عمر میں برکت (پچیسواں باب)

عمر میں برکت کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 260 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے :۔
260) مَنْ بُورِكَ لَهُ فِي عُمُرِهِ أَدْرَكَ فِي يَسِيرٍ مِنَ الزَّمَنِ مِنْ مِنَنِ اللهِ تَعَالَى مَا لا يَدْخُلُ تَحْتَ دَوَائِرِ العِبَارَةِ ، وَلاَ تَلْحَقُهُ الإِشَارَةُ .
جس شخص کو اس کی عمر میں برکت عطا کی جاتی ہے۔ وہ کمتر زمانے میں اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات میں سے اس قدر حاصل کر لیتا ہے۔ جو تحریر کے دائروں سے باہر ہوتا ہے اور اشارہ بھی اسکے پاس تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ انسان کی عمر میں برکت :- اس کے دنوں کے زیادہ ہونے اور اس کے زمانوں کے لمبے ہونے کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے عمر میں برکت :- یہ ہے کہ عنایت الہٰی اس کے شامل حال ہو۔ اور اس کے اوپر ہدایت کی ہوا چلے ۔ تا کہ وہ کم سے کم زمانے میں اللہ تعالیٰ کے احسانات یعنی اس کے علوم اور معارف و اسرار میں سے اس قدر حاصل کرے ، جو تحریر اور تقریر کے دائروں میں نہ آسکے۔ کیونکہ جس قدر وہ حاصل کرے گا، وہ تحریر اور تقریر کی تنگی سے زیادہ وسیع ہو گا۔
حدیث قدسی میں ہے:۔ أعْدَدْتُ لِعِبَادِى الصَّالِحِينَ مَالَا عَيْن رَآتْ ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعْتُ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبٍ بَشَرٍ میں نے اپنے صالح بندوں کے لئے وہ انعامات تیار کر رکھے ہیں۔ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے ۔ نہ کسی آدمی کے قلب میں ان کا خیال گزرا ہے۔
لہذا عارف اسرار کی باریکیوں میں سے اتنا حاصل کر لیتا ہے۔ جس کے بیان کرنے سے زبان عاجز ہوتی ہے۔ اور یہ بہت ہی مختصر زمانے میں ہوتا ہے۔
اور ان میں سے اکثر اہل اللہ کی ملاقات اور ان کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے ساتھ ایک گھڑی کی صحبت میں جو فیض اور فائدہ انسان کو حاصل ہوتا ہے ۔ وہ ان کے سوا دوسروں کی صحبت میں مدت دراز میں بھی حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اگر چہ ان لوگوں کی نمازیں اور روزے زیادہ ہوں۔ اس لئے کہ اوراد و وظائف کی زیادتی کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ بلکہ اعتبار صرف فوائد کی زیادتی کا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے:-
إِنَّ اللهَ لَا يَنظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلَا إِلَى أَمْوَالِكُمْ ، وَإِنَّمَا يَنظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ بیشک اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے، نہ تمہارے مالوں کو بلکہ وہ صرف تمہارے قلب اوراعمال کو دیکھتا ہے۔ اس حدیث کو جامع میں بیان کیا ہے۔
اور قلوب کے اعمال کا ایک ذرہ پہاڑ کی طرح جسمانی اعمال سے افضل ہے۔ اور جو عمل معرفت کے ساتھ ہو ۔ وہ اس عمل کی طرح نہیں ہے جو جہالت کے ساتھ ہو ۔ اور یہ بات معلوم اور مسلم ہے۔
حضرت شیخ حضرمی نے اپنی بعض وصیتوں میں فرمایا ہے ۔ جو شخص جمع کی دوات سے مدد یعنی فیض حاصل کرتا ہے۔ وہ ان اشیاء کو بھی لکھتا ہے جو ہوتی ہیں اور ان اشیاء کو بھی لکھتا ہے جو نہیں ہوتی ہیں۔ (لمبا لمبا لمبا۔ کوتاہ کوتاہ کوتاہ شی شی شی ۔ کوئی شے نہیں ہے۔ عدم عدم عدم وجود وجودوجود یعنی حقیقت لمبی ہے۔ اور محسوس ظاہر کوتا ہ ہے ۔ اور قدیم موجود اللہ تعالیٰ شی ثابت ہے اور اس کے ماسوا کوئی شے نہیں ہے۔ اور ما سوی عدم ہے۔ اور اللہ واحد قہار وجود ہے ۔
لہذا جو شخص جمع کی دوات سے لکھتا ہے یعنی جمع کی بارگاہ سے فیض حاصل کرتا ہے۔ وہ کل اشیاء کو لکھتا ہے اور کل اشیاء سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ وہ کل اشیاء میں خواہ وہ چھوٹی ہوں ۔ یا بڑی، وجودی ہوں یا عدمی ، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے ۔وَ بِاللَّهِ التَّوْفِيق
اور عمر میں برکت کا سبب :- شواغل ، (اپنے میں مشغول کر کے غافل کرنے والی اشیاء ) اور شواغب ( تعلقات ) سے فارغ ہونا ہے۔ لہذا جس شخص کے شواغل اور تعلقات زیادہ ہیں ۔ اس کی عمر میں کچھ برکت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے اور تمناؤں کے حاصل کرنے کے سبب اپنے مولائے حقیقی کی اطاعت سے رک جاتا ہے اور جو شخص شواغل سے فارغ ہو کر بھی اپنے مولائے حقیقی کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ وہ انتہائی بدنصیب اور محروم ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی استقامت اور ہدایت کے راستے سے ہٹا ہواہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں