سلسلہ نقشبندیہ میں بدعات کا رواج مکتوب نمبر168دفتر اول

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی بلند شان اور ان لوگوں کے حال کی شکایت بیان کرنے میں جنہوں نے اس طریقہ شریفہ میں کئی طرح کے محدثات ومخترعات کو رواج دیا ہے اور اس کے مناسب بیان میں مخدوم زاد و امکنگی یعنی خواجہ محمد قاسم کی طرف لکھا ہے۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ  وَاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ سب تعریف اللہ ہی کو ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور صلوۃ و سلام ہو حضرت سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر۔ 

اس کے بعد ب ہت سی دعا ئیں اور بے شمار تحفے مشائخ کرام کے برگزیدہ اور اولیائے عظام کے نتیجہ یعنی سیدھے راستہ پر چلنے والے حضرت مخدوم زادہ سلمہ اللہ تعالیٰ و ابقاہ کی خدمت شریف میں پہنچا کر اشتیاق و آرزومندی کا اظہار کرتا ہے۔ شعر 

كَيْفَ الْوُصُوْلُ إِلىٰ سُعَادَ وَدُوْنَهَا قُلَلْ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُيُوْفُ

میں سعاد تک کعب کیسے پہنچوں کس قدر خوفناک راستے ہیں  

مخدوم زادہ کو معلوم ہو کہ اس طریقہ علیہ کی بلندی سنت کے التزام اور بدعت سے اجتناب کے باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طریقہ کے بزرگواروں نے ذکر جہر سے پر ہیز فرمایا ہے اور ذکر قلبی کی طرف رہنمائی کی ہے اور سماع ورقص و تواجد سے جو حضرت علیہالصلوة والسلام اور خلفائے راشدین رضوان اللہ  علیہم اجمعین کے زمانہ میں نہ تھے ان سے منع کیا ہے اور خلوت و چلہ جوصدر اول میں نہ تھا۔ اس کی بجائے خلوت در انجمن(مخلوق کے ساتھ رہ کر ذکر قلبی کرنے) کو اختیار کیا ہے۔ اسی سب سے بڑے بڑے نتیجے اس الزام پر مرتب ہوئے ہیں اور بہت قسم کے فائدے اس اجتناب سے حاصل ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی نہایت ان بزرگواروں کی ابتداء میں مندرج ہے اور ان کی نسبت سب نسبتوں سے بڑھ کر ہے۔ ان کی کلام دلی مرضوں کی دوا ہے اور ان کی نظر باطنی امراض کی شفا ہے۔ ان کی بزرگ توجہ طالبوں کو دونوں جہان کی گرفتاری سے نجات بخشتی ہے اور ان کے بلند ہمت مریدوں کو امکان کی پستی سے وجوب کی بلندی تک پہنچاتی ہے۔ ۔ 

نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند     کہ برند از رہ پنہان بحرم قافلہ را

از دل سالک رہ جازذبہ صحبت شاں میبردو سوسہ خلوت و فکر چلہ را 

 ترجمہ: نقشبندی عجیب ہی قافلہ سالار ہیں جو قافلے کو خفیہ راستے سے حرم پہنچا دیتے ہیں ۔

   دل سالک  سے ان  کاجذ ب صحبت گھڑی میں مٹادیتا ہے خلوت کے خیالات اور چلے کو ۔

لیکن ان دونوں میں کہ وہ نسبت شریفہ عنقائے مغرب (مخفی )ہوگئی ہے اور بالکل پوشیدہ ہوگئی ہے اس گروہ میں سے ایک جماعت نے اس دولت عظمی کے نہ پانے اور اس نعمت اعلی کے گم ہونے سے ہر طرف ہاتھ پاؤں مارے ہیں(متلاشی رہے ہیں) جوہر نفیسہ کو چھوڑ کر چند خزف ریز و یعنی ٹھیکریوں پر خوش ہوئے ہیں اور بچوں کی طرح جوز و مویز(اخروٹ و منقی) پر آرام کیا ہے اور نہایت بے قراری اور حیرانی سے اپنے بزرگوں کے طریق کو چھوڑ کر کبھی جہر سے تسلی حاصل کرتے ہیں اورکبھی سماع ورقص سے آرام ڈھونڈتے ہیں اور خلوت در انجمن حاصل نہ ہونے کے سبب سے چلے اور خلوت کو اختیار کیا ہے اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسی بدعتوں کو اس نسبت شریفہ کی متمم اورمکمل خیال کرتے ہیں اور اس بربادی کو عین آبادی گنتے ہیں ۔ حق تعالیٰ ان کو انصاف عطا کرے اور اس طریقہ کے بزرگواروں کے کمالات کی خوشبو ان کی جان کے دماغ میں پہنچائے۔ بِحُرْمَتِ النُّوْنِ وَالصَّادِ وَبِحُرْمَتِ النَّبِيِّ وَاٰلِهِ الْأَمْجَاد ِعَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ۔ 

اور چونکہ اس قسم کی بدعتیں اس ملک میں یہاں تک پھیلی ہوئی ہیں کہ بزرگواروں کے اصل طریق کو پوشیدہ کر دیا ہے اور وہاں کے ہر شریف و خسیس نےنئی اور جدید وضع اختیار کرلی ہے اور اصل اور قدیم طریقت کی طرف سے منہ پھیر لیا ہے اس لئے دل میں گزرا کہ تھوڑا سایہ ماجرا اس بلند بارگاہ کے خادموں کی خدمت میں ظاہر کرے اور اس وسیلہ سے اپنی درد دل کو نکالے۔ 

نہیں معلوم کہ حضرت مخدوم زادہ کی مجلس میں کونسا گروہ ہمنشین ہے اورمحفل کا مونس کون سا فرقہ ہے۔ 

خوابم بشد از دیدہ دریں فکر جگر سوز         کآغوش کہ شد منزل و آسائش خوابت

ترجمہ تمام رات اس غم سے مجھے کو نیند نہیں آئی کہ رات بھر  میری جان تم کس کی بغل میں سوئے رہے۔

میری جاں الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی پاک جناب کو ان آفات کے عموم سے بچائے اور آپ کی بلند با رگاہ کو اس ابتلا ء کے شمول سے محفوظ رکھے۔ 

میرے مخدوم و مکرم ! اس طریقہ علیہ میں ان لوگوں نے یہاں تک احداث و ابداع کو رواج دیا ہے۔ کہ اگر مخالف یہ بات کہیں کہ اس طریقت میں بدعت کا الزام اور سنت سے اجتناب ہے تو بجا ہے۔(ان بدعتوں میں سے ایک یہ ہے کہ) نماز تہجد کو پوری جمعیت یعنی جماعت سے ادا کرتے ہیں اور اس بدعت کو سنت تراویح کی طرح مسجد میں رواج و رونق بخشتے ہیں اور اس عمل کو نیک جانتے ہیں اور لوگوں کو اس پر ترغیب دیتے ہیں ۔ حالانکہ فقہاء نے اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو مشکور فرمائے ۔ نوافل کا جماعت سے ادا کرنا نہایت ہی مکروہ کہا ہے اور بعض فقہاء نےتداعی( لوگوں کو جماعت کے لیے بلانا اور انہیں جمع کرنا) کو جماعت نفل میں کراہت کی شرط قرار دیا ہے۔ انہوں نے بھی جماعت نفلی کا جواز مسجد کے کونے میں مقید کیا ہے اور تین آدمیوں سے زیادہ کی جماعت کو بالاتفاق مکروہ فرمایا ہے اور نیز نماز تہجد کی تیرہ رکعت اس طرح خیال کرتے ہیں کہ بارہ رکعت کھڑے ہوکر ادا کرتے ہیں اور دو رکعت بیٹھ کرتا کے ایک رکعت کا حکم پیدا کرے کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے ثواب سے آ دھا ہے۔ حالانکہ علم وعمل بھی سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام کے مخالف ہے۔ 

حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تیرہ رکعت ادا فرمائی ہیں ان میں وتر بھی شامل ہیں اور نماز تہجد کی رکعتوں کا فرد اور طاق ہونا رکعات وتر کے طاق ہونے سے پیدا ہوا ہوا ہے نہ کہ جیسا کہ ان بزر گواروں نے خیال کیا ہے ۔ 

اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم که دل آزرده شوی ورنہ سخن بسیار است 

ترجمہ: غم دل اس لیے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے جاناں . کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا۔

 تعجب کی بات ہے کہ بلاد ماوراء النہر میں جو علمائے حق کاماویٰ و مسکن ہے۔ اس قسم کی بدعتیں رواج پا گئی ہیں اور اس قسم کی مخترعات اور من گھڑت باتیں شائع ہوگئی ہیں۔ حالانکہ ہم فقیرانہی کی برکات سے علوم شرعیہ حاصل کرتے ہیں۔ وَاللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ الْمُلْهَمُ ‌الصَّوَابَ اور اللہ تعالیٰ ہی بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے۔ 

ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ وَاِيَّاكُمْ عَلىٰ جَادَةِ الشَّرِيْعَةِ الْمُصْطَفْوِيَّةِ عَلىٰ صَاحِبِهَا الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِيَّةُ وَ يَرْحَمُ ‌اللَّهُ ‌عَبْدًا قَالَ اٰمِیْنًا۔ الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو شریعت مصطفوی علی صاحبہا الصلوة والسلام کے سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے اور الله تعالیٰ اس بندے پررحم کرے جس نے آمین کہا ہے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ371ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں