سونے سے قیمتی وقت (بائیسواں باب)

سونے سے قیمتی وقت کے عنوان سےبائیسویں باب میں  حکمت نمبر 209 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اوقات کے حقوق ضائع کرنے میں عمر بھی ضائع ہوتی ہے،جو کیمیا سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے۔
209) مَا فَاتَ مِنْ عُمُرِكَ لا عِوَضَ لَهُ ، وَمَا حَصَلَ لَكَ مِنْهُ لا قِيْمَةَ لَهُ .
تمہاری جو عمر فوت ہو گئی ، اس کا بدل کچھ نہیں ہے۔ اور تمہاری عمر میں سے جتنا تم کو حاصل ہوا۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ مومن کی زندگی ہی اس کا اصل سرمایہ ہے۔ اسی میں اس کا نفع اور نقصان ہے۔ لہذا جس نے اس کو مضبوطی سے پکڑا۔ (یعنی نیک اعمال میں صرف کیا ) وہ کامیاب ہونے والوں میں شامل ہوا۔ اور جس نے اس کو فضولیات اور برے کاموں میں ضائع کیا۔ وہ نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوا۔ لہذا زندگی کا جو حصہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے سوا دوسرے کاموں میں گزرا۔ وہ ضائع ہو گیا۔ اس کا بدل کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ جو وقت چلا گیا ، وہ اب کبھی نہیں لوٹے گا۔ اور زندگی کا جو حصہ تم کو حاصل ہو گیا، اس کے لئے کوئی ایسی قیمت نہیں ہے۔ جو اس کے برا بر ہو سکے۔ اس لئے کہ اگر تم اس حاصل شدہ زندگی کے حصے میں سے ایک گھنٹہ کے بدلے میں زمین کے برابر سونا خرید لو۔ تو بھی اس ایک گھنٹہ کے عوض یہ قیمت کم ہوگی۔ کیونکہ زندگی کا وہ ایک گھنٹہ ، جس میں تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو۔ تم اس کے عوض ایک بڑا ملک اور دائمی نعمت پاؤ گے۔ اگر ساری دنیا بیچ دی جائے۔ تو وہ اس دائمی نعمت کے ایک فی صد کے برابر بھی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس بنا پر سلف صالحین اوقات کی حفاظت بڑی سختی سے کرتے تھے۔ اور وقت کے غنیمت جاننے میں وہ اپنی ساری کوشش خرچ کر دیتے تھے ۔ وہ ہر وقت کوشش وتیاری ہی میں لگے رہتے تھے۔ اور وقت کی حفاظت کے لئے کل راحت و آرام ترک کر دیتے تھے۔
حدیث شریف میں حضرت رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے۔
لَا تَاتِی عَلَى الْعَبْدِ سَاعَةٌ لَا يَذْكُرُ اللَّهُ فِيهَا إِلَّا كَانَتْ عَلَيْهِ حَسْرَةًيَوْمَ الَقِيَامَةِ بندے پر جو گھڑی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر گزرتی ہے۔ وہ گھڑی قیامت کے دن اس کے لئے حسرت وافسوس ثابت ہوگی۔
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ہے ۔ بندے کی عمر کے باقی حصے کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ بندہ اسی باقی حصے میں عمر کا جو حصہ فوت ہو گیا ہے۔ اس کا تدارک کرتا ہے۔ اور جو عمر مر چکی ہے۔ اس کو زندہ کرتا ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ جو وقت فوت ہو جاتا ہے۔ وہ پھر واپس نہیں ملتا ہے اور وقت سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں ہے۔
اسی حقیقت کے بارے میں یہ شعر کہا گیا ہے۔
السَّبَاقَ السَّبَاقَ قَوْلاً وَفِعْلًا حَذْرِ النَّفْسَ حَسْرَةَ المُسْبُوقِ
قول و فعل میں آگے بڑھو، آگے بڑھو۔ گزرے ہوئے وقت کی حسرت سے اپنے کو بچاؤ۔
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
میں کچھ ایسے لوگوں سے ملا۔ جو اپنے انفاس اوقات کی حفاظت اور حرص،اس سے زیادہ کرتے تھے۔جتنی حفاظت اور حرص تم لوگ دینار اور درہم کی کرتے ہو۔ جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے دینار اور درہم کو کسی فائدہ کے بغیر خرچ نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ اپنا کوئی سانس عبادت کے بغیر ضائع نہیں کرتے تھے ۔
سید نا حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے ۔ جب آپ کھانا بنایا کیجئے تو اس کو تھوڑا سا پتلا کر دیا کیجئے۔ کیونکہ پتلے اور خشک کے درمیان پچاس تسبیح کا فرق ہے۔
حضرت ابو علی جرجانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ میں نے چالیس سال سے روٹی نہیں کھائی ہے۔ کیونکہ اس کے چبانے میں وقت ضائع ہوتا ہے۔ میں صرف ستو پانی میں گھول کر پی لیتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جاتا ہوں ۔ کیونکہ میں نے چبانے اور نگلنے کے درمیان ساٹھ تسبیح شمار کیا ہے۔
روایت ہے :۔ رات اور دن کے چوبیس گھنٹے ۔ قیامت کے دن چوبیس برابر خزانے کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔ لہذا جس شخص نے ان کو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آباد کیا ہے۔ وہ ان کو نعمتوں سے بھرے ہوئے خزانوں کی شکل میں پائے گا۔ اور جس نے ان کو ضائع کیا ہے۔ وہ ان کو خالی خزانوں کی شکل میں دیکھے گا ۔ پھر افسوس کرے گا۔ اور شرمندہ ہو گا۔
حدیث شریف میں حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے ۔
إِنَّ اهْلَ الْجَنَّةِ بَيْنَمَا هُمْ فِي نَعِيْمِهِمْ إِذَا سَطَعَ لَهُمْ نُورٌ مِنْ فَوْقِ أَضَاءَتْ مِنْهُ مَنَازِلُّهُمْ كَمَا تُضِيُّ الشَّمْسُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا ، فَيَنظُرُونَ إِلَى رِجَالٍ مِنْ فَوْقِهِمْ أَهْلِ عَلَيِّينَ يَرُو نهُمْ كَمَا يَرَى الْكَوَاكِبُ الدُّرَى فِي اُفُقِ السَّمَاءِ وَقَدْ فُضِلُوا عَلَيْهِمْ فِي الْأَنْوَارِ وَالْجَمَالِ وَالنَّعِيمِ كَمَا فُضِّلَ الْقَمَرُ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ فَيَنظُرُونَ إِلَيْهِمْ يَسِيرُونَ عَلَى نُجُبِ تَسْرَحُ بِهِمْ فِي الْهَوَاءِ يَزُورُونَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ، فَيُنَادِي هَؤُلَاءِ يَا إِخْوَانَنَا مَا انْصَفَتُمُونَا ، كُنَّا نُصَلِى كَمَا تُصَلُّونَ وَ نَصُومُ كَمَا تَصُومُونَ ، فَمَا هَذَا الَّذِى فقلتُم بِهِ عَلَيْنَا، فَإِذَا اليَدَاهُ مِنْ قَبْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ – إِنَّهُمْ كَانُوا يَجُوعُونَ حِيْنَ تشبعُونَ ، وَيَعْطِشُونَ حِينَ تَرُدُّونَ ، وَيَعُرُونَ حِينَ تُكْسَوْنَ ، وَيَذْكُرُونَ حِيْنَ تَنسَوْنَ ، وَيَكُونَ حِينَ تَضْحَكُونَ ، وَيَقُومُونَ حِينَ تَنَامُونَ ، وَيَخَافُونَ حِيْنَ تَأْمَنُونَ ، بِذَالِكَ فَضَلُوا عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ، فَذَالِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى : ( فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّااخْفِى لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْلَمُونَ)
اہل جنت ، جب کہ وہ اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے ۔ کہ اچانک ان کے سامنے ، ان کے اوپر سے ایک نور چمکے گا۔ اس سے ان کے مکانات اس طرح روشن ہو جائیں گے، جس طرح کہ سورج کے نکلنے سے دنیا والوں کے مکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے اوپر کی طرف دیکھیں گے ۔ تو ان کو اہل علین کے کچھ لوگ دکھائی دیں گے۔ وہ ان لوگوں کو ایسا روشن دیکھیں گے۔ جیسا کہ آسمان کے کنارہ پر روشن ستارہ دکھائی دیتا ہے۔ اور ان لوگوں کے انوار اور جمال اور نعمتوں میں اس قدر فضیلت (زیادتی ) ہوگی ۔ جس قدر چاند کی روشنی کی فضیلت سب ستاروں پر ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ لوگ ایسی سواریوں پر سوار ہیں۔ جو ان کو سوار کر کے
ہوا میں اڑ رہی ہیں۔ اس حال میں کہ وہ لوگ اللہ بزرگ و برتر کے دیدار سے مشرف ہیں۔ لہذا ہل جنت ، اہل علین سے پکار کر کہیں گے :۔ اے ہمارے بھائیو ! تم لوگوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ہم تمہاری ہی طرح نمازیں پڑھتے تھے ، اور تمہاری ہی طرح روزے رکھتے تھے۔ پھر وہ کیا شے ہے، جس کی بنا پر تم لوگوں کو ہمارے او پر اس طرح فضیلت عطا کی گئی ہے فورا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ جواب دیا جائے گا ۔ جس وقت تم لوگ آسودہ ہو کر کھاتے تھے ، اس وقت یہ لوگ بھوکے رہتے تھے ۔ اور جس وقت تم پیٹ بھر پانی پیتے تھے ، اس وقت یہ لوگ پیاسے رہتے تھے ۔ اور جس وقت تم لوگ کپڑے پہنتے تھے۔ اس وقت یہ لوگ ننگے رہتے تھے۔ اور جس وقت تم لوگ غافل رہتے تھے ، اس وقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے تھے ۔ اور جس وقت تم لوگ ہنستے تھے ، اس وقت یہ لوگ روتے تھے۔ اور جس وقت تم لوگ سوتے تھے ، اس وقت یہ لوگ نوافل میں کھڑے رہتے تھے اور جس وقت تم لوگ بے خوف اور پرسکون رہتے تھے ، اس وقت یہ لوگ خوف سے بے چین رہتے تھے۔ اسی وجہ سے آج ان لوگوں کو تم لوگوں پر یہ فضیلت عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مفہوم ہے:- فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْلَمُونَ کسی شخص کو نہیں معلوم ہے۔ جو کچھ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے والی چیزوں میں سے ، ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ یا ان کے ان اعمال کا بدلہ ہے، جو وہ دنیا میں کرتے تھے ۔
اور ان چیزوں میں سے، جو اوقات کی حفاظت اور مسلسل عبادت کرنے پر مدد کرتی ہیں۔ماسوا اللہ کوترک کرنا ، اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی ہے۔ کیونکہ جو شخص کسی شے سے محبت کرتا ہے۔ وہ اس کا ذکر اکثر کرتا رہتا ہے۔ اور اس کی خدمت میں لگا رہتا ہے اور اس کے سامنے سرنگوں رہتا ہے۔اور اس کا حقیقی غلام بن جاتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں