علم لدنی اور ربانی معارف کے عنوان سے سولہویں باب میں حکمت نمبر 155 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
ان ظاہری انوار اورظلمانی اغیار کے وجود کی حکمت باطنی سرائر کو ڈھانپنا اور چھپانا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے:
155) سَتَرَ أَنْوَارَ السَّرَائِرِ بِكَثَائِفِ الظَّوَاهِرِ؛ إِجْلاَلاً لَهَا أَنْ تُبْتَذَلَ بِوُجُودِ الإِظْهَارِ وَأَنْ يُنَادَى عَلَيْهَا بِلِسَانِ الاشْتِهَارِ.
اللہ تعالیٰ نے سرائر (باطن) کے انوار کو ظاہر کی کثافتوں سے، اس کی عزت و تعظیم قائم رکھنے کے لئے پوشیدہ کیا۔ تا کہ ظاہر کر کے ان کو ذلیل اور حقیر نہ کیا جائے۔ اور شہرت کر کے ان کا اعلان نہ کیا جائے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ سرائر کے انوار لدنی علم اور ربانی معارف ہیں۔ اور ان کو ربوبیت کا وہ علم جمع کرتا ہے، جس کا چھپانا اس کے نا اہل سے واجب ہے اور جس شخص نے اس کے ظاہر کرنے کو مباح (جائز) کیا۔ اس کا خون مباح کر دیا گیا ۔ (اس کو قتل کر دیا گیا اور انہیں سرائر کو ظاہر کرنے کے سب حضرت منصور حلاج رحم اللہ قتل کئے گئے۔
اور ظاہر کی کثافتیں :۔ ظاہری بشریت ہے۔ یا تم اس طرح کہو :- سرائر کے انوار : باطنی آزادی ہے۔ اور ظاہر کی کثافتیں :۔ ظاہری بندگی ہے۔
یا تم اس طرح کہو :- سرائر کے انوار : باطنی قدرت کا علم ہے۔ اور ظاہر کی کثافتیں :- ظاہری حکمت کا علم ہے
پس سرائر کے انوار :- لطیف، باریک حقیقتیں ہیں۔ اُن کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری کثافتوں سے پوشیدہ فرما دیا ہے۔ اس لئے سرائر کے انوار والوں کا ظاہر دیکھنے والے لوگوں نے ہمیشہ انکار کیا۔ خواہ وہ پرانے زمانہ کے لوگ ہوں ، یانئے زمانے کے لوگ ہوں ۔
یہان تک کہ کافروں نے کہا :-
مَالِهَذا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ )یہ کیسا رسول ہے ۔ کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے۔
( وَقَالُوا مَا هَذَا إِلَّا بَشَر مثلكم اور کافروں نے کہا: یہ نہیں ہے۔ مگر ہماری طرح بشر ہے۔
اور اولیاء اللہ کا انکار کرنا۔ پرانی سنت ہے اور اس کی حکمت ، ان کی قدر ومنزلت کو بڑھانا ہے اور اس سے ان کو محفوظ کرنا ہے کہ وہ ظاہر کر کے حقیر کر دیئے جائیں۔ اور ان کو مشہور کر دیا جائے۔پھر نہ ان کا راز باقی رہے نہ عزت قائم رہے۔
اس لئے اولیائے کرام نے گمنامی اور خراب (لوگوں کی نظروں سے گرانے والے طریقے اور تلبیس (احوال کو چھپانے والے طریقے) کو پسند فرمایا ہے:۔
) حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إذا رَأَيْتَ الْوُجُودَ قَدْ لَاحَ فِي ذَاتِكَ
جب تم وجود کو دیکھو۔ کہ تمہاری ذات میں ظاہر ہوا ہے۔
هَودِس وَلَازِمِ الْجُحُو دَ ذَاتَكَ وَصِفَاتَك
تم بے وقوف بن جاؤ۔ اور اپنی ذات اور صفات کا انکار کردو۔
وَاضْرِبُ يَتُرْسِكَ الْ عُقُودَ وَالْقِي عَصَاتَك
اور اپنے تلوار سے تعلقات کو کاٹ دو۔ اور اپنا بھروسہ (سہارا) ختم کرو۔
ترس : کے معنی ہیں ڈھال ۔ یہاں تلوار مجاز الیا گیا ہے۔ اور عقود سے مراد ، تعلقات اور شواغل ) مانعات روکنے والی چیزیں ) یعنی اپنے عزم کی تلوار سے تعلقات اور مانعات کو ختم کردو۔
اور القاء العصا: – لاٹھی ڈال دینا ۔ سہاراختم کنا یہ ہے، ان تمام اشیاء کے ختم کرنے سے جن پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ جیسے اصحاب (ساتھی ) یا احباب ( دوست ) یا اسباب ( ذریعے اور وسیلے) یا اختیاریا طاقت یا ان کے سوا ہر وہ شے جن کی طرف انسان مائل ہوتا ہے۔
اور یہ بھی احتمال ہے۔ کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے سرائر کے انوار سے صفات کی حقیقتیں مراد لی ہوں،جوذات میں سرایت کی ہوئی ہیں۔ اور ظاہر کی کثافتوں سے ظاہری محسوسات مراد لی ہوں۔ تو صفات ، محسوس ذاتوں کے بغیر ظا ہرنہیں ہوتی ہیں۔ اور محسوس ذاتیں صفات کے بغیر قائم نہیں ہوتی ہیں۔ لہذا اللہ سبحا نہ و تعالیٰ نے اپنی از لی لطیف صفات کو ، بشریت کی کثیف ذاتوں کے ظہور میں پوشیدہ کیا۔ تا کہ ربوبیت کا راز ظاہر ہو کر حقیر نہ ہو۔ یا مشہور ہوکر راز ظاہر نہ ہو جائے ۔ بلکہ ربوبیت کا راز، راز کی حیثیت سے محفوظ رہے۔ حاصل یہ ہے کہ کل اشیاء ذات اور صفات کے درمیان ظاہر اور باطن کے درمیان قدرت اور حکمت کے درمیان قائم ہیں۔
پس اللہ تعالی نے لطیف ذات کے اسرار کی حقیقتوں کو کثیف ذاتوں کے ظہور میں پوشیدہ کر دیا اور لطیف حقیقت کو کثیف محسوس میں پوشیدہ کر دیا اور قدرت کو حکمت میں پوشیدہ کر دیا۔
اور لطیف حقیقت کو کثیف محسوس میں پوشیدہ کر دیا۔ اور قدرت کو حکمت میں پوشیدہ کر دیا۔
اور سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شے موجود نہیں ہے۔ اور یہ ظاہری کثافتیں :۔ لطیف حقیقتوں کی چادریں اور قمیصیں ہیں۔
یا تم اس طرح کہو:۔ یہ ظاہری کثافتیں :- حفاظت کی چادر ہیں۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے کائنات پر اڑھادیا ہے۔
لہذا جب چادر چاک ہوتی یا دور ہو جاتی ہے۔ تو مسلم حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔ پس تصرفات قہر یہ صرف چادروں اور پردوں کو کھنچتے ہیں۔ نہ کہ حقیقتوں اور نور کو ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ کہ اس کو وہ شے لاحق ہو، جو بندوں کو لاحق ہوتی ہے۔ اس لئے تم کو زیادتی کی طلب سے باز رہنا چاہیئے ۔
اور ادراک سے عاجز ہونا ہی بندوں کا وصف ہے۔
اور عارفین نے لطیف حقیقتوں کے کثیف اجسام میں پوشیدہ ہونے کی مثال ، اُن خشک دانوں اور پھلوں سے دی ہے۔ جو تر و تازہ شاخوں میں لگتے ہیں۔ تو وہ پھل اسی شاخ میں پوشیدہ ہیں۔ تو جب بارش ہوتی ہے۔ درخت سرسبز ہو جاتے ہیں۔ اور ان پھلوں کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ جوان کے اندر چھپے ہوتے ہیں۔
اور حضرت ابن بناء نے اپنے مباحث اصلیہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔
وَهِيَ مِنَ الْنُفَوْسِ فِي كُمُونٍ كَمَا يَكُونُ الْحَبُّ فِي الْغُصُونِ
اورلطیف حقیقتیں نفوس میں اس طرح چھپی ہوئی ہیں ۔ جس طرح دانہ یا پھل شاخوں کے اندر چھپے ہوتے ہیں۔
حَتَّى إِذَا ارْعَدَتِ الرُّعُودُ وَانْسَكَبَ الْمَاء وَلَانَ الْعُوْدُ
یہاں تک کہ جب بادل گرجتا ہے اور پانی برستا ہے اور شاخیں نرم ہوتی ہیں۔
وَجَالَ فِي أَغْصَانِهَا الرِّيَاحُ فَعِنْدَهَا يُرُ تَقَبُ اللِقَاحُ
اور ان کی شاخوں کے اندر ہوا گزرتی ہے، تو اس وقت پھل کا انتظار کیا جاتا ہے۔
یہاں سولہواں باب ختم ہوا ۔
خلاصہ اور اس کا حاصل :- سیر کرنے کی حالت میں سائر کے آداب ہیں۔ اس طرح کہ کسی نافرمانی کے ساتھ نہ ٹھہرے۔ اور نہ کسی طاعت کی طرف جھکے۔ (یعنی کسی نا فرمانی میں مشغول نہ رہ جائے اور کسی طاعت پر اعتماد نہ کر بیٹھے ) نہ اس کے اوپر خوف غالب ہو، نہ رجاء ۔ نہ قبض غالب ہونہ بسط ۔ بلکہ اس پر نظر رکھے جو غیب سے ظاہر ہو ۔ پھر اسکو معرفت اور کشادہ دلی کے ساتھ قبول کرے۔ لہذا جب وہ ایسا کرے گا۔ تو اس کے اوپر انوار روشن ہوں گے ۔ اور اس کو مخلوق کی غلامی سے آزاد کر دینگے ۔ یہاں تک کہ اس کو بادشاہ قہار اللہ تعالیٰ کے شہود تک پہنچادیں گے ۔ لیکن حسینوں کے لئے نقاب اور سورج کے لئے بادل اور یا قوتوں کے لئے حفاظت ضروری ہے۔ اس لئے انوار ، اغیار کی کثافتوں سے پوشیدہ ہو گئے ۔ تاکہ ظاہر اور مشہور ہونے سے محفوظ رہ کر ان کی قدر و منزلت قائم رہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیا کو اپنی مخلوق میں پوشیدہ کر دیا ہے۔ لہذاوہ ان سے کسی کو آگاہ نہیں کرتا ہے۔ مگر اس شخص کو جس کو وہ اپنے راز سے خاص کرنا چاہتا ہے۔ جس راز سے اولیائے کرام کو خاص کیا ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو سترھویں باب کی ابتدا میں بیان کیا ہے۔