غلطی اور خطا پر خاموشی کے عنوان سے بیسویں باب میں حکمت نمبر 181 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اس وقت بنده ، احسان کے سمندر میں غوطہ لگاتا اور ڈوب جاتا ہے۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کے مقام پر فائز ہو کر بیان کرتا ہے ۔ تو اگر اس سے کچھ غلطی یا لغزش بھی ہو جائے تو وہ خاموش نہیں ہوتا ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے :۔
181) مَنَ عَبَّرَ مِنْ بِسَاطِ إِحْسَانِهِ أَصْمَتَتْهُ الإِسَاءَةُ ، وَمَنْ عَبَّرَ مِنْ بِسَاطِ إِحْسَانِ اللهِ إِلَيْهِ لَمْ يَصْمُتْ إِذَا أَسَاءَ .
جو شخص اپنے احسان کے مقام سے بیان کرتا ہے۔ غلطی اور خطا اس کو خاموش کر دیتی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے احسان کے مقام میں قائم ہو کر بیان کرتا ہے، وہ غلطی اور لغزش ہونے پر بھی خاموش نہیں ہوتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ بیان کرنے والے ۔ وہ وعظ ونصیحت کرنے والے ہیں۔ جو اللہ تعالی کے بندوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں اور ان علوم و عطیات اور فتوحات و کرامات کو بیان کرتے ہیں ۔
جو اللہ تعالی نے ان کو عطا فر مایا ہے۔ ان بیان کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم : علمائے کرام ہیں اور دوسری قسم عارفین باللہ ہیں۔
یا تم اس طرح کہو:۔ ایک قسم :- اہل حجاب ہیں اور دوسرے قسم ۔ اہل فتح ہیں۔ پہلی قسم ، اہل حجاب علما :- وہ لوگ اپنے نفوس کے احسان کے مقام سے بیان کرتے ہیں۔ لہذاوہ اس طرح کہتے ہیں:۔ ہم نے ایسا کیا اور ہم نے ایسا دیکھا اور ہمارے اوپر اس چیز کا دروازہ کھول دیا گیا اور اے لوگو ! تم اس کو کہو اور اس کو چھوڑ دو ۔ تو جب وہ لوگ کسی لغزش یا خطا میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو وہ اللہ تعالیٰ سے شرمندہ ہو کر اور اس خوف سے کہ وہ لوگوں کو ایسے فعل کے کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ جو وہ خود نہیں کرتے ہیں ، خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اپنے نفوس کے ساتھ باقی اور اپنے رب سے محجوب ہیں۔ لہذا جب وہ طاعت کرتے ہیں، تو اس سے خوش ہوتے اور اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اور جب ان سے کوئی لغزش یا خطا سرزد ہوتی ہے۔ تو وہ رنج و غم کرتے اور شرمندہ ہوتے ہیں۔ تو چونکہ وہ اپنے نفوس کے احسان کے مقام سے بیان کرتے ہیں، اس لئے خطا اور لغزش ان کو خاموش کر دیتی ہے۔
اور دوسری قسم ، اہل فتح عارفین : ۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے احسان کے مقام میں قائم ہو کر بیان کرتے ہیں۔ وہ مخلوق کے دیکھنے سے غائب ، اپنے نفوس سے فانی اور اپنے رب کے ساتھ باقی ہیں۔ لہذا وہ لوگ جب ان معارف و اسرار اور علوم و انوار اور کرامات وفتوحات اور عطیات کو بیان کرتے ہیں۔ جو اللہ تعالی نے ان کو عطا فرمایا ہے۔ اور نصیحت کرتے ہیں۔ تو وہ نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے منع کرتے ہیں۔ اور ان کا بیان ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اور ان کی نصیحت لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ پھر اگر ان سے کوئی لغزش اور خطا سرزد ہوتی ہے، تو ان کی لغزش اور خطا ان کو خاموش نہیں کرتی ہے۔ اس لئے کہ ان کی لغزش اور خطا ان کے نفس کی طرف سے ہوتی ہے لیکن ان کا بیان اللہ تعالیٰ کے احسان کے مقام سے ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو کوئی شے مکدر نہیں کر سکتی ہے اور ہم نے جو یہ کہا ہے ۔ ان کی خطا ان کے نفس کی طرف سے ہوتی ہے یہ صرف ادب کے لحاظ سے کہا ہے ۔ ورنہ چونکہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے تصرف کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ہیں اس لئے ان کی خطا ان کو خاموش نہیں کرتی ہے۔ کیونکہ وہ احسان کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور وہ کائینات میں اللہ تعالی کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ہیں۔ نیز جو شخص اپنے نفس کے مقام سے بیان کرتا ہے ۔ اس کے عیوب اس کو پکار کر کہتے ہیں
خاموش رہو! کیا تم کو اپنا بر افعل اور براو صف یاد نہیں ہے ؟ لہذاوہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو جاتا ہے۔
اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے احسان کے مقام سے بیان کرتا ہے۔ اس کے عیوب اس سے غائب ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مولائے حقیقی کی خوبیوں میں گم ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتا ہے۔ لہذا جب وہ کچھ بیان کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالی کی معرفت کا نور ، اس کے بندوں کے قلوب کی طرف بڑھتا ہے۔ اس لئے اس کا بیان لوگوں کے اندر سرایت کر جاتا ہے اور نصیحت ان کے قلوب میں بیٹھ جاتی ہے ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی