سولہویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سولہویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السادس عشر فی العمل بالقرآن ‘‘ ہے۔

 منعقدہ11/ ذیعقدہ 545  بروزمنگل بوقت عشاء، بمقام : مدرسہ قادر یہ

دنیا کی لذت اس کی اہانت کرنے میں ہے:

آپ نے درس دینے سے پہلے کچھ گفتگوفرمائی ، پھر ارشاد فر مایا کہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: دنیا کی اہانت کرو، اللہ کی قسم ! دنیا کی لذت اس کی اہانت کرنے میں ہے ۔‘‘

قرآن وسنت پرعمل اللہ ورسول کی پہچان کا ذریعہ ہے:

 اے بیٹا! تیرا قرآن مجید پرعمل کرنا تجھے اس کے اتارنے والے کی پہچان کرائے گا، تیراسنت پرعمل کرنا تجھے رسول ﷺکی پہچان کرائے گا۔ رسول اللہ ﷺ اپنی ہمت اور قلب مبارک سے اللہ کے ولیوں کے دلوں کو گھیرے رہتے ہیں ۔ آپ  ﷺ ہی ان کے دلوں کو معطر اور خوشبودار بنانے والے ہیں ،  آپ  ﷺ ہی ان کے باطنوں کو صفائی اور آپ ہی ان کو زینت بخشنے والے ہیں ، آپ  ﷺ ان کے لئے قرب کا دروازہ کھلوانے والے ہیں ، آپ  ﷺ ہی ان کا بناؤ سنگھار کرنے والے ہیں ، آپ  ﷺ ہی باطنوں اور دلوں اور اللہ تعالی کے درمیان سفیر اور پیام بر ہیں، جب تو حضور  ﷺ کی طرف ایک قدم بڑھے گا ، تیری فرحت بڑھ جائے گی ، جسے یہ حال نصیب ہواس پرلازم ہے کہ آپ ﷺ کا شکرگزار ہو اور آپ  ﷺ کی تابعداری کرنا اس کے لئے ضروری ہے، اس کےسوا خوش ہونا خوش فہمی ہے ، ہوس ہے، دنیا میں جاہل خوش جبکہ عالم دنیا میں غم زدہ رہتا ہے، جاہل تقدیر سے جھگڑ تا ہے۔

مناظر ہ کرتا ہے ، جبکہ عالم تقدیر کی موافقت کرتا ہے، اور راضی برضار ہتا ہے۔

اے مسکین! تقدیرالہی سے جھگڑا اورفساد نہ کر ورنہ ہلاک ہو جائے گا، مقصود یہی ہے کہ تو افعال الہی پر راضی رہے،اور اپنے دل سے خلقت کو نکال دے، اور دل سے خلقت کے خالق سے مل جا، خالق سے دل اور باطن اور باطن الباطن سے ملاقات کر ،  اللہ تعالی ، اس کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں کی ہمیشہ تابع داری کرتے رہو، اگر تو یہ خدمت گزاری ہمیشہ کرسکتا ہے تو کرتا رہ ، اس میں تیرے لئے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔ اگر تو ساری دنیا کا مالک ہو جائے اور تیرا دل ان کے دلوں جیسا نہ ہوتو تو گویا ایک ذرے کا بھی مالک نہیں جو اللہ کے لئے اپنے دل کی اصلاح کرے، دنیا و آخرت اس کے ساتھ ہوئے ، وہ اللہ کے حکم سے عوام اور خواص پر حکومت کرتا ہے۔

اولیاءاللہ کے مقابل دنیا دار کی کیا حیثیت ہے:

تجھ پر افسوس تو اپنی قدرکو پہچان ، اولیاء اللہ کے مقابل تیری کیا حیثیت ہے، تیرا سارا مقصودتو کھانا پینا ، نکاح کرنا اوردنیا کو جمع کرنا اور پھر اس پرحرص کرتا ہے، تو دنیا کے کاموں میں بڑاسر گرم ہے جبکہ آخرت کے کاموں میں نا کارہ ہے، اپنے گوشت کو موٹا تازہ کر کے کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کا نوالہ بنا رہا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا لَهُ ‌مَلَكٌ ‌يُنَادِي ‌كُلَّ ‌يَومٍ:  لِدُوا لِلْمَوتِ وَابْنُوا لِلْخَرَابِ

” اللہ تعالی کا ایک فرشتہ ہے جو ہر روز صبح و شام آواز دیتا ہے:”اے اولاد آدم ! تم مرنے کے لئے پیدا ہوتے ہو ۔ ویرانی کے لئے عمارت بناتے ہو، اور دشمنوں کے لئے مال جمع کرتے ہو۔ ایمان والے کے ہر کام میں نیک نیتی ہوتی ہے، وہ دنیا میں کوئی کام حصول دنیا کے لیے نہیں کرتا ،۔دنیا میں آخرت کے لئے عمارت بنا تا ہے ۔ وہ مسجد یں ،پل ،مدر سے اور سرائیں بنا تا ہے، مسلمانوں کے رستوں کو درست کرتا ہے، ان کے علاوہ اگر وہ کچھ بنا تا ہے تو بیوی بچوں، بیواؤں اور محتاجوں اور ضرورتوں کے لئے ہے،  یہ سب وہ اس لئے کرتا ہے کہ اس کے بدلے میں اس کے لئے آخرت میں محل تیار ہوسکیں ، وہ یہ سب اپنی خواہش اور حرص اور نفس کے لئے نہیں کرتا۔ اولاد آدم کی حالت جب سدھر جائے تو اپنی تمام حالتوں میں اللہ کے ساتھ رہتا ہے، فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا مقام حاصل کرتا ہے۔ اس کا دل نبیوں اور رسولوں سے مل جا تا ہے ۔ جو کچھ انبیاء کرام لے کر آئے تھے، وہ ان کو اپنی زبان سے اپنے عمل سے اور ایمان ویقین کے ساتھ قبول کرتا ہے، اس لئے وہ دنیا وآخرت میں ان سے ملا ہوارہتا ہے۔ اللہ کی یاد میں رہنے والا ہمیشہ زندہ ہے، وہ ایک مقام کی زندگی سے دوسرے مقام کی زندگی حاصل کرتا ہے ۔ اس کے لئے موت ایک لمحے کی ہے ۔ ذکر الہی جب دل میں جگہ بنا لیتا ہے تو بندہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں لگا رہتا ہے، اگر چہ زبان سے ذکر نہ کرے، جو بندہ ہمیشہ ذکر الہی میں رہتا ہے تو اللہ کی موافقت اور اس کے کاموں سے راضی رہتا ہے – اگرگرمی کے موسم میں موافقت نہ کرے تو گرمی ستائے گی ،اگر سردی کے موسم میں موافقت نہ کرے تو سردی ستم ڈھائے گی ، دونوں موسموں میں موافقت اختیار کرنا ان کی تکلیف اورسختی کو دور کرتی ہے ، اسی طرح تمام بلاؤں مصیبتوں اور آفتوں میں موافقت الہی پریشانی اورتنگی ، تکلیف اور تنگ دلی اور بے چینی کو ان کے نزول کے وقت دور کر دیتی ہے۔  

اللہ والے ہر حال میں مغفرت ونجات کی امید رکھتے ہیں:

اولیاءاللہ کے معاملات کیسے عجیب اور ان کے احوال کیا ہی اچھے ہیں، اللہ کی طرف سے انہیں جو کچھ بھی پہنچتا ہے، وہ انہیں پسند ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے انہیں معرفت کی شراب پلا دی ہے، انہیں اپنے لطف و کرم کی گود میں سلاتا ہے، اپنے انس سے انہیں مانوس بنا تا ہے ۔ اللہ کے قرب میں رہنا انہیں محبوب ہے، ماسوا اللہ سے دور رہنا انہیں مرغوب ہے ۔ اس کے حضور میں مردے کی طرح پڑے رہتے ہیں، اللہ کی ہیبت ان پر حاوی ہو چکی ہے، وہ جب چاہتا ہے انہیں اٹھا کر کھڑا کر دیتا ہے، اور زندہ رہوشیار بنادیتا ہے ۔ ذات الہی کے سامنے وہ ایسے ہیں جیسے اصحاب کہف اپنے غار میں تھے ۔جن سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:

وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ”اور ہم ان کی دائیں اور بائیں کروٹیں بدلتے ہیں ۔ مخلوق میں وہ سب سے زیادہ عقل رکھتے ہیں، وہ اپنے رب سے ہر حال میں مغفرت اور نجات کی امید رکھتے ہیں ،اور یہی ان کی زندگی کا مقصود ہے۔

جو کچھ بھی تیرے پاس ہے سب مستعار ہے:

تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے عمل تو دوزخیوں جیسے ہیں اور جنت کی امید لگائے بیٹھے ہو،  جنت لا لچ کرنے کی جگہ نہیں ہے اور تو اس کے لئے لا لچ  کر رہا ہے،  جو چیز تجھے چند دن کے لئے عاریتا ملی ہے، اس پرغرور نہ کر، وہ چیز تجھ سے عنقریب  لے لی جائے گی تمہیں زندگی مستعار عنایت فرمائی تا کہ تو اس میں اللہ کی اطاعت کرے لیکن تم اسے اپنا سمجھ کر اس میں جو چاہتے ہوعمل کرتے ہو،جس طرح زندگی تیرے لئے مستعار ہے، اسی طرح عافیت تیرے لئے مستعار ہے، فنا اور امن اور عزت تیرے لئے مستعار ہیں، اور اللہ کی نعمتوں میں سے جو کچھ تیرے پاس ہے وہ سب مستعار ہے، تم ادھارلی ہوئی ان چیزوں میں حد سے نہ بڑھو کیونکہ تم سے ان سب کے بارے میں استفسار کیا جائے گا ، تمہیں جو بھی نعمتیں میسر ہیں، سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ ان کے ذریعے سے اللہ کی اطاعت پر مدد چاہو جن چیزوں کی طرف تمہارا دل کھنچتا ہے، اولیاء اللہ کے نزدیک اللہ کے قرب سے دور کر نے والی ہیں ۔ وہ دنیا و آخرت میں ذات الہی کے ساتھ سلامتی کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ۔

بعض اولیاء اللہ نے فرمایا:

وافق الحق عز وجل في الخلق ولا توافق الخلق في الخلق “خلقت کے معاملے میں اللہ کی موافقت کرو، اورحق تعالی کے معاملے میں خلقت کی موافقت نہ کرو۔ جوٹو ٹا سوٹوٹ گیا، جو جڑ گیا سو جڑ گیا، اللہ کی موافقت کرنا اس کے نیک بندوں سے سیکھو جو اس کے ہر کام میں موافقت کرنے والے ہیں ۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 114،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 74دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں