نہ پانے پر آزردہ نہ ہوں اور اس امر کو اپنی بے حاصلی کی دلیل نہ جانیں۔ یاروں کے احوال آپ کے کمالات کی آئینہ داری میں کافی ہیں۔ یہ بھی آپ ہی کے احوال ہیں جو بطریق انعکاس یاروں میں ظاہر ہورہے ہیں ۔ شیخ حسن آپ کے ارکان دولت میں سے ہے اور آپ کے معاملہ کا ممد و معاون ہے اور اگر بالفرض آپ کو ماوراء النہر یا ہندوستان کی یہ سیرکی خواہش پیدا ہوجائے تو وہاں آپ کا قائم مقام شیخ حسن ہے۔ اس کے حق میں اپنی التفات وتوجہ کو بخوبی مد نظر رکھیں اور بہت کوشش فرمائیں تا کہ ضروری علوم دینی کی تحصیل سے جلدی فارغ ہو جائے ۔ ہندوستان کی یہ سیر آپ کے حق میں بھی غنیمت ہے اور اس کے حق میں بھی۔ رَزَقَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ وَاِيَّاكُمْ الْإِسْتَقَامَةَ عَلٰى مِلَّةِ الْإِسْلَامِ عَلىٰ صَاحِبِهَا الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِيَّةُ الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو ملت اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔
آپ نے لکھا تھا کہ اس بار کے لئے چھ مہینے ہوئے ہیں کہ ترقی واقع ہوئی ہے جو کچھ اس کو غیبت اور بے شعوری کی حالت اور ارواح طیبات سے حاصل ہوتا تھا۔ اب وہ حالت بیداری میں دیکھتا ہے۔
میرے مخدوم! یہ دید ترقی پر بھی دلالت نہیں کرتی، خواہ شعور میں دیکھیں یا بے شعوری میں ۔ کیونکہ قدم اول اس راہ میں یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے غیر کو کچھ نہ دیکھیں اور اندیشہ میں ماسوائے اللہ تعالیٰ کا خیال نہ رہے۔ نہ اس معنی سے کہ اشیاء کو حق تعالیٰ کا غیر نہ دیکھے اور ماسوائے کے عنوان پر نہ جانے کیونکہ یہ بات بجائے خود کثرت بینی ہے بلکہ حق تعالیٰ کے غیر کو ہرگز نہ دیکھے اور نہ جانے ۔ اس حالت کو فنا سے تعبیر کرتے ہیں اور اس راہ کی منازل میں سے یہ پہلی منزل ہے۔ وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ ( اور اس کے سوا بے فائد ه رنج و تکلیف ہے)
وہ مکتوب جو ان دنوں میں لکھے گئے ہیں۔ بہت عزیز الوجود ہیں اور بہت عجیب و غریب فوائد ان میں درج ہیں ۔ ان کی نقل شیخ حسن لے گئے ہیں ۔ ان کو اچھی طرح ملاحظہ فرمائیں۔
آپ نے اپنی والدہ مرحومہ کی مغفرت کے لئے دعا کی التماس کی تھی، وہ التماس آپ کی قبول ہوگئی ہے۔ ان اطراف کے باقی احوال کوشیخ حسن مفصل طور پر بیان کردیں گے۔
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتِ اَفْضَلُھَا وَمِنَ التَّحِيَّاتِ وَاَکْمَلُهَا (اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
فقیر اور فقیر زادے سلامت خاتمہ کے لئے دعا کی التماس کرتے ہیں ۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ329 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی