عاجزی صرف دل سے

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

جھکنا اور عاجزی کرنا تو دل سے ہوتا ہے:

اے مخاطب ! تو کہے گا کہ دنیا کے اس سمندر میں تیرتے ہوئے ڈر لگتا ہے، ڈرنا کیسا!  ڈر ہے تو تیرتاہی کیوں ہے؟حالانکہ خوف تو اس کی ضد ہے ۔ اس کا جواب یوں ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ’’اللہ کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں‘‘۔

 جب انہیں علم ہو گیا ڈرنے لگے، جب تجھے کسی چیز کی مضرت کا علم ہو جائے تو پھر اس سے ڈر اور پرہیز کر۔موت تو ضرور آنے والی ہے، اس سے چارہ کار نہیں ،لہذا تو اس کے لئے عمل کرے ۔ اے وہ شخص! جس کا گھر بغیر میت کے ہے اور بیوی بچوں کے لئے آٹا موجود نہیں ہے، نہ نیچے اوپر کا کپڑا ہے۔ ہوشیار ہو، جاڑے آ گئے، لہذا تیاری کر لے، بادشاہ آ رہا ہے پا پیادہ ہو جا، درندہ آ گیا ہے اس سے ڈر وہ موت کا درندہ ہے۔ تو جونماز میں’’ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے، اس کے کیا معنی ہیں؟ – یہی کہ ہم تیری ہی اطاعت کرتے ہیں اورتجھی سے مدد چاہتے ہیں، ‘ تو نے اللہ کوکب ایک جانا ، ہ تو نے اس کے لئے کب اخلاص سے عمل کیا۔ تو نے مخلوق اور دکھاوے اور نفاق اور خودبنی اور رفیقوں سے کب بے رغبتی کی ، تو اللہ کے سامنے کب جھکا ،جھکنا، عاجزی کرنا تو دل کی حیثیت سے ہوا کرتا ہے، اور تنہائی میں ہوتا ہے نہ کہ جلوت میں، رؤیت الہٰی کے ساتھ جب شہوت نفس جمع ہو جاتی ہے تو بندہ رؤیت الہٰی سے شرم کرتے ہوئے اپنی شہوت نفس کو چھوڑ دیتا ہے، تو اپنی خلوت میں شہوت کی شدت سے سیدنا یعقوب علیہ السلام کو اپنی انگلیاں کاٹتے ہوئے ( جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے )دیکھا تھا، تو کب دیکھے گا ، اپنی پاک دامنی پر کب نظر ڈالے گا، پاک دامنی غیرت الہٰی سے ہے ۔سیدنا یوسف علیہ السلام جب بی بی زلیخا کے ساتھ جمع ہو گئے اور زلیخا نے دست درازی کی ، غیرت الہٰی جوش میں آ گئی ،سید نا یوسف علیہ السلام پیٹھ پھیر کر بھاگے،اللہ تعالی نے خود فرمایا: كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ یہ اس لئے تھا کہ ہم یوسف سے برائی و بے شرمی کو پھیر دیں ، کیونکہ وہ ہمارے نیک بندوں میں سے تھا۔ اے مخاطب! تیری حالت یوسف علیہ السلام کی طرح کب بدلے گی ، یوسف علیہ السلام نے اللہ کے گھر میں بہ تکلف پاک دامنی کو اختیار کیا، قید خانے میں اپنے رب کے حکم کی موافقت کی ، اللہ تعالی نے انہیں خلوت میں پاک دامنی عطا فرمائی ۔

اسباب کو چھوڑ دینے کا نام توکل ہے

اے اللہ کے بندو! تم بھی ایسے ہی ہو جاؤ، اے مریدو! – یوسف علیہ السلام صدیق تھے تم اللہ تعالی سے ان جیسی حالت طلب کرو، تمام اسباب کو چھوڑ دینے اورقطع کر دینے کا نام تو کل ہے، دل جب پلٹتا ہے فرشتہ بن جاتا ہے،  جیسے فرشتہ پہچانتا ہے، ویسے ہی یہ پہچاننے لگتا ہے ۔ جیسے کہ فرشہ پہچانتا ہے، ویسے ہی اسے پہچان ہو جاتی ہے ۔بعد میں وہ ترقی کر کے فرشتوں کا بادشاہ بن جاتا ہے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 675،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں