عمر کا پیمانہ (پچیسواں باب)

عمر کا پیمانہ کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 259 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے عمر دراز کو اپنے اس قول میں بیان
259) رُبَّ عُمُرٍ اتَّسَعَتْ آمَادُهُ وَقَلَّتْ أَمْدَادُهُ ، وَرُبَّ عُمُرٍ قَلِيَلةٌ آمَادُهُ كَثِيرَةٌ أَمْدَادُهُ .
بہت سے عمریں ہیں، جن کی مدتیں دراز ہوتی ہیں، لیکن ان کے فوائد کم ہوتے ہیں۔ اور بہت سی عمریں ہیں، جن کی مد تیں کم ہوتی ہیں لیکن ان کے فوائد زیادہ ہوتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ بہت سی عمریں جن کی مد تیں زیادہ ہوتی ہیں۔ یعنی بہت سے لوگ ہیں جن کی عمریں لمبی اور ان کی مدتیں دراز ہوتی ہیں۔ لیکن ان کے فوائد کم ہوتے ہیں ۔ لہذا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بیہودہ کاموں اور کوتاہیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے عمر کی یہ قیمتی مدتیں نیند کے خیالات اور پریشان خوابوں کی طرح گزر جاتی ہیں ۔ اور بہت عمریں ایسی ہیں۔ جن کی مدتیں کو تاہ ہوتی ہیں۔ اور ان کے فوائد زیادہ ہوتے ہیں۔ لہذا وہ تھوڑی سی مدت میں علم اور اعمال اور معارف واسرار کے وہ فوائد حاصل کر لیتے ہیں ، جودوسرے لوگ مدت دراز میں حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔
اور اس کی مثال :- سلوک کے ساتھ اہل جذب اور صرف اہل سلوک ہیں ۔ کیونکہ اہل جذب جو سالکین کے موافق عمل کرتے ہیں ۔ وہ ایک گھڑی میں قرب کا وہ فاصلہ طے کر لیتے ہیں ، جو اہل سلوک برسوں میں نہیں طے کر پاتے ہیں۔ اور یہ حضرات اہل خدمت کے سا تھ اہل فکر ہیں
فكْرَةُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةٍ سَبْعِينَ سَنَةٍ ایک گھڑی کی فکر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔
اسی کے بارے میں ایک شاعر نے فرمایا:-
كُل وَقْتٍ مِّنْ حَبِيبِى قَدْرُهُ كَالْفِ حَجَّهُ
میرے دوست کے ہر وقت کی مقدار ہزار سال کے برابر ہے۔
حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ ہمارے سب اوقات شب قدر ہیں۔ یعنی ہمارا ہر وقت دوسروں کے ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
حضرت قاضی ابو بکر بن عربی مغافری ، حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ کے شاگرد نے فرمایا ہے: میں نے حضرت ابوحامد غزالی کوان کی مخلوق سے کنارہ کشی اور گوشہ نشینی اور ان کے اس علم ظاہر اور علم باطن کی فیض یابی سے لوگوں کو محروم کر دینے پر، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فر مایا تھا ، ملامت کی ۔ تو حضرت غزالی نے مثال کے طور پر فرمایا ۔
قَدْ تَيَمَّمُتُ بِالصَّعِيدِ زَمَانًا وَ آنَا الْآنَ قَدْ ظَفِرْتُ بِالْمَاءِ
میں ایک مدت تک مٹی سے تمیم کرتارہا۔ اور اب میں پانی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں ۔ (یعنی ایک مدت تک میں ظاہر پر عمل کرتارہا۔ اور اب میں نے حقیقت کو پالیا۔)
مَنْ سَرَى مُطبِقُ الْجفُونِ وَأَضْحَى فَاتِحًا لَا يَرُدُّهَا لِلْعَمَاءِ
جو شخص آنکھیں بند ہونے کی حالت میں چل رہا تھا۔ اور اب اس کی آنکھیں کھل گئی ہیں ۔ تو وہ پھر اپنی آنکھوں کا اندھی ہو نا گوارا نہ کرے گا ۔ (یعنی میں اندھا تھا اس لئے میری نظر صرف ظاہر اورمخلوق پرتھی۔ اور اب میں بینا ہو گیا ہوں۔ لہذا ظا ہر اور مخلوق سے کنارہ کش ہو کر صرف خالق پر نظررکھتا ہوں)
حضرت ابو بکر فرماتے ہیں:۔ میں نے کہا : یا حضرت علم کے ساتھ مشغول ہونے میں عام فائدہ ہے۔ اور وہ عبادتوں سے افضل ہے۔حضرت نبی کریم نے فرمایا ہے ۔
لان يَهْدِى اللَّهُ بِكَ رَجُلاً وَاحِداً خَيْرٌ لَكَ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمسُ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت فرمادے ۔ تو یہ تمہارے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے، جن پر آفتاب طلوع ہوتا ہے۔
تو حضرت غزالی نے جواب دیا ۔ جب ارادت کے افق میں نیک بختی کا چاند نکل آیا۔ اوراصول کی زمین پر وصول کا سورج روشن ہو گیا۔ تو :
تَرَكْتُ هَوَاى سُعدى وَلَيْلَى بِمَعْزَلٍ وَصِرْتُ إِلَى عَلْيَاءِ أَوَّلِ مَنْزِلِ
میں نے سعدی اور لیلی کی محبت کو ترک کر کے گوشہ نشینی اختیار کی ۔ اور میں پہلی منزل کی بلندی کی طرف منتقل ہوا۔
فَنَا دَتْنِي الْأَكْوَانُ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ أَلَا أَيُّهَا السَّاعِي رُوَيْدَكَ فَامْهَلِ
پھر مجھ کو مخلوق نے ہر طرف سے پکارا:- اے دوڑنےذراٹھہر جا یا اے کوشش کرنے والے
غَزَلْتُ لَهُمْ غَزْلًا رَقِيقًا فَلَمْ أَجِدُ لِغَزلِي نَسَاجًا فَكَسَرْتُ مِغْزَلَى
میں نے ان کے لئے باریک دھاگا تیار کیا۔ لیکن میں نے اپنے تیار کردہ دھاگے کا کوئی بننے والا نہیں پایا۔ تو میں نے چر خا ہی توڑ ڈالا
لہذا تم اس شخص کو دیکھو جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی عمر کی برکت سے آگاہ فرمایا اور اس کے وقت کا نتیجہ اس کو دکھایا۔ کس طرح اس نے مضبوط سے مضبوط اور بہتر سے بہتر کو اختیار کیا ۔ تا کہ وہ ان فوائد کو حاصل کرے جن کی طرف تم شوق سے دیکھتے ہو ۔ اور خصوصیتوں اور فضیلتوں سےسرفراز ہو۔
حضرت شطیبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ۔ حضرت شیخ احمد بن ابوالحواری رضی اللہ عنہ نے حضرت شیخ ابوسلیمان دارانی رضی اللہ عنہ سے کہا ۔مجھ کو بنی اسرائیل پر رشک آتا ہے۔ حضرت ابوسلیمان نے دریافت کیا ۔ آپ کو بنی اسرائیل پر کس شے میں رشک آتا ہے۔ حضرت احمد نے کہا: وہ آٹھ سو سال تک جنگلوں میں رہے۔ یہاں تک کہ وہ پرانی گھاس کی طرح زرد اور کمان کی طرح ٹیڑھے اور تانت کی طرح لاغر ہو گئے ۔
حضرت ابو سلیمان نے فرمایا – میں نہیں گمان کرتا ہوں کہ آپ نے کسی بہترین شے پر رشک کیا ہے ۔ یہ قابل رشک شے نہیں ہے۔ اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ ہم سے یہ نہیں چاہتا ہے کہ ہمارے چمڑے خشک ہو کر ہماری ہڈیوں میں چمٹ جائیں۔ وہ ہم سے صرف اس میں صدق نیت چاہتا ہے جو اس کے پاس ہے۔ اور نیت اگر دس دن میں صادق ہو جائے ۔ تو وہ ان فضائل اور درجات کو حاصل کر لیتا ہے۔ جن کو دوسرے لوگ اپنی لمبی عمروں میں بھی نہیں حاصل کرپاتے ہیں۔
اور قوت القلوب میں بیان فرمایا ہے :۔ عمر میں برکت :- یہ ہے کہ تم اپنی مختصر عمر میں اپنی بیداری سے وہ مقامات اور اسرار حاصل کر لو ، جو دوسرے شخص نے اپنی لمبی عمر میں اپنی غفلت سے کو دیا ہے۔ یعنی تمہارے سامنے وہ مقامات ایک سال میں آجا ئیں ، جو اس کے سامنے بیس سال میں آئیں۔ اور مقربین میں سے خواص ، مقامات قرب میں اللہ تعالیٰ کی صفات کی تجلی کے وقت بلند درجات حاصل کر لیتے ہیں۔ اور ان اوقات میں وہ اپنے تھوڑے سے اذکار اور قلبی اعمال سے فوت شدہ اعمال کی تلافی کر لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذکر یا تسبیح یا تہلیل ، یاحمد وثناء یا تد برو تبصر ہ یا فکر و تذکرہ کا ہر نذره، قرب کے مشاہدہ اور رب تعالیٰ کے وجدان ( پالینے ) اور دوست کی طرف نظر کرنے اور قریب ( اللہ تعالیٰ ) سے نزدیک ہونے کے لئے ، ان غافلین کے پہاڑ جیسے اعمال سے افضل ہے ، جو اپنے نفوس کو دیکھتے اور مخلوق کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔
اور عارفین کی مثال :- ان کے قرب اور حضور کے وقت ، اپنی شہادت سے ان کے فنا ہونے اور اپنی امانت اور عہد کے رعایت کرنے میں ، شب قدر میں عمل کرنے والے کی طرح ہے۔ شب قدر میں عمل کرنا، اس شخص کے لئے جو اس کے موافق عمل کرتا ہے، ہزار مہینے کے عمل سے افضل ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے :- عارف کی ہر رات شب قدر کے برابر ہے۔ لہذاعمر میں برکت ۔ مختصر زمانے میں بڑے بڑے فوائد کا حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ پہلے ) بیان کیا جا چکا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں