اس بیان میں کہ صاحبِ رَےْیعنی سیراب ہوا ہوا بے حاصل ہے اور اس بیان میں کہ مشائخ کی روحانیت کے وسیلہ اور ان کی امداد پر ہرگز مغرور نہ ہوں کیونکہ مشائخ کی صورتیں حقیقت میں شیخ مقتداء کے لطائف ہیں۔ ملا صادق کابلی کی طرف لکھا ہے۔
دو خط پے در پے پہنچے۔ پہلا مکتوب سیرابی اور حصول سے بھرا ہوا تھا اور دوسر تشنگی اور بےحاصلی سے۔ اللہ کی حمد ہے کہ خاتمہ پر اعتبار ہے۔ صاحب رے(سیراب ہونے کا مدعی) بے حاصل ہے اور جس نے اپنے آپ کو بے حاصل جانا وہ واصل ہے۔ کئی دفعہ آپ کو لکھا گیا ہے کہ مشائخ کی روحانیت کے وسیلے اور ان کی امداد پر ہرگز مغرور نہ ہوں کیونکہ مشائخ کی وہ صورتیں حقیقت میں شیخ مقتداء کے لطائف ہیں جو ان صورتوں میں ظاہر ہوئے ہیں۔ توجہ کے قبلہ کے لئے ایک ہونا شرط ہے۔ توجہ کو پراگندہ کرنا خسارے کا موجب ہے۔ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْهَا ( اس سےاللہ کی پناہ)۔
دوسرا یہ کہ کئی بار اور بڑی تاکید سے آپ کو کہا ہے کہ کام کا سر رشتہ مختصر پکڑیں تا کہ جلدی سرانجام ہوا ۔ امر ضروری کو چھوڑ کر بے ہود ه امر میں مشغول ہونا عقل دور اندیش سے بہت بعید ہے لیکن آپ اپنی رائے کے معتقد ہیں ۔ کسی کی بات آپ میں بہت کم اثر کرتی ہے۔ آپ جانیں یا نہ جا نیں ہمارا کام کہہ دینا ہے۔ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُقاصد کا کام کہہ دینا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ337ناشر ادارہ مجددیہ کراچی