سینتالیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سینتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السابع والاربعون فی بغض الخلق عند الضرر‘‘ ہے۔

منعقده 21  شعبان  545 بروز جمعہ بمقام مدرسہ قادر یہ

 منعقدہ یکم شعبان 545 صبح منگل بمقام مدرسہ قادریہ  

علم سیکھ پھر اخلاص سے عمل کر :

علم سیکھ، پھرا خلاص سے عمل کر اپنے آپ  سے اور خلقت سے خالی ہو جاؤ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي ‌خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ و کہہ دو کہ اللہ ہی ہے، پھر انہیں ان کی بے ہودہ سوچ میں لگے رہنے دو۔

 تم کہو جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:

فَإِنَّهُمْ ‌عَدُوٌّ ‌لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ رب العالمین کے سوا یہ سب میرے دشمن ہیں ۔‘‘

جب تک نفع و نقصان میں تیری نظر خلقت پر پڑتی رہے تو انہیں چھوڑ دے اور انہیں دشمن سمجھ ۔ جب تیری توحید درست ہو اور شرک کی نجاست تیرے دل سے نکل جائے تو خلقت کی طرف لوٹ آ اوران سے میل جول کر اور اپنے علم سے انہیں نفع پہنچا، انہیں اپنے رب کا دروازہ بتا، خاص لوگوں کی موت صرف مخلوق سے موت ہے، اپنے ارادے اور اختیار سے موت ہے ۔جسکے لئے یہ موت صحیح ہو، اسے اپنے رب کے ساتھ حیات ابدی مل گئی ، اس کی موت ایک لمحہ کا سکتہ، ایک لمحے کی غشی اور ایک لمحے کے لئے غائب ہونا ہے، ذراسی دیر سونا ہے پھر ہمیشہ کی بیداری ہے، اگر تو اپنی موت چاہتا ہے تو معرفت وقرب الہی کی شراب پی کر آستانہ الہی پرسور ہو، تا کہ وہ تجھے اپنی رحمت اور احسان کے ہاتھ سے تھام لے ، وہ تجھے ہمیشہ کی زندگی عطافرمادے ۔ ایک کھانانفس کے لئے ہے، – ایک کھانا دل کے لئے ہے۔ – ایک کھانا باطن کے لئے ہے۔ اس لئے رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: إنی أبيـت عـنـد ربـي فیـطـعمني ويسقينى يعنى يطعم سرى معاني يطعم روحي الروحانية) يغذينى بغذاء یخصنی

”میں اپنے رب کے پاس رہتا ہوں ، وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (یعنی میرے باطن کو معانی کی غذا اور میری روح کو روحانیت کی غذا کھلاتا ہے۔ مجھے غذا عطافرماتا ہے جو میرے ہی لئے خاص ہے۔“ رسول اکرم  ﷺ پہلے قلب اور قالب کے ساتھ تشریف لے گئے ،ترقی ومعراج حاصل کی ۔ بعد میں قالب کو روک لیا، ایسی حالت میں آپ لوگوں میں بھی موجو در ہے، قلب و باطن سے عروج و معراج فرماتے رہتے تھے،  یہی حال آپ  ﷺ کے ان حقیقی وارثوں کا ہے جنہوں نے علم وعمل اور اخلاص کو جمع کیا اور خلقت کو تعلیم وتلقین دیتے رہے۔

 علم کاعمل کے بغیر ، اورعمل کا اخلاص کے بغیر کچھ اعتبارنہیں:

اے لوگو! اولیاء اللہ کا پس خوردہ کھاؤ ، ان کے برتنوں میں جو باقی ہے، پیو، اے علم کے دعوے دار و،علم کاعمل کے  بغیر اور عمل کا اخلاص کے بغیر کچھ اعتبار نہیں، عمل کے بغیر علم اور اخلاص کے بغیر عمل ، روح کے بغیر بدن کی طرح ہے ۔ تیرے اخلاص کی یہ علامت ہے کہ تو خلقت کی تعریف اور مذمت و برائی کی طرف توجہ نہ کرے، ان کے مال واسباب کو حرص ولالچ کی نظر سے نہ دیکھے،  بلکہ ربوبیت کا حق ادا کرے، تیراعمل: نعمت کے لئے نہیں نعمت دینے والے کے لئے ہو۔ – ملک کے لئے نہیں، مالک کے لئے ہو، باطل کے لئے نہیں حق کے لئے ہو۔

خلقت کے پاس جو کچھ ہے یہ محض   چھلکا ہے، اور خالق کے پاس ہو کچھ ہے وہ سراپا مغز ہے،  جب اللہ کے بارے میں تیری سچائی ، اس کے لئے تیرا اخلاص اور اس کے سامنے تیری حضوری صحیح ہو جائے گی ،جب وہ تجھے اس مغز کے روغن سے کھانا کھلائے گا اور وہ تجھے مغز در مغز ، باطن در باطن اور حقیقت در حقیقت سے مطلع کرے گا ، اس وقت تو ہراک شےسے برہنہ ہو جائے گا۔یہ  برہنگی دل کے لئے ہے، بدن کے لئے نہیں، یہ قلب کے لئے ہے، قالب کے لئے نہیں،  اعراض باطن کا ہوتا ہے ظاہر کا نہیں، باطنوں پر نظر ہے، ہدنوں پرنہیں ، دیکھنا ذات الہی کا ہے،خلقت کا نہیں ،

دارو مدار اس پر ہے کہ تو خلقت کے ساتھ نہیں خالق کے ساتھ ہو تمہاری نظر میں دنیا اور آخرت کی نفی ہو جائے ، نہ دنیار ہے نہ آ خرت ، سوائے اللہ کی ذات کے ۔ اللہ کی مخلوق میں سے اس کے مخصوص محب ہیں جوکلمہ حق کی بلندی کے لئے کافروں کی تلواروں سے شہید ہوتے ہیں، بدنی تکلیفیں اٹھا کر کتنی خوشی محسوس کرتے ہیں ،لذتیں پاتے ہیں، اور جومحبت کی تلوار سے شہید ہوتے ہیں ان کا حال کیا ہوگا۔ گناہوں کی وجہ سے بدنوں اور جسموں پر بر بادی مسلط کر دی جاتی ہے، کیا تو نے ویران گھروں کو نہیں دیکھا جنہیں ان کے رہنے والوں کے گناہ خراب و برباد کر گئے ، کیونکہ گناہ شہروں کو ویران اور بندوں کو ہلاک کر دیتے ہیں، ۔ تیرا بھی ایسا ہی حال ہے ، تیرابدن ایک شہر ہے، تیرے گناہ نا فرمانی کرنے سے اس میں خرابی آ جائے گی ،

 جب تو گناہ کرے تو تیرا جسم خراب ہوگا ،  پھر تیرے دین کا جسم بر باد ہوگا ،تو اندھا، بہرا اورا پاہچ ہوگا ،

تجھے محتاجی آئے گی ، جو تیرے مال کے گھر کو ویران و برباد کر دے گی وہ تجھے تیرے دوستوں اور دشمنوں کی طرف لے جائے گی اور در بدر پھرائے گی ۔

اے منافق : افسوس ہے تجھ پر اللہ کودھوکہ نہ دے ،اس کے ساتھ مکر وفریب نہ کر عمل کر کےیہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ کے لئے ہے جبکہ مخلوق کے لئے ہے، ۔ انہیں دکھانے کے لئے عمل کرتا ہے، ان سے نفاق کر کے خوشامد و چاپلوی کرتا ہے ۔ اور اپنے رب کو فراموش کر دیتا ہے۔ تو عنقریب دنیا سے مفلس ہو کر نکلے گا، اے باطن کے مریض سوچ اور غور کر ! اس مرض کا علاج معالجہ کر، اس کی دوا تجھے اللہ کے نیک بندوں سے ہی مل سکے گی ، ان سے دوا لے کر استعمال کر ، اس سے تجھے دائمی عافیت اور ہمیشہ کی تندرستی حاصل ہو گی ، تیری حقیقت اور قلب اور باطن کا علاج ہو جائے گا۔ اللہ کے ساتھ تیری خلوت ہو جائے گی ، تیرے دل کی دونوں آنکھیں کھل جائیں گی تو اپنے رب کو دیکھ سکے گا ۔ تو اللہ کے ان محبوب بندوں میں سے ہو جائے گا جو اس کے دروازے پر کھڑے ہیں ، اللہ کے سوا غیر کونہیں دیکھتے ہیں ۔ جس دل میں بدعت ہو وہ ذات الہی کا دیدار کیسے کر سکتا ہے۔

شریعت پر چلو ، نئی راہ نہ نکالو :

اے لوگو! شریعت پر چلو نئی راہ نہ نکالو ، موافقت کرو مخالفت نہ کرو  فرماں برداری کرو ، نافرمانی نہ کرو ۔

مخلص رہو، مشرک نہ بنو، اللہ کی توحید قائم کرو، اس کا دروازہ نہ چھوڑو، اس سے مانگو، غیر سے سوال نہ کرو، اس سے مد دچا ہو، اس کے غیر سے مددنہ مانگو، اللہ پرتوکل کرو، غیر کا سہارا نہ ڈھونڈ و، تم اے خاص لوگو ! اپنے نفسوں کو اللہ کے سپرد کر دو تمہارے لئے اور تمہارے غیروں کے لئے اس کی جو تد بیر ہے، اس پر راضی ہو جاؤ۔ اس سے سوال کرنے کی بجائے اس کے ذکر میں مشغول ہوجاؤ ۔ کیا تم نے وہ ارشاد باری نہیں سنا

جو اس نے اپنی کسی کتاب میں فرمایا: مَنْ ‌شَغَلَهُ ‌ذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا ‌أُعْطِي ‌السَّائِلِينَ و جس شخص کو میرے ذکر نے سوال کرنے سے روک رکھا ، میں سوال کرنے والوں سے کہیں زیادہ اسے عنایت کروں گا ۔“

اے ذکر الہی میں مشغول ہونے والے، اور اپنے دل کو اس کے لئے منکسر بنا لینے والے کیا تو اس کی عطا سے راضی نہیں ہے کہ وہ تیرا جلیس وہم نشین ہو جائے ، ارشاد باری تعالی ہے: – أَنَا ‌جَلِيسُ ‌مَنْ ذَكَرَنِي’’جو مجھے یاد کرے میں اس کا ہم نشین ہوں ۔‘‘ ‌أَنَا ‌عِنْدَ ‌الْمُنْكَسِرَةِ ‌قُلُوبُهُمْ ‌مِنْ ‌أَجْلِي میں ان کے پاس ہوں جن کے دل میرے لئے شکستہ ہیں ۔

 اللہ کے قریب ہونا ہے تو دل کو اس کے ذکر میں لگا: –

اسے بیٹا! اللہ کے قریب ہونا ہے تو دل کواس کے ذکر میں لگا ، تیرادل تجھے اللہ کے قرب کے گھر میں داخل کر دے گا اور اس کا مہمان بنا دے گا، مہمان کی آؤ بھگت کی جاتی ہے، خاص طور سے شاہی مہمان کی ، ملک وسلطنت کے دھندوں میں پڑ کر تو کب تک اس بادشاہ سے غافل رہے گا، جلد ہی اپنی سلطنت وحکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ،عنقریب آخرت میں حاضر ہوگا اور یہ سوچے گا کہ دنیا تو کبھی تھی ہی نہیں ، آخرت ہی سدا سے ہے۔

مجھے خالی ہاتھ دیکھ کر نہ بھاگ، میں تجھ سے اور تمام مشرق ومغرب والوں سے بے پرواہ ہوں،  میں تجھ سے تیرے لئے ہی نفع چاہتا ہوں تمہاری رسیاں بٹتا رہتا ہوں، تو بدعت نہ کر اور اللہ کے دین میں کوئی ایسی بات نہ نکال جس کی کوئی اصل نہ ہو، دو عادل گواہوں کتاب اور سنت کی پیروی کرتا رہ ، یہ دونوں تجھے اللہ تک پہنچا دیں گے، اگر تو بدعتی ہو گیا تو تیری عقل اور خواہش تیری گواہی دیں گے اوتجھے ضرور دوزخ میں پہنچائیں گے ۔ اور تجھے ہامان اور فرعون اور ان کے لشکر سے ملا دیں گے، (نعوذ باللہ!)

تو تقدیر الہی کے ساتھ حجت کرتا ہے جو قبول نہ کی جائے گی ، علم وتدریس اور اخلاص کی درس گاہ میں داخل ہو جا، پہلےعلم سکھ، پھرعمل کر ، پھر مخلص بن جا، تجھ سے کچھ نہیں ہوتا ،جبکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے ۔ دنیا طلب کرنے کےبجائے علم وعمل کی طلب میں تمام تر کوشش ہونی چاہئے ، عنقریب تجھ سے کوشش بھی منقطع ہو جائے گی۔ایسے کام میں کوشش کر جس کا تجھے فائدہ ہو، اس اثناء میں ایک شخص وجد میں آ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوا، اور عرض کرنے لگا: ’’اس دلہن کا پیش خیمہ کیا تھا جو اس کا ایسا نصیبہ ہو گیا۔‘‘ آپ نے ارشادفرمایا: ’’ شب وصال سے پہلے بادشاہ و ما لک کی ایک نگہ لطف !‘‘ ‘

دنیا سے آگے بڑھ کر رضائے الہی تک پہنچ جا

اےبیٹا! دنیا سے آگے بڑھ کر رضائے الہی تک پہنچ جا تا کہ وہ تجھ سے راضی ہو جائے ، کیونکہ وہ راضی ہو کرتجھے اپنامحبوب بنالے گا، تو اپنے قلب سے رزق کاغم نکال دے۔ رزق بغیر مشقت اور تکلیف اٹھانے کے اللہ کی طرف سے تیرے پاس آ جائے گا، دل سے ہر طرح کے غم نکال دے ، سب غموں کا ایک غم بنالے، وہ ہے اللہ کاغم! جب تو ایسا کرے گاوہ تیرے سب غموں کو کفایت کرے گا، تیراغم وہ ہے جو تجھے غم میں ڈالے،  اگر تیراغم دنیا کے لئے ہے تو دنیا کا ساتھی ہے، – اگر تیراغم آخرت کے لئے ہے تو آخرت کا ساتھی ہے، ۔ اگر تیراغم مخلوق کے لئے ہے تو انہی کے ساتھ ہے، – اگر تیراغم حق تعالی کے لئے ہے تو دنیاوآخرت میں اس کے ساتھ ہے۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 317،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 171دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں