عَنْ أَبِی نُصَیْرَۃَ عَنْ مَوْلًی لِأَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَصَرَّ مَنْ اسْتَغْفَرَ وَإِنْ عَادَ فِی الْیَوْمِ سَبْعِینَ مَرَّۃٍ(سنن ابوداؤد:کتاب الصلوۃ باب الاستغفار)
حضرت ابی نصیرہ رضی اﷲ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے آزاد کردہ غلام (حضرت ابوجابر رضی اﷲ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اِستَغفَار کیا (یعنی دل سے ندامت کے ساتھ گناہ سے توبہ کی) اس نے گناہ پر اِصرار نہیں کیا اگرچہ دن بھر میں اس سے ستر مرتبہ گناہ سرزرد ہو جائے۔
لفظ ’’اصر‘‘ جس کا مادہ’’ صر‘‘ ہے جومضبوط باندھنا، مضبوط ہوجاناکے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کسی کے ساتھ ایسا وابستہ ہوجانا کہ اس سے جد انہ ہو سکے ۔اصطلاح میں خطا پر جم جانے کو اِصرار کہتے ہیں۔
علامہ راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں
’’اِصرار کا معنی ہے گناہ کو پختہ کرنا اور گناہ کو ترک نہ کرنا اور اس کے ترک سے باز رہنا ۔اصل میں یہ لفظ صر سے بنا ہے جس کے معنی ہیں باندھنا صرہ اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں درہم وغیرہ رکھ کر گرہ لگا دی جاتی ہے‘‘ (المفردات)
جہاں تک صغیرہ گناہوں کا تعلق ہے تو وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام زندگی کے لئے ان سے اجتناب بھی دشوار ہے چنانچہ مسلک مختار کے مطابق صغیرہ گناہ سے تقویٰ میں خلل نہیں پڑتا بشرطیکہ گناہ صغیرہ پر اِصرار و دوام نہ ہو کیونکہ صغیرہ گناہ پر اِصرار و دوام گناہ کبیرہ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔گناہ پر اِصرار کا مطلب یہ ہے کہ گناہ پر دوام کرنا یعنی باربار اس گناہ کو کرنا، یوں تو خود گناہ کرنا کوئی کم بری بات نہیں ہے چہ جائیکہ اس پر اِصرار کرنا تو یہ تو بہت ہی برا ہے کیونکہ صغیر گناہ پر اِصرار کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر پہنچا دیتا ہے اور کبیرہ گناہ پر اِصرار کفر کی حد تک لے جاتا ہے لہٰذا ہر مومن ومسلمان پر واجب ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں اور حتی المقدور صغیرہ گناہوں سے اجتناب بھی کرے اور جانے کہ اگرچہ گناہ ایمان سے خارج نہیں کر دیتے لیکن اس بات کا خوف ہے کہ گناہ کی زندگی رفتہ رفتہ انجام کار کفر اور دوزخ کی حد تک پہنچا دے۔
اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی گناہ پر شرمندہ ہوتا ہے اور اس سے استغفار کرتا ہے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ تو وہ حد اِصرار سے خارج ہوتا ہے چاہے اس سے اس گناہ کا ارتکاب کتنی ہی مرتبہ کیوں نہ ہو کیونکہ گناہ پر ارتکاب کرنے والا تو اسی کو کہیں گے جو باربار گناہ کرے مگر نہ تو وہ اس گناہ سے شرمندہ ونادم ہو اور نہ استغفار کرے۔یہ بات جان لینی چاہئے کہ گناہ کبیرہ کا صدور ایمان سے خارج نہیں کرتا لیکن فاسق وعاصی کر دیتا ہے۔ گناہ صغیرہ پر اڑ جانا اس کو گناہ کبیرہ بنا دیتا ہے۔قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیْسَتْ کَبِیرَۃٌ بِکَبِیرَۃٍ مَعَ الِاسْتِغْفَارِ، وَلَا صَغِیرَۃٌ بِصَغِیرَۃٍ مَعَ الْإِصْرَارِ(الترغیب فی فضائل الأعمال وثواب ذلک)
رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے کہ کوئی بھی گناہ کبیرہ کبیرہ نہیں رہتاجب توبہ و استغفار کر لی جائے اور کوئی گناہ صغیرہ صغیرہ نہیں رہتا جب اس پر اِصرار کیا جائے۔
گناہ صغیرہ پر توبہ نہ کرنا اس گناہ کو معمولی سمجھنا ہے اور اسے معمولی سمجھنا ہی کبیرہ گناہ ہے ۔
حضرت قتادہ ؓفرماتے ہیں ۔
’’تم لوگ گناہوں پر اِصرار کرنے سے باز رہو ،کیونکہ ماضی میں گناہوں پر اِصرار کرنے والے ہلاک ہو گئے ان کو خدا کا خوف حرام کے ارتکاب سے نہیں روکتا تھا ،اور وہ گناہ کے بعد توبہ نہیں کرتے تھے ،حتیٰ کہ انہیں اسی گناہ پر موت آجاتی جب کہ وہ اس پر قائم ودائم رہتے ہیں‘‘(تفسیر جامع البیان )
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کُلُّ ذَنْبٍ أَصَرَّ عَلَیْہِ الْعَبْدُ کَبِیرٌ، وَلَیْسَ بِکَبِیرٍ مَا تَابَ مِنْہُ الْعَبْدُ (کتاب التوبۃ ابن ابی الدنیا)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھما نے فرمایا’’ہر گناہ جس پرایک آدمی اِصرار کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ بن جاتا ہے اور جس گناہ سے توبہ کر لے وہ بڑا گناہ نہیں رہتا‘‘۔
’’حضرت حسن بصریؒ سے روایت نقل کی ہے إِتْیَانُ الذَّنْبِ عَمْدًا إصرار حَتَّی یَتُوبَ( الدرالمنثور)
جان بوجھ کر گناہ کرنا یہ بھی اِصرار ہے یہاں تک کہ وہ توبہ کرے‘‘
امام بیہقیؒ نے حضرت اوزاعی ؒسے روایت کی الْإِصْرَارُ أَنْ یَعْمَلَ الرَّجُلُ الذَّنْبَ فَیَحْتَقِرُہُ(شعب الایمان)
کہ اِصرار یہ ہے کہ ایک آدمی گناہ کرے اور اسے حقیر جانے۔
حضرت ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے’’وَیْلٌ لِأَقْمَاعِ الْقَوْلِ وَیْلٌ لِلْمُصِرِّینَ الَّذِینَ یُصِرُّونَ عَلَی مَا فَعَلُوا وَہُمْ یَعْلَمُونَ(شعب الایمان)
ان کانوں کیلئے ہلاکت ہے جو ایک طرف سے سنتے ہیں اور دوسری طرف سے نکال دیتے ہیں اور ہلاکت ہے ان اِصرار کرنے والوں کیلئے جو اپنے اعمال پر اِصرار کرتے ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں ‘‘
کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَخْطُبُ فَیقُولُ: أَیُّہَا النَّاسُ مَنْ أَلَمَّ بِذَنْبٍ فَلْیسْتَغْفِرِ اﷲَ وَلْیَتُبْ، فَإِنْ عَادَ فَلْیسْتَغْفِرِ اﷲَ وَلْیَتُبْ، فَإِنْ عَادَ فَلْیسْتَغْفِرِ اﷲَ وَلْیَتُبْ، فَإِنَّمَا ہِیَ خَطَایَا مُطَوَّقَۃٌ فِی أَعْنَاقِ الرِّجَالِ، وَإِنَّ الْہَلَاکَ کُلَّ الْہَلَاکِ الْإِصْرَارُ عَلَیْہَا(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء )
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اﷲ عنہ نے دوران خطاب فرمایا : اے لوگوجب کوئی گناہ میں مبتلا ہو تو توبہ و استغفارکرو پھر اگر دوبارہ گناہ کرو تو پھر توبہ استغفار کرو اس کے بعد سرزد ہو تو پھر توبہ استغفارکرو کیونکہ یہ وہ خطائیں ہیں جو بندے کی گردن میں طوق کی طرح لٹکتی ہیں کیونکہ ہر ہلاک ہونے والا گناہ پر اِصرار کی وجہ سے ہلاک ہوتا ہے۔
استغفار تو زبان سے متعلق ہے کہ بندہ اپنی زبان کے ذریعہ خدا سے بخشش و مغفرت مانگتا ہے جب کہ توبہ کا تعلق دل سے ہے کیونکہ کسی گناہ پر ندامت و شرمندگی اور پھر خدا کی طرف رجوع اور آئندہ اس گناہ میں ملوث نہ ہونے کا عہد دل ہی سے ہوتا ہے۔ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ؒسے پوچھا گیا کہ’’توبہ‘‘کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ گناہ کو فراموش کر دینا یعنی توبہ کرنے کے بعد گناہ کی لذت کا احساس بھی دل سے اس طرح ختم ہو جائے گویا وہ جانتا ہی نہیں کہ گناہ کیا ہوتا ہے۔
اورحضرت سہیل تستریؒ سے پوچھا گیا کہ حضرت! توبہ کا کیا مفہوم ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تم گناہوں کو فراموش نہ کرو یعنی گناہ کو بھول مت جاؤ تاکہ عذاب الٰہی کے خوف سے آئندہ کسی گناہ کی جرأت نہ ہو۔
اﷲ تعالیٰ کے اس حکم آ یت (وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) اور تم سب توبہ کرو اﷲ کے حضور ایمان والو تاکہ تم فلاح پا سکو۔ کے مطابق استغفار یعنی طلب بخشش ومغفرت اور توبہ کرنا ہر بندہ پر واجب ہے کیونکہ کوئی بندہ بھی اپنے حال و مرتبہ کے گناہ یا بھول چوک سے خالی نہیں ہے لہٰذا ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے ۔ طلب بخشش ومغفرت کرے آ ئندہ تمام گناہوں سے بچتا رہے اور صبح و شام توبہ و استغفار کو اپنا معمول بنالے تا کہ تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کا کفارہ ہوتا رہے خواہ وہ گناہ قصدا کئے ہوں یا خطاء و سہوا سرزد ہوئے ہوں اور گناہوں کی نحوست کی وجہ سے فرمانبرداری کی توفیق سے محروم نہ رہے نیز گناہوں پر اِصرار کی ظلمت دل کو پوری طرح گھیر کر خدا نخواستہ کفر و دوزخ تک نہ پہنچا دے۔
توبہ کے صحیح اور قبول ہونے کے لئے چار باتیں ضروری ہیں اور شرط کے درجہ میں ہیں : ایک تو یہ کہ محض خدا کے عذاب کے خوف سے اور اس کے حکم کی تعظیم کے پیش نظر ہی توبہ کی جائے، درمیان میں توبہ کی کوئی اور غرض نہ ہو مثلاً لوگوں کی تعریف و مدح کا حصول اور ضعف و فقر کی وجہ، توبہ کی غرض میں داخل نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ گزشتہ گناہوں پر واقعی شرمندگی و ندامت ہو۔ تیسرے یہ کہ آئندہ ہر ظاہری وباطنی گناہ سے اجتناب کرے۔ اور چوتھے یہ کہ پختہ عہد اور عزم بالجزم کرے کہ آئندہ ہرگز کوئی گناہ نہیں کروں گا۔
ایک مومن مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے توبہ کرنے میں بالکل سستی اور تاخیر نہ کرے نیز نفس کے مکر اور شیطان کے وسوسہ میں مبتلا ہو کر یہ نہ سوچے کہ میں توبہ پر قائم تو رہ سکوں گا نہیں اس لئے توبہ کیسے کروں کیونکہ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اس لئے اگر بتقاضائے بشریت توبہ کرنے کے بعد پھر گناہ سرزد ہو جائے تو پھر توبہ کرے چاہے دن میں کئی مرتبہ ایسا ہو بشرطیکہ توبہ کے وقت اس کے دل میں یہ خیال نہ ہو کہ میں پھر گناہ بھی کروں گا اور توبہ بھی کر لوں گا بلکہ توبہ کرتے وقت یہی احساس رہے کہ شاید پھر گناہ کرنے سے پہلے مر جاؤں اور یہ توبہ میری آخری توبہ ثابت ہو۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ عائشہ! تم اپنے آپ کو ان گناہوں سے بھی دور رکھو جن کو بہت معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان گناہوں کے لئے اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایک مطالبہ کرنے والا بھی ہے۔ (ابن ماجہ ، بیہقی)
’’ مطالبہ کرنے والا بھی ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ایسے گناہوں پر ایک طرح کا عذاب مقرر ہے جو ان گناہوں کے مرتکبین کو اپنی گرفت میں لیتا ہے پس گویا خود وہ عذاب اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے حوالے کئے جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اﷲ کے مطالبہ کو رد نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے لفظ ” طالبا ” میں تنوین اظہار تعظیم کے لئے ہے اور جملے کے اعتبار سے طالبا عظیما کے مفہوم میں ہے لہٰذا یہ بات کسی کے لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اس امر سے غافل رہے جیسا کہ اکثر لوگ ایسے ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو کہ جو صغیرہ گناہ کے حکم میں ہوتے ہیں، بہت سہل جانتے ہیں اور ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ تو توبہ واستغفار کے ذریعے ان گناہوں کا تدارک کرتے ہیں اور نہ ان کی وجہ سے کسی خوف و ڈر میں مبتلا ہوتے ہیں نیز وہ اس بات سے بھی غافل رہتے ہیں کہ کسی چھوٹے چھوٹے سے گناہ پر اِصرار (یعنی اس کو باربار کرنا اور اس سے اجتناب نہ کرنا صغیرہ گناہ نہیں رہتا بلکہ گناہ کبیرہ کے حکم میں آ جاتا ہے اور ویسے بھی ہر گناہ صغیرہ اﷲ کی عظمت وکبریائی کی نسبت سے کبیرہ ہی ہے جس کا تھوڑا سا حصہ بھی بہت بڑا بن جاتا ہے، اس لئے اﷲ تعالیٰ کبھی کبیرہ گناہ کو تو معاف کر دیتا ہے اور صغیرہ گناہ پر عذاب دیتا ہے جیسا کہ اس کے ارشاد آ یت (وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ یَشَاء ُ ) سے مفہوم نکلتا ہوتا ہے ۔ جہاں تک قرآن کی اس آیت کریمہ کا تعلق ہے ا ٓیت (إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُم) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے صغیرہ گناہوں کو تمہاری ان عبادتوں کے ذریعے دھو ڈالیں گے جو گناہ کو مٹا دیتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ سرے سے گناہ سے اجتناب کرو خواہ وہ صغیرہ ہو یا گناہ کبیرہ ہو ۔ گویا اس آیت میں شرط کا تعلق محض کبیرہ گناہوں سے بچنے سے نہیں ہے جیسا کہ معتزلہ نے گمان کیا ہے(وہ صغیرہ و کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں) بلکہ اس شرط کا تعلق مطلق گناہ سے ہے۔
ایک اور روایت میں کہ جس کو احمد اور طبرانی نے نقل کیا ہے یہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو چھوٹے گناہوں سے بھی بچاؤ کیونکہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو کسی کھائی میں اترے اور وہاں انہوں نے ایک ایک لکڑی ایندھن جمع کیا اور پھر اپنی روٹی پکائی اسی طرح صغیرہ گناہوں کا مرتکب چھوٹے چھوٹے گناہ کر کے اتنے وبال جمع کر لیتا ہے کہ آخر اس کے گناہوں کی ناؤ بھر جاتی ہے اور وہ غرق ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اﷲ تعالیٰ صغیرہ گناہ کرنے والے کو پکڑ لیتا ہے تو پھر اس کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔
حضرت ابن عمرو رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بر سر منبریہ بات ارشاد فرمائی تم رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرو اﷲ تمہیں معاف کردے گا ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو صرف باتوں کاہتھیار رکھتے ہیں ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے گناہوں پر جانتے بوجھتے اِصرار کرتے اور ڈٹے رہتے ہیں ۔
مسند احمدکی حدیث ہے جس کے مطابق گناہوں پر اِصرار منافقت کی طرف لے جاتا ہے وہ حدیث اس طرح ہے
أَظَلَّکُمْ شَہْرُکُمْ ہَذَا لَمَحْلُوفُ رَسُولِ اللَّہِ مَا مَرَّ بِالْمُؤْمِنِینَ شَہْرٌ خَیْرٌ لَہُمْ مِنْہُ وَلَا بِالْمُنَافِقِینَ شَہْرٌ شَرٌّ لَہُمْ مِنْہُ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَکْتُبُ أَجْرَہُ وَنَوَافِلَہُ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُدْخِلَہُ وَیَکْتُبُ إِصْرَہُ وَشَقَاء َہُ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُدْخِلَہُ وَذَلِکَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ یُعِدُّ فِیہِ الْقُوَّۃَ لِلْعِبَادَۃِ مِنْ النَّفَقَۃِ وَیُعِدُّ الْمُنَافِقُ اتِّبَاعَ غَفْلَۃِ النَّاسِ وَاتِّبَاعَ عَوْرَاتِہِمْ فَہُوَ غُنْمٌ لِلْمُؤْمِنِ یَغْتَنِمُہُ الْفَاجِرُ
یہ مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا پیغمبر خدا قسم کھاتے ہیں کہ مسلمانوں پر ماہ رمضان سے بہتر کوئی مہینہ سایہ فگن نہیں ہوتا اور منافقین پر رمضان سے زیادہ سخت کوئی مہینہ نہیں آتا اﷲ تعالیٰ اس کے آنے سے پہلے اس کا اجر اور نوافل لکھنا شروع کردیتا ہے اور منافقین کا گناہوں پر اِصرار اور بدبختی بھی پہلے سے لکھنا شروع کردیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اس مہینے میں عبادت کے لئے طاقت مہیا کرتے ہیں اور منافقین لوگوں کی غفلتوں اور عیوب کو تلاش کرتے ہیں۔
اسی غفلت اور اِصرار کی حقیقت کے متعلق ایک عارف کا قول ہے
سَمِعْتُ سَہْلَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ، یَقُولُ: ” أَصْلُ الدُّنْیَا الْجَہْلُ وَفَرْعُہَا الْأَکْلُ وَالشُّرْبُ وَاللِّبَاسُ وَالطِّیبُ وَالنِّسَاء ُ وَالْمَالُ وَالتَّفَاخُرُ وَالتَّکَاثُرُ، وَثَمَرَتُہَا الْمَعَاصِی، وَعُقُوبَۃُ الْمَعَاصِی الْإِصْرَارُ، وَثَمَرَۃُ الْإِصْرَارِ الْغَفْلَۃُ، وَثَمَرَۃُ الْغَفْلَۃِ الِاسْتِجْرَاء ُ عَلَی اللَّہِ(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء )
حضرت سہل بن عبد اﷲفرماتے ہیں ’’دنیا کی جڑ جہالت ہے اس کی شاخیں کھانا، پینا،لباس ،خوشبو،عورتیں ،مال پر فخر اور کثرت ہے۔ اس کا پھل معاصی ہیں اور معاصی کا انجام اِصرار ہے اور اِصرار کا پھل غفلت ہے اور غفلت کا پھل اﷲ کی نافرمانی میں جرأت کا پیدا ہونا ہے۔
گناہ کا اِصرار تو واضح ہے کسی دوسرے معاملہ میں بھی اِصرار بے برکتی کا سبب بن جاتا ہے جیسا کہ اس حدیث مبارکہ میں ہے
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں تو صرف خزانچی ہوں ، اصل دینے والا اﷲ ہے اس لئے میں جس شخص کو دل کی خوشی کے ساتھ کوئی بخشش دوں تو اسے اس کے لئے مبارک کر دیا جائے گا اور جسے اس کے شر سے بچنے کے لئے یا اس کے سوال میں اِصرار کی وجہ سے کچھ دوں ، وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا رہے اور سیراب نہ ہو۔
لیکن اگر کسی کی بھلائی کا معاملہ ہو اور فائدہ کی بات ہو تو اس بات پر ڈٹے رہنے کی بجائے اسے چھوڑ دیانا بہتر ہے ۔
وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاللَّہِ لَأَنْ یَلِجَّ أَحَدُکُمْ بِیَمِینِہِ فِی أَہْلِہِ آثَمُ لَہُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ أَنْ یُعْطِیَ کَفَّارَتَہُ الَّتِی افْتَرَضَ اللَّہُ عَلَیْہِ (صحیح بخاری)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ گھر والوں کے معاملہ میں تمہارا اپنی قسموں پر مصر رہنا زیادہ گناہ کی بات ہے بہ نسبت اس کے کفارہ ادا کردو جو اﷲ تعالیٰ نے تم پر فرض کیا ہے۔
اہل ایمان کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی وہ توبہ کرتا ہے کہ کہیں یہ توبہ نہ کرنا اصرار میں شمار نہ کر لیا جائے۔
وَقَالَ ذُو النُّونِ:َثَلَاثَۃٌ مِنْ أَعْلَامِ الْإِیمَان إِسْبَاغُ الطَّہَارَاتِ فِی الْمَکَارِہِ، وَارْتِعَاشُ الْقَلْبِ عِنْدَ الْفَرَائِضِ حَتَّی یُؤَدِّیَہَا، وَالتَّوْبَۃُ عِنْدَ کُلِّ ذَنْبٍ خَوْفًا مِنَ الْإِصْرَارِ(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء )
حضرت ذو النون مصری فرماتے ہیں کہ’’ تین چیزیں ایمان کی نشانیاں ہیں سختی اور تکلیف میں کامل وضو کرنا ،اور فرائض کی ادائیگی کے وقت قلب کا کانپتے رہنا جب تک فرض ادا نہ ہوں ہر گناہ کے وقت اس وجہ سے توبہ کرنا کہ کہیں یہ اِصرار میں نہ شامل ہو جائے۔
سَمِعْتُ سَرِیَّ السَّقَطِیُّ یَقُولُ: ” رَأَیْتُ فِیَ بَعْضِ کُتُبِ الْحُکَمَاء ِ کَانَ یُقَالُ: قَلِیلُ الْحِکْمَۃِ کَثِیرُ النَّفْعِ، وَقَلِیلُ الصِّدْقِ کَثِیرُ الصَّوَابِ، وَقَلِیلُ الْیَقِینِ کَثِیرُ الْإِیمَانِ، وَقَلِیلُ الْجَہْلِ کَثِیرُ الضَّرَرِ، وَقَلِیلُ الْإِصْرَارِ کَثِیرُ الْعُقُوبَۃِ “(شعب الایمان)
حضرت سری سقطی فرماتے تھے کہ ’’میں نے بعض حکماء کی کتابوں میں پڑھا ہے جس میں تھا تھوڑی سی حکمت بھی کثیر نفع ہے،تھوڑا سا سچ کثیر ثواب کاسبب ہے،تھوڑاسا یقین بھی کثیر ایمان کی علامت ہے تھوڑی سی جہالت کثیر نقصان کا باعث ہے اور تھوڑے سے اِصرار پر کثیر پکڑ ہے‘‘
فقہ حنفی کا مسلمہ اصول ہے جو مرد وعورت احکام شرع اور فرائض دین کی بجا آوری نہ کرتے ہوں یا گناہ کبیرہ کے ارتکاب اور گناہ صغیرہ پر اِصرار کرتے ہوں ان کی گواہی معتبر نہیں ہوگی ۔ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں کہ صغیرہ گناہ کا مرتکب فاسق معلن ہے جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد 6مسئلہ نمبر 753صفحہ 601پر ہے۔
’’اگر فاسق معلن ہے کہ علانیہ کبیرہ کا ارتکاب یاصغیرہ پر اصرار کرتا ہے تو اسے امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کے پڑھنی گناہ اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب‘‘۔
اسی طرح جلد 22صفحہ 626پر ہے
’’مکروہ تحریمی گناہ صغیرہ سہی مگر بعد اصرار کبیرہ اور ہلکا جانتے ہی فورا اشد کبیرہ۔ حدیث میں ہے حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاصغیرۃ مع الاصرار رواہ فی مسند الفردوس عن ابن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہمااصرار سے کوئی گناہ چھوٹا نہیں ہوجاتا (بلکہ بڑا ہوجاتاہے)‘‘
مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے
حضرت ابوعبداﷲ صحابی بیمار ہوئے ان کے کچھ دوست واحباب مزاج پرسی کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، ان لوگوں نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا کہ آپ کو تو سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحابیت کا شرف حاصل ہے اور پھر مزید یہ کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ تم اپنی مونچھوں کو پست ہلکی کراتے رہنا اور اسی پر قائم رہنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر یا جنت میں مجھ سے تم ملاقات کرو تو گویا آپ کو جنت میں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جنت میں داخل ہونا اور اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہونا بغیر اسلام کے ہو نہیں سکتا، تو معلوم ہوا کہ آپ کا خاتمہ بالخیر ہوا اور آپ ایمان و اسلام کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کریں گے، لہٰذا پھر رونا کیوں؟ اور یہ فکر و غم کیسا؟ اس کو جواب مرد حق آگاہ نے یہ دیا کہ صحیح اور بجا ہے اور اس خوشخبری کی صداقت کا اعتقاد بھی لیکن پروردگار عالم بے نیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کی مرضی میں کسی کا دخل نہیں ہے اور پھر اﷲ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں جس کو چاہوں جنت کی سعادت سے نوازدوں اور جس کو چاہوں دوزخ کے حوالہ کر دوں اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تو مجھے بھی یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ نا معلوم میرا کیا حشر ہو؟ اور دل اس خوف سے لرزاں اور آنکھیں ڈر سے اشک بار ہیں کہ نہ جانے اﷲ نے میرے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے۔یہ ان کے جواب کا حاصل تھا ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے تصور اور خوف اﷲ کے غلبہ سے اس خوشخبری کو بھول گئے ہوں اور انہیں اس کا احساس نہ رہا ہو کہ لسان نبوت نے مجھے اس خوشخبری جیسی عظیم سعادت سے بھی نواز رکھا ہے۔
علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مونچھیں ہلکی کرانا سنت موکدہ ہے اور اس عمل پر قائم رہنا اور ہمیشہ اس کو کرتے رہنا جنت میں دخول اور وہاں سر کار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زیر سایہ ہونے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اس ایک سنت کو ترک کرنے سے یعنی مونچھیں پست و ہلکی نہ کرانے سے ایسی عظیم سعادت اور اتنی بڑی فلاح ہاتھ سے جاتی ہے چہ جائیکہ سنت کو ہمیشہ ترک کرتا رہے ، اس لیے کہ ترک سنت پر اِصرار ، الحاد و زندقہ تک پہنچاتا ہے۔
جو لوگ آپ کی سنت مبارکہ داڑھی مبارک کو ہر روز کاٹتے ہیں ان کا حال کیا ہوگا ؟
داڑھی مبارکہ منڈانا گناہ صغیرہ ہی سہی لیکن ہر روز کا منڈانا اصرار میں شمار ہونے سے گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے اور چونکہ داڑھی منڈانے والا زبان سے نہ بھی کہے عملا اس سے حقارت کی وجہ سے نہیں رکھتاتو یہ تحقیر کی وجہ سے بعض اوقات کفر میں شمار ہوگی ۔
آخر میں اعلیٰ حضرت کے اس فتویٰ پر اختتام کرتا ہوں کہ داڑھی مبارکہ کے نہ رکھنے والے کی نماز کا کیا حکم ہے۔
’’داڑھی منڈانا فسق ہے اور فسق سے متلبس ہوکر بلا توبہ نماز پڑھنا باعث کراہت نماز ہے جیسے ریشمی کپڑے پہن کر یاصرف پائجامہ پہن کر ،اور داڑھی منڈانے والا فاسق معلن ہے ،نماز ہوجانا بایں معنٰی ہے ،کہ فرض ساقط ہوجائے گا ورنہ گناہگار ہوگا اسے امام بنانا اور اس کے پیچھے نماز مکرہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب‘‘
( فتاویٰ رضویہ جلد6 مسئلہ نمبر820صفحہ 627)
اسی لئے کہاگیا ہے کہ ” جس شخص نے گناہ سے توبہ کی اور نادم ہوا اور اﷲ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھی تو اس نے اِصرار نہیں کیا (یعنی ایسے شخص کو ” مصر ” نہیں کہہ سکتے اور اس کی توبہ قبول ہوگی ) اگرچہ ایک ہی دن میں وہی گناہ ستر بار کرے “