عمل کا بندے سے منسوب ہونا (بارھواں باب)

عمل کا بندے سے منسوب ہونا کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 123 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
عمل کا جذبہ اللہ ہی پیدا کرتے ہیں پس سب تعریفیں ہمیشہ اللہ تعالی کیلئے ہیں۔ اس حیثیت سے کہ اس نے اس دنیا میں بندےکے اندر عمل پیدا کیا۔ اور پھر ہمارے اندر اس کیلئے انتہائی آرزو اور تمنا عطا کی ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
123) إِذَا أَرَادَ أَنْ يُظْهِرَ فَضْلَهُ عَلَيْكَ خَلَقَ وَنَسَبَ إِلَيْكَ.
جب اللہ تعالی نے تمہارے اوپر اپنا فضل و کرم ظاہر کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے تمہارے اندرعمل پیدا کیا اور اس کو تمہاری طرف منسوب کیا
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ تعالی نے مثبت اور اختیار کے ساتھ فاعل ہے۔
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ اللہ تعالی سے جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن وہ لوگ سوال کیسے
جائیں گے۔ یعنی جو کچھ اللہ تعالی کرتا ہے اس کے متعلق حقیقت کے اعتبار سے سوال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان سے اس کے متعلق شریعت کے اعتبار سے سوال کیا جائے گا۔
پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی تین قسموں میں تقسیم فرمائی ہے۔
پہلی قسم : وہ لوگ ہیں ، جن کو انتظام کیلئے پیدا کیا ۔ اس لیے ان کے اندر اپنے اسم پاک منتقم اور اسم پاک قہار کی تجلی ظاہر کی۔ اور اپنی حکمت کے ساتھ ان کے اوپر نافرمانی کی صورت ظاہر کی، اور اپنے عدل اور قہر کے ساتھ اس کی نسبت ان کی طرف کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَلَو شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ – وَلَو شَاءَ رَبُّكَ مَا أَشْرَكُوا اگر تمہارا رب چاہتا تو وہ لوگ اس کو نہ کرتے ۔ اور تمہارا رب چاہتا ، تو وہ لوگ شرک نہ کرتے
پس ان کے اوپر نسبت ، اور حکمت کے ظاہر کرنے کے اعتبار سے حجت قائم ہوئی۔
وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ اور تمہارا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے اور ان پر اللہ تعالی نے ظلم نہیں کیا ، بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں
دوسری قسم : وہ لوگ ہیں، جن کو اللہ تعالی نےحلم یعنی برداشت کیلئے پیدا کیا تا کہ ان کے اندر اپنے اسم پاک حلیم اور اسم پاک رحیم کی تجلی ظاہر کرے۔ ان کے اوپر نافرمانی جاری کی ۔ اور ان کو ایمان سے آراستہ کیا۔ پس وہ نافرمانی کی بنا پر سزا کے مستحق ہوئے۔ لیکن اللہ تعالی نے اپنے حلم اور رحم سے ان کو معاف فرما دیا۔ اور ان کو جنت میں داخل فرمایا:-
تیسری قسم : وہ لوگ ہیں ، جن کو اللہ تعالی نے بخشش کرنے کیلئے تیار کیا تا کہ ان کے اندر اپنے اسم پاک کریم اور اسم پاک رحیم کی تجلی ظاہر کرے ۔ ان کے اندر طاعت اور احسان کو پید ا کیا اور ان کو اسلام اور احسان کے ساتھ آراستہ کیا ۔ اور اکثر اوقات ان کے اندر احسان کے ساتھ مزیدتجلی کی۔ پھر ان کو وسیع باغیچہ میں داخل کیا اور ان کو اللہ رحمن کی صورت کی طرف دیکھنے سے شاد کام کیا ۔ تو جب اللہ تعالیٰ تم کو ان بزرگوں سے ملانا چاہتا ہے۔ تو تم کو مختلف قسم کی طاعتوں کیلئے تیار کرتا ہے اور تمہارے اندر نیکیاں کرنے کی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر اس فعل کو تمہاری طرف سے منسوب کر دیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے : اے میرے بندے تو نے فلاں نیکی کی ہے۔ تو میں تم کو اس عمل کی بناء پر اجر دیتا ہوں :۔ میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اور اپنے عمل کے ذریعہ ترقی کر کے اپنے مقام پر اپنی جاؤ۔ اور تمہارا امقام وہی ہے، جہاں تمہارا عمل ختم ہو جائے ۔ اللہ تعالی فرماتاہے۔
كُلّٗا ‌نُّمِدُّ هَٰٓؤُلَآءِ وَهَٰٓؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّكَۚ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحۡظُورًا ٱنظُرۡ كَيۡفَ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٖۚ وَلَلۡأٓخِرَةُ أَكۡبَرُ دَرَجَٰتٖ وَأَكۡبَرُ تَفۡضِيلٗا آپ کے رب کی بخشش سے ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں اور ان کی بھی اور تمہارے رب کی بخش کسی کیلئے بند نہیں ہے۔ دیکھئے ! ہم نے ایک کو دوسرے پر کس طرح فضیلت دی ہے اور البتہ آخرت درجوں کے اعتبار سے بھی ، اور فضیلت کے اعتبار سے بھی بہت بڑی ہے اور دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:۔
ادْخُلُو الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ تم لوگ اپنے ان اعمال کے صلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ جوتم دنیا میں کرتے تھے
لہذا اے انسان ! تمہارے لیے یہ مناسب ہے کہ بادشاہ اللہ تعالی کے ساتھ با ادب رہو اور نقص اور نافرمانی کو اس کی طرف منسوب نہ کرو تم کو صرف تمہارے نفس اور شیطان نے بہکا یا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے:۔ فَلَا تَغرَّ نَكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنيا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغُرُورُ پس تم لوگوں کو دنیا کی زندگی ہر گز دھوکہ نہ دے اور نہ تم لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف سے دھو کہ دینے والا شیطان دھوکہ دے۔
پس جو کمال اور خوبی ہو، وہ اللہ بزرگ و برتر کی طرف منسوب کرو اور جو نقصان و نا فرمانی ہو وہ نفس اور شیطان کے رومال میں پونچھ دو۔
خیر کی نسبت اللہ کی طرف اور نقصان کی نسبت اپنے نفس کی طرف کرے حضرت سہل بن عبد اللہ نے فرمایا ہے۔ جب بندہ کوئی نیک عمل کرتا ہے اور کہتا ہے ۔ اے رب تونے اپنے فضل سے مجھ کو نیک کام میں استعمال کیا۔ اور نیک کام میں تو نے میری مددفرمائی اور تو نے نیکی کو میرے لئے آسان کر دیا تو اللہ تعالی اس کی تعریف کرتا ہے اور فرماتا ہے:۔ اے میرے بندے ! بلکہ تو نے میری طاعت کی اور تو میرے قریب ہوا۔ اور جب بندہ اپنے نفس کی طرف نظر کرتا ہے اور کہتا ہے:۔ میں نے عمل کیا اور میں نےاطاعت کی اور میں قریب ہوا۔ تو اللہ تعالی اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے:۔ اے بندے میں نے تجھ کو عمل کی توفیق دی میں نے نیک عمل کیلئے تیری امداد فرمائی اور اس کو تیرے لیے آسان کر دیا۔
اور بندہ جب کوئی برائی کرتا ہے، اور کہتا ہے : اے میرے رب ! تو نے یہ میری تقدیر میں لکھا تھا۔ اور تو نے ہی یہ فیصلہ کیا تھا۔ اور یہ تیرا ہی حکم تھا تو اللہ عزوجل غصہ میں آکر فرماتا ہے :- اے میرے بندے ! بلکہ تو نے برا کیا، اور تو نے جہالت اور نافرمانی کی اور ۔ جب بندہ کہتا ہے :۔ اے میرے رب! میں نے اپنے او پر ظلم کیا اور میں نے برا کیا اور میں نے نادانی کی۔ تو اللہ عزوجل اس کے اوپر توجہ کرتا ہے، اور فرماتا ہے:۔ اے میرے بندے ایہ فیصلہ میں نے کیا تھا اور یہ میں نے تیری تقدیر میں لکھا تھا۔ جا، میں نے تجھ کو بخش دیا۔ اور تیرے اوپر کرم کیا اور تیرے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائی۔ تو جو عمل اللہ تعالی نے بندے کے اندر پیدا کر کے اس کے ساتھ منسوب کیا اس نسبت کے سبب وہ تعریف اور برائی کامستحق ہوتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں