فراست کی قسمیں(تیئسواں باب)

فراست کی قسمیں کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 215 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ جب بیان میں مستغرق ہو جاتے تھے۔ اور ان کے اوپر علوم کا فیضان ہوتا تھا۔ تو وہ فرماتے تھے ۔ کیا کوئی شخص ہے، جو ہماری زبان سے نکلے ہوئے ان اسرار کو یاد کرے، یا لکھ لے۔ تم لوگ ایک ایسے شخص کے پاس (یعنی میرے پاس ) آؤ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کا سمندر بنایا ہے۔ یا اس قسم کی بات فرمایا کرتے تھے ۔ اور ان کی مجلس میں ان کے زمانے کے اکابر اور مشہور علماء و صوفیائے کرام حاضر ہوتے تھے ۔ مثلا حضرت عز الدین بن عبد السلام اور ابن حاجب، اور ابن عصفور اور ابن دقیق العبد اور عبدالعظیم منذری و غیر هم – حضرت عزالدین بن عبد السلام جب حضرت کا کلام سنتے تھے تو فرماتے تھے ۔ یہ کلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے اقرار سے قریب ہے۔
اور حضرت شیخ تقی الدین بن دقیق العبد فرماتے تھے ۔ اللہ کی قسم، میں نے ابوالحسن شاذلی سے زیادہ کوئی عارف باللہ نہیں دیکھا۔ حضرت شیخ ابوالحسن ہر سال قاہرہ تشریف لے جاتے تھے۔ ان کی مجلس میں قاہرہ اور مصر کے اطراف کے لوگ جمع ہوتے تھے ۔ اور وہ لوگوں کو علوم و مواہب ،ر ہانی اور اسرار لدنی سے فیض یاب فرماتے تھے ۔ جب حضرت شیخ ابوالحسن وفات فرما گئے ۔ اور حضرت ابوالعباس مرسی ان کے خلیفہ ہوئے ، تو وہ بھی اس طرح قاہرہ تشریف لے جاتے تھے، جس طرح کہ ان کے شیخ تشریف لے جاتے تھے۔ ان کے پاس مصر کے اکابر اور علمائے کرام کی ایک جماعت جمع ہوئی ۔ ان لوگوں نے کہا – اے شیخ حضرت شیخ ابواالحسن جب یہاں تشریف لاتے تھے ۔ اور ہم ان کی تشریف آوری سے برکت حاصل کرتے تھے۔ تو ہم ان سے اللہ تعالیٰ کی معارف واسرار سنتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کا قائم مقام اور خلیفہ بنایا ہے۔ لہذا ہم لوگوں کی خواہش ہے، کہ آپ کے بیان سے برکت حاصل کریں۔ حضرت ابو العباس نے ان لوگوں سے فرمایا :- انشاء اللہ کل صبح کے وقت ہم آپ لوگوں کے یہاں آئیں گے ۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے اپنے مریدین کو مصر کی طرف چلنے کا حکم دیا اور حضرت امام قشیری رضی اللہ عنہ کے رسالہ قشیریہ کو ساتھ لے چلنے کا حکم دیا۔ ابن صباغ نے فرمایا ہے :۔ ہم رسالہ قشیریہ لے کر حضرت عمرو بن العاص کی جامع مسجد میں پہنچے ۔ ہم نے جامع مسجد کو اہل مصر کے اکابر اور علمائے کرام سے بھری ہوئی پایا۔ حضرت نے فرمایا ۔ اس مجلس میں نقد لینے والے بھی ہیں اور معتقد بھی۔ ابن صباغ نے فرمایا ہے :۔ ہم جامع مسجد کے مشرقی حصہ میں بیٹھ گئے ۔ حضرت نے فرمایا :- رسالہ قشیریہ نکالو۔ میں نے رسالہ نکالا۔ حضرت نے فرمایا ۔ پڑھو ۔ میں نے کہا ۔ کیا پڑھوں؟ حضرت نے فرمایا:- جو تمہارے سامنے کھل جائے ۔ لہذا ہم نے کتاب کھولی تو فراست کا باب ہمارے سامنے کھلا۔ میں نے باب فراست کے ابتدائی حصے کو پڑھا۔ جب میں حضرت رسول اللہ ﷺ کی حدیث شریف کو پڑھ کر فارغ ہوا۔ تو حضرت نے فرمایا ۔ کتاب بند کردو۔ پھر فرمایا:۔ فراست کی چار قسمیں ہیں:۔ پہلی قسم ۔ مومنین کی فراست ۔ دوسری قسم – موقنین کی فراست – تیسری قسم : اولیا اللہ کی فراست -چوتھی قسم :- صدیقین کی فراست ۔
پہلی قسم مومنین کی فراست :۔ اس کا حال ایسا ایسا ہے۔ اور اس کی مدد اس اس جگہ سے آتی ہے۔ پھر حضرت نے اس موضوع پر بہت بڑی تقریر فرمائی۔ پھر وہ اس موضوع سے موقنین کی فراست کی طرف منتقل ہوئے ۔ اور نہایت اعلیٰ درجے کی تقریر فرمائی ۔ پھر حضرت نے اولیائے کرام کی فراست بیان کرتے ہوئے فرمایا :- اولیائے کرام کی فراست کو فلاں فلاں مقام سے مددملتی ہے اور اس کا حال ایسا ایسا ہے۔ اور اس موضوع پر حضرت نے وہبی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی تقریر فرمائی۔ جو قطعا غیر کسبی تھا۔ یعنی کتابوں سے اس کا کچھ تعلق نہیں تھا۔ حاضرین مجلس کی عقل گم ہوگئی ۔ اور حضرت اس موضوع میں ظہر کی اذان تک مستغرق رہے۔ اور لوگ روتے رہے اور میں ان کی پیشانی سے پسینہ بہہ کر ان کی ڈاڑھی پر گرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اور ان کی داڑھی لمبی تھی۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے لطائف المنن میں بیان فرمایا ہے :۔ کہ میں حضرت شیخ ابوالحسن کے معاملے میں انکار کرنے والوں اور ان کے اوپر اعتراض کرنے والوں میں سے تھا۔ اور یہ انکار اور اعتراض – کسی ایسی شے کی بنا پر نہ تھا۔ جو میں نے ان سے سنی ہو۔ اور نہ کسی ایسی شے کی بنا پر تھا ، جس کی روایت ان کے بارے میں صحیح ہو ۔ یہاں تک کہ میرے اور ان کے بعض مریدین کے درمیان بحث کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ اور یہ واقعہ ان کی صحبت سے میرے فیض یاب ہونے کے پہلے کا ہے۔ اور میں نے اس مرید سے کہا ۔ صرف علم ظاہر رکھنے والے علم ہی کامل ہیں۔ اور یہ لوگ یعنی صوفیا ئے کرام بڑی بڑی باتوں کا دعوی کرتے ہیں۔ حالانکہ ظاہری شریعت ان کا انکار کرتی ہے۔ اس مرید نے کہا ۔ جب تم شیخ کی خدمت میں حاضر ہو گے ۔ تب تم کو وہ بات معلوم ہو گی ۔ جو شیخ نے مجھ سے اس روز فرمایا ، جس روز تم نے مجھ سے بحث شروع کی ہے۔ پھر اس مرید نے کہا ۔ میں حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو حضرت شیخ نے پہلے ہی مجھ سے فرمایا ۔ یہ لوگ پتھر کے مثل ہیں جو تم سے خطا کر جائے ، وہ اس سے بہتر ہے جو تم کو لگ جائے ۔ یہ سن کر میں نے یہ سمجھا ، کہ میری بات شیخ کو کشف سے معلوم ہوگئی ۔ پھر اس مرید نے کہا :- میری زندگی کی قسم میں بارہ سال سے حضرت شیخ کی خدمت میں ہوں۔ میں نے ان سے کوئی شے ایسی نہیں سنی ، جس کا انکار علم ظاہر کرتا ہو۔ ہاں ، ان لوگوں کے علم کے خلاف ہو سکتا ہے۔ ان کی ایذا رسانی کے لئے ان کی طرف سے کچھ فرضی باتیں نقل کرتے ہیں۔
پھر حضرت شیخ ابوالحسن کے ساتھ میری صحبت کا سبب یہ ہوا ۔ میرے اور اس مرید کے درمیان بحث ہونے کے بعد میں نے اپنے دل میں کہا ۔ اس بحث کو چھوڑو ۔ میں خود جا کر شیخ ابوالحسن کو دیکھونگا ۔ کیونکہ اہل حق کی ایک امارت (امیری) ہوتی ہے، جس کی شان پوشید ہ نہیں رہتی ہے۔ لہذا میں شیخ موصوف کی مجلس میں حاضر ہوا، تو میں نے ان کو وہی باتیں کہتے ہوئے پایا ، جنکا حکم حضرت شارع علیہ السلام نے دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا :- اول :- اسلام ہے۔ اور دوسرا ۔ ایمان ہے۔ اور تیسرا :- احسان ہے۔ اور اگر تم چاہو تو اس طرح کہو :- اول :- عبادت ہے ۔ اوردوسرا: – عبودیت ہے۔ اور تیسرا یہ عبودت ہے۔ اور اگر تم چاہو تو اس طرح کہو :- اول :- شریعت ہے اور دوسرا: یہ حقیقت ہے ۔ اور تیسرا: تحقق ہے، یا اس کے مثل ۔
اور وہ برابر یہی کہتے رہے۔ اگر تم چاہو تو اس طرح کہو۔ اگر تم چاہو تو اس طرح کہو۔
یہاں تک کہ انہوں نے میری عقل کو مبہوت کر دیا۔ اور میں نے یہ جان لیا کہ در حقیقت یہ شخص بحر الہٰی اور مد در بانی سے چلو بھر رہا ہے۔ یعنی فیضیاب ہو رہا ہے۔ لہذا میرے دل میں جو کچھ بھی اعتراضات اور شک و شبہات تھے ، سب کو اللہ تعالیٰ نے دور کر دیا۔ لہذا حقائق ، جو اللہ تعالیٰ اپنے اولیائے کرام کے قلوب پر فیضان کرتا ہے۔ پھر وہ اس کو بیان کرتے ہیں۔ پہلے وہ مجمل ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ یاد دلاتے ہیں تب ان کے معانی واضح ہوتے ہیں، ان حقائق میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو عقلیں سمجھتی ہیں ۔ اور وہ منقول کے مطابق ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو عقلیں نہیں سمجھتی ہیں۔ لہذا تم ان کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور ان کو سننے کے ساتھ ہی ان پر تنقید نہ کرو ۔ اور حضرت ابن فارض رضی اللہ عنہ کے کلام میں غور کرو :-
فَثَمَّ وَرَاءُ النَّقْلِ عِلْمٌ يَدِقُ عَنْ مَدَارِكِ غَايَاتِ الْعُقُولِ السَّلِيمَةِ
وہاں کتاب کے علاوہ بھی ایک علم ہے۔ جو صحیح عقلوں کی انتہائی سمجھ سے بھی باریک ہے
اس کے باوجود حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ۔ جب تمہارا صحیح کشف بھی قرآن وسنت کے خلاف ہو تو تم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر عمل کرو اور اپنے کشف کو چھوڑ دو۔ اور تم اپنے نفس سے کہو۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب وسنت میں میری حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ کشف دالہام میں اس نے میری ذمہ داری نہیں لی ہے۔
اسی طرح حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا ہے :۔ جب میرے قلب میں کشف سے کوئی نکتہ پیدا ہوتا ہے۔ تو میں اس کو کتاب وسنت کی شہادت کے بغیر قبول نہیں کرتا ہوں ۔ اور اس پر عمل نہ کرنے سے اس کے اہل پر تنقید لازم نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ علم وسیع ہے اور اس کے لئےظاہر اور باطن ہے۔ لہذا اگر تم ان کو نہ سمجھ سکو تو بھی تم ان کو تسلیم کرو۔ اور جن کو تم سمجھتے ہیں ۔ ان کو بھی انہیں میں شامل کردو جن کو تم نہیں سمجھتے ہو۔ (یعنی تم اپنے علم سمجھ کو چھوڑ کر بے علم اور نا سمجھ بن جاؤ ) حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ۔
صدیقین کے مجلس کے آداب میں سے یہ ہے کہ جو تم جانتے ہو، اس کو بھی چھوڑ دو۔ تا کہ تم پوشید ہ سر کے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرو۔
یعنی صد یقین ( عارفین ) کے پاس جو پوشیدہ علم ہے۔ اگر تم اس کے حاصل کرنے میں کامیاب ہونا چاہتے ہو۔ تو ان کے اقوال وافعال و احوال کو پرکھنا چھوڑ دو ۔ کیونکہ جب تک تم اپنے علم کے ترازو سے ان کو تولتے اور پر کھتے رہو گے۔ اس وقت تک تم ان کے پوشیدہ علم کی خوشبو کو نہ سونگھ سکو گے۔
ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے یہ ہمارے طریقت میں سے وہی شخص کچھ پا سکتا ہے، جو محال کی بھی تصدیق کرے۔ لہذا اے میرے بھائی اگر تم چاہتے ہو کہ عارفین کے اسرار و عطیات کی ہلکی اور خوشبودار ہوا تمہارے پاس پہنچے۔ تو تم جو کچھ جانتے ہو اس کوبھی نہ جانی ہوئی چیز وں کی طرح چھوڑ کر لاعلم بن جاؤ۔ اور اپنے علم وعمل سے ہاتھ دھولو اور صرف ان علوم و معارف کے محتاج بن جاؤ جو ان کے ہاں ہیں ۔ جیسا کہ ہمارے شیخ طریقت حضرت ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا ، جس پر مجھ کو پورا اعتماد ہے۔ کہ حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ حضرت شیخ ابن مشیش رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنے علم کا ترازو لے کر گئے ۔ تو ان کو ولایت کی خوشبو نہیں ملی۔ پھر وہ واپس چلے آئے ۔ پھر اسی طرح وہ دوبارہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ لیکن جیسے گئے تھے ۔ ویسے ہی خالی ہاتھ واپس آئے۔ لیکن جب انہوں نے ترازو کو چھوڑ دیا۔ اور اپنے علم و عمل سے ہاتھ دھو کر ، ان کے پاس محتاج بن کر گئے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم و معارف سے مالا مال کر دیا۔ حضرت شیخ ابن مشیش نے ان سے فرمایا: اے ابوالحسن! تم اپنے علم و عمل سے خالی ہو کر اور محتاج بن کر ہمارے پاس آئے۔ تو تم نے ہم سے دنیا و آخرت کی بے نیازی حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ذکر سے فائدہ پہنچائے ۔ اور ان علوم و اسرار سے ہم کو فیضیاب فرمائے ۔ جن سے ان کو فیضیاب فرمایا۔ یہاں تک کہ ہم ان کے وسیلے سے ایسی دولت سے مالا مال ہو جائیں ۔ جس کے ساتھ کوئی محتا جی نہیں ہوتی ہے ۔ آمین۔
اور وہ واردات جو حقائق اور علوم کے ساتھ تجلی کرتے ہیں۔ وہ انتہائی درجہ والوں کے واردات ہیں۔ لیکن ابتدائی درجہ والوں کے واردات — تو وہ طاقت ور قہاری ہوتے ہیں۔ یا ہلا دینے والے خوف کے ساتھ یا بے قرار کر دینے والے شوق کے ساتھ ، تا کہ ان کو ان کی خواہشات اور عادات سے علیحدہ کر دیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں