عماء کی تعریف اصطلاحات صوفیاء میں
عماء صوفیاء کی اصطلاح میں ایک بنیادی اور انتہائی لطیف مفہوم رکھتی ہے، جو ذاتِ الٰہی کی ازلی اور غیرمخلوق حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ لفظ عربی زبان کے مادہ “ع م و” سے نکلا ہے، جس کا عام معنی “اندھیرا”، “غیر مرئی”، یا “پوشیدگی” ہے۔ لیکن تصوف کے تناظر میں اسے “اللہ کی ذات کا وہ مقامِ غیب” سمجھا جاتا ہے جو تمام مخلوقات، وجود، اور حتیٰ کہ زمان و مکان سے بھی ماورا اور پوشیدہ ہے۔
عماء کے بنیادی پہلو:
1. ذاتِ باری تعالیٰ کا مطلق غیب:
عماء کو “لا تعیّن” (عدم تعین) کی حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی وہ مقام جہاں ذاتِ الٰہی کسی بھی صفت، شکل، یا حد سے ماورا ہے۔ یہ وہ “اولین حقیقت” ہے جہاں نہ کوئی مخلوق تھی، نہ کائنات، نہ نور، نہ ظلمت۔ صوفیاء اسے “قبل الکائنات” کی حالت قرار دیتے ہیں، جیسے حدیث قدسی میں آیا ہے: “کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِيًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ” (میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، پھر میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا)۔ یہاں “پوشیدہ خزانہ” عماء کی طرف کنایہ ہے۔ گویا حقیقت مطلق اور غیب مطلق کا نام عماء ہے
2. فنا فی اللہ کا مقام:
صوفی سلوک میں جب سالک اپنی انا کو فنا کر دیتا ہے اور ذاتِ الٰہی میں گم ہو جاتا ہے، تو اسے “عماء کے سمندر میں غرق ہونا” کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سالک کو اپنی ذات کا احساس باقی نہیں رہتا، بلکہ وہ اللہ کی ذات کے ساتھ اتحاد (وحدت الوجود نہیں، بلکہ وحدت الشہود) محسوس کرتا ہے۔
3. تخلیق کا مبدا:
بعض صوفیاء کے نزدیک عماء وہ “ابدی بادل” یا “غیر متعین ہیولٰی” ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ظہور بخشا۔ یہ نظریہ افلاطونی فلسفہ کے “عالمِ مُثُل” سے مشابہت رکھتا ہے، لیکن صوفیاء اسے خالصتاً قرآنی تصور “کُنْ فَیَکُونُ” (ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے) سے جوڑتے ہیں۔
4. یہ ذات الٰہی کی وہ حالت ہے جہاں سے اسماء و صفات کا ظہور شروع ہوتا ہے۔
5. بعض صوفیا کے مطابق عماء “تعین اول” ہے جو تمام تخلیق کا منبع ہے۔
6. عماء کو اکثر “نفس رحمانی” (خدا کی نفس یا سانس) سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، جس سے تمام مخلوقات کا وجود وابستہ ہے۔
عماء کا تصور ایک حدیث پر مبنی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: “أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ؟” (ہمارا رب مخلوقات کی تخلیق سے پہلے کہاں تھا؟) آپ ﷺ نے فرمایا: “كَانَ فِي عَمَاءٍ مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ” وہ عماء(ابر رقیق)میں تھا، اس کے اوپر ہوا تھی اور اس کے نیچے بھی ہوا تھی۔
پس اس حدیث شریف سے ثابت ہے کہ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالی عماء میں تھا اب صرف عماء کی حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے سو مقبول خالق کونین امام حسین اس حدیث شریف میں لفظ عماء کی تفسیر ایسے احسن طریقے سے بیان فرماتے ہیں جو انہی کے شایان شان ہے آپ نے فرمایا کہ مرتبہ عماء برزخ انسانی ہے چنانچہ حضرت امام عالی مقام علیہ الصلاۃ والسلام اپنی کتاب مرآت العارفین میں صفحہ 38 پر فرماتے ہیں
یعنی برزخ انسانی تنزل ربانی کا مرتبہ ہے تاکہ رب اس مرتبہ میں صفات عبودیت سے متصف ہو اور ارتفاع عبد کا مقام ہے تاکہ بندہ اس مرتبہ میں صفات ربانی سے متصف ہو پس یہی برزخ انسانی مرتبہ عماء ہے جس کا حدیث مشہور میں ذکر ہے اور اس کلام پاک کی شرح جلا ء المرآت کے صفحہ 191 پر ہے کہ عماء کا معنی ابر رقیق ہے اور اس مرتبہ یعنی برزخی انسانی کو عماء اس واسطے کہا گیا ہے کہ اس میں اور ابر رقیق میں مناسبت تامہ ہے کیونکہ ابر رقیق آفتاب کا حاجب نہیں ہوتا اس طرح یہ مرتبہ اپنی کثرت سے وحدت کا حاجب نہیں ہے اس لیے کہ یہاں کثرت حقیقی نہیں ہے بلکہ محض اعتباری ہے اور چونکہ انسان کامل با اعتبار جامعیت کاملہ مرتبہ عمائیہ کے مشابہ ہے اس لیے حضرت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم کو عماء کہتے ہیں۔
پس اس کلام الامام امام الکلام سے اظہر من الشمس عیاں ہیں کہ اللہ تعالی مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے مرتبہ عماء یعنی برزخ کبری انسان کامل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں تھا
اور عماء کے نیچے اور اوپر ہوا ہونے سے حق اور خلق کی طرف اشارہ ہے یعنی برزخ جامع حضرت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی جہت اعلی حق اور جہت اسفل خلق ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت کے اعتبار سے حق اور صورت کے لحاظ سے خلق ہیں پس آپ ہی حق اور آپ ہی خلق ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت امام حسین ابن علی علیہ الصلاۃ والسلام سے زیادہ عماء کی حقیقت کوئی کیا سمجھے گا اور اس سے واضح تر کیا سمجھایا جائے گا ۔اللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا فَهْمَ هٰذَا الْمَقَامِ بِحُرْمَةِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ
ایسے ہی حضرت شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالی عنہ اس راز کو عجیب انداز میں بیان فرماتے ہیں چنانچہ فتوحات مکیہ کے باب 358 میں صفحہ 266 پر قول تعالی كُنْتُ كَنْزًا مَخْفِيًّاکی شرح میں فرمایا
فَجَعَلَ نَفْسَهُ كَنْزًا وَالْكَنْزُ لَا يَكُونُ إِلَّا مُکْتَزًِا فِي شَيْءٍ، فَلَمْ يَكُنْ كَنْزُ الْحَقِّ نَفْسَهُ إِلَّا فِي صُورَةِ الْإِنْسَانِ الْكَامِلِ فِي شَبِيهِهِ وَثُبُوتِهِ وَنَطْقِهِ، ھُنَاکَ كَانَ الْحَقُّ مَکْزُونًا فَلَمَّا كَسَا الْحَقُّ الْإِنْسَانَ ثَوْبَ َشِيبَتِهِ لِلْوُجُودِ ظَهَرَ الْكَنْزُ بِظُهُورِهِ فَعَرَفَهُ الْإِنْسَانُ الْكَامِلُ بِوُجُودِهِ
یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا اس حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے اپنی ذات کو خزانہ فرمایا ہے اور خزانہ کسی شے میں مخزون ہوتا ہے پس ذات حق کا خزانہ انسان کامل کی صورت میں علم الہی میں اس کی مشیت ثبوتی کے وقت مخفی تھا پس ذات الہی کا خزانہ انسان کامل میں مخزن مخزون تھا پھر جب اللہ تعالی نے انسان کامل کو مشیت وجودی کا لباس پہنایا تو انسان کا عمل کے ظہور سے وہ خزانہ ظاہر ہو گیا پس انسان کامل نے ذات الہی کو اپنے وجود سے پہچانا ۔
اس کلام فیض نظام سے بھی روشن روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ اللہ تعالی تمام مخلوقات کو کن کے ساتھ پیدا کرنے سے پہلے محمد پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں مخفی تھا کیونکہ آپ کا نور قدیم اور آپ کا فرمان أَنَا أَحْمَدُ بِلَا مِيمٍ ہے عَلَيْهِ وَآلِهِ أَفْضَلُ الصَّلَوَاتِ وَأَكْمَلُ التَّحِيَّاتِ