غفلتوں کی نجاست حکمت نمبر13
غفلتوں کی نجاست کے عنوان سے باب اول میں حکمت نمبر13 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب قلب اپنی خواہشات کے مقام سے منتقل ہو جاتا ، اور اپنی غفلتوں کی آلودگی سے پاک ہو جاتا ہے تو وہ اپنے رب اللہ تعالیٰ کے حضور میں پہنچ جاتا ہے۔ اور اس کے قرب کے مشاہدے کی نعمت حاصل کرتا ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:
أَمْ كَيْفَ يَطْمَعُ أَنْ يَدْخُلَ حَضْرَةَ اللهِ وَهُوَ لَمْ يَتَطَهَّرْ مِنْ جَنَابَةِ غَفَلاَتِهِ
یا کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں داخل ہونے کی خواہش کرتا ہے۔ جب کہ وہ اپنی غفلتوں کی نجاست سے پاک نہیں ہوا ۔
حضور کسے کہتے ہیں اور اس کی اقسام
حضور کے معنی ، قلب کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ اور حضور کی تین قسمیں ہیں:۔
پہلی قسم حضور قلب، دوسری قسم حضور ارواح، تیری قسم: حضور اسرار –
پہلی قسم ، حضور قلب : سائرین (مقامات میں سیر کرنے والوں ) کیلئے ہے۔
دوسری قسم حضور ارواح: مستشرفین (بلند مقامات کی طرف ترقی کرنے والوں ) کے لئے ہے۔
تیری قسم حضور اسرار: واصلین متمكنين (اللہ تعالیٰ کے حضور میں مضبوطی سے قائم ہونے والوں ) کے لئے ہے۔
یا تم اس طرح کہو:۔ حضور قلب اہل مراقبہ کے لئے اور حضور ارواح اہل مشاہدہ کے لئے اور حضور اسرار اہل مکالمہ (کلام کرنے والوں)کے لئے ہے۔
اس کی حقیقت یہ ہے کہ روح جب تک غفلت اور حضور میں پھرتی ہے۔ (یعنی کبھی غفلت میں ہوتی ہے اور کبھی حضور میں تو وہ حضور قلوب کے مقام میں ہوتی ہے اور جب وہ وصال سے راحت پا جاتی ہے تو وہ حضور ارواح کے مقام میں پہنچ جاتی ہے۔ اور جب تمکن کی صفت سے موصوف ہو کر اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سر ہو جاتی ہے۔ تو اس کا نام سر ہو جاتا ہے۔ اور اب وہ حضور اسرار کے مقام میں ہوتی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا حضور مقدس دمنزہ ( پاک وصاف ) اور بلند ہے۔ اس میں صرف پاکیزہ لوگ ہی داخل ہوتے ہیں۔ اس کے حضور میں نا پاک قلب کا داخل ہونا حرام ہے اور قلب کی نا پا کی اللہ تعالیٰ سے قلب کو غافل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقۡرَبُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنتُمۡ سُكَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَعۡلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغۡتَسِلُواْ
اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اس وقت تک کہ تم اپنی کہی ہوئی ہاتوں کو بخوبی سمجھنے لگو اور ناپاکی کی حالت میں بھی مگر یہ کہ تم سفر میں ہو۔ یہاں تک کہ تم غسل کرلو۔
یعنی حضور کی نماز کے قریب نہ جاؤ ، جب تم دنیا کی محبت اور ماسوی کے مشاہدے کے نشے میں ہو۔ یہانتک کہ تم ہوشیار ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں جو کچھ کہتے ہو اس کو سمجھو اور غور کرو ۔ اور نیز غفلت اور ماسوی کے مشاہدے کے جماع سے جب تم نا پاک ہو۔ یہاں تک کہ غیب کے پانی سے غسل کر کے تم پاک ہو جاؤ۔ اور غیب کے پانی کی طرف حضرت حاتمی رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ طبقات شعرانیہ ترجمہ ابو المواهب میں ان کا قول ہے:
تَوَضَّأ بماءِ الغَيبِ إن كُنتَ ذا سِرٍّ وإلَاّ تَيَمَّم بالصَّعِيدِ أو الصَّخر
تم غیب کے پانی سے وضو کر واگر تم صاحب راز ہو۔ ورنہ پاک مٹی یا پتھر سے تیمم کرو
وقّدَّم إمَامًا كُنتَ أنتَ إمَامَه وصَلِّ صلاة الظُّهرِ فى أول العصر
اور تو جس کے سامنے ہے (یعنی حضرت نبی کریم ﷺ کو اپنا امام بنا کر آگے کر ۔ اور ظہر کی نمازعصر کے پہلے پڑھ
فَهَذِي صَلاةُ العَارِفينَ بربّهِم فإن كنت منهم فانضح البرِّ بالبَحر
پس یہ عارفین باللہ کی نماز ہے۔ لہذا اگر تو ان میں سے ہے ۔ تو خشک زمین (یعنی شریعت ) کو سمندر (یعنی حقیقت) کے پانی سے سیراب کر
یعنی تم اللہ تعالیٰ کے مشاہدے کے پانی سے نفس کے مشاہدے سے پاک ہو جاؤ۔ یا تم باطن کے مشاہدے کے پانی سے ظاہر کے مشاہدے سے پاک ہو جاؤ۔ یا تم عالم غیب کے مشاہدے کے پانی سے عالم شہادت کے مشاہدے سے پاک ہو جاؤ۔ یا تم اللہ تعالیٰ کی معرفت کے پانی سے ماسوا کے مشاہدے سے پاک ہو جاؤ۔ کیونکہ یہ تمہارے اندر سے کل ما سوی کو غائب کر دے گا ۔ اور جب تم ماسوی اللہ کے مشاہدے سے پاک ہو جاؤ گے تو تم کل عیوب سے پاک ہو جاؤ گے۔
اور اسی طرح حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔
طَهرِ الْعَيْنَ بِالْمَدَامِعِ سَكْباً مِنْ شُهُودِ السَّوَى تَزُلْ كُلُّ عِلَّةٍ
تو ہمیشہ آنسو بہا کر ماسوا کے دیکھنے سے آنکھ کو پاک کر۔ کل عیوب دور ہو جائیں گے۔
اور یہ غیب کا پانی جبروت کے سمندروں کی صفائی سے ملکوت کے باغ کے تالابوں میں اترتا ہے۔ پھر رحمت کی بدلیاں اس کو اٹھالیتی ہیں۔ اور ہدایت کی ہوا ان بدلیوں کو چلاتی ہے۔ پھر پاکیزہ نفوس کی زمین پر اس کو برساتی ہے۔ لہذا اس پانی سے روشن قلوب کے نالے، اور پاکیزہ ارواح کی خلیجیں بھر جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے اس قول میں اس کی طرف اشارہ ہے:
أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَّةٌ بِقَدْرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زُبَدًا رَّابِياً
اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا۔ تو نالے اپنی وسعت کے مطابق بہنے لگے ۔ پھر پانی پر جھاگ ظاہر ہوا۔
علم نافع کی مثال
اللہ تعالٰی نے علم نافع (فائدہ دینے والے علم ) کو آسمان سے برسنے والے پانی کے مشابہ فرمایا۔ لہذا جس طرح بارش کے پانی سے اپنی وسعت اور گنجائش کے مطابق نالے اور تالاب بھر جاتے ہیں۔ اور چشمے اور نہریں بہنے لگتی ہیں۔ اسی طرح علم نافع عالم غیب کے آسمان سے عالم شہادت کی زمین پر اترتا ہے۔ تو اس علم سے قلوب کے نالے اپنے ظرف کی وسعت اور استعداد کے مطابق بہنے لگتے ہیں۔ اور جس طرح بارش کا پانی زمین کو کثافت اور گندگی سے پاک کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول پانی پر جھاگ ظاہر ہوا کا یہی مفہوم ہے۔ اسی طرح علم نافع نفس کو کثافتوں سے، اور قلب کو غیروں سے ، اور روح کو کدورتوں سے، اور سر کو انوار کو آلودہ کرنے والی ظلمتوں سے پاک کرتا ہے۔ اور یہی وہ پانی ہے جس کی طرف حضرت حاتمی نے اپنے قول غیب کے پانی سے وضو کر میں اشارہ فرمایا ہے۔
اور شہود: وحدت کا دیکھنا اور کثرت کی نفی کرنی ہے۔ یا عظمت کو عظمت کے ساتھ دیکھنا ہے۔ اور جو شخص اس حالت پر نہیں قائم ہوا ہے۔ اس کا غیب کے پانی سے بالکل پاک ہونا پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا پانی پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے ناممکن ہے۔ لہذا وہ تیمم کرے۔ کیونکہ بیماروں اور کمزوروں کی پاکیزگی کے لئے تمیم کی اجازت ہے۔ اور اسی طرف اپنے قول ور نہ تمیم کرو میں اشارہ فرمایا ہے۔ یعنی اگر تم کو قلب کی بیماری کی وجہ سے اصلی طہارت پر قدرت نہیں ہے۔ اور اصلی طہارت، ماسوی سے غائب ہونا ہے۔ اور قدرت نہ ہونے کی وجہ تمہارے قلب کی بیماری سچائی نہ ہونے کے ساتھ ہے۔ لہذا اب تم فرعی طہارت میں منتقل ہو جاؤ ۔ اور فرعی طہارت، ظاہری عبادت ہے۔ یعنی تم ظاہری عبادت میں مشغول ہو جاؤ ۔
یا تم اس طرح کہو: اگر تم کو حقیقی طہارت کی قدرت نہیں ہے۔ اور وہ باطنی طہارت ہے تو تم مجازی یعنی ظاہری طہارت کی طرف منتقل ہوجاؤ۔ یا تم اس طرح کہو: اگر تم کو مقربین کی طہارت کی قدرت نہیں ہے تو تم اہل یمین (داہنی طرف والے نیک لوگ) کی طہارت کی طرف منتقل ہوجاؤ ۔ یا تم اس طرح کہو: اگر تم کو اہل محبت کی طہارت کی قدرت نہیں ہے تو تم اہل، خدمت کی طہارت کی طرف منتقل ہوجاؤ ۔ کیونکہ ایک جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خدمت کے لئے قائم کیا ہے۔ اور ایک جماعت کو اپنی محبت کے لئے مخصوص کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
كُلّٗا نُّمِدُّ هَٰٓؤُلَآءِ وَهَٰٓؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّكَۚ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحۡظُورًا
تمہارے رب کی بخشش سے ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں اور ان کی بھی ۔ اور تمہارے رب کی بخشش بند نہیں ہے
پس اہل محبت کی طہارت ، فکر و نظر ہے۔ اور اہل خدمت کی طہارت، ظاہری عبادت مثلا نماز روزہ ، اور ذکر و تلاوت اور تعلیم وغیرہ۔ اور پوشیدہ عبادت مثلا خوف ور جا، اور زہد و ورع اور صبر و رضا و تسلیم ، اور رحمت و شفقت اور وہ سب جو بظا ہر نمایاں نہیں ہوتی ہیں۔ ان میں کوشش اور محنت کرنی ہےاور یہ اہل ظاہر کا تصوف ہے۔