قضا و قدر کے اسرار مکتوب نمبر 289دفتر اول

 قضا و قدر کے اسرار اور اس کے مناسب بیان میں مولانا بدرالدین کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے قضا و قدر کے اسرار کو اپنے خاص بندوں پر ظاہر کیا اور عوام سے اس لئے چھپا رکھا کہ وہ راہ راست سے گمراہ نہ ہو جائیں اور سیدھے راستہ سے بہک نہ جائیں اور آنحضرت ﷺپر کہ جن کے ساتھ حجت بالغہ کامل ہوئی اور با فرمانبرداروں کے باطل عذر قطع ہوئے اور ان کی نیکوکار آل اور پرہیز گار اصحاب پر جو قدر کے ساتھ ایمان لائے اور قضا سے راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوۃ و سلام ہو۔ 

اس کے بعد واضح ہو کہ مسئلہ قضا و قدر میں اکثر لوگ حیران اور گمراہ ہورہے ہیں اور اس مسئلہ کے اکثر دیکھنے والوں پر اس قسم کے باطل وہم و خیال غالب ہیں کہ جو کچھ بندہ سے اپنے اختیار سے صادر ہوتا ہے، اس میں جبر کے قائل ہیں اور بعض(قدریہ) بندے کے عمل کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب ہی نہیں کرتے اوران دونوں نے طریق اعتدال کی بجائے افراط و تفریط اختیار کیا ہے جس کو صراط مستقیم یا راه راست کہا جا سکتا ہے اور اس صراط مستقیم کی تو فیق حق تعالیٰ نے فرقہ ناجیہ کو عطا فرمائی ہے جن کو اہل سنت و جماعت (رضی اللہ تعالیٰ عنہم وعن اسلافہم و اخلافہم)کہتے ہیں جنہوں نے افراط و تفریط کو چھوڑ کر ان کے درمیان وسط اور میانہ روی کو اختیار کیا ہے۔ 

حضرت ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جعفر بن محمد صادق رضی الله تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ اے رسول الله ﷺکے بیٹے کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی امراپنے بندوں کے سپرد کیا ہے تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے برتر ہے کہ اپنی ربوبیت اپنے بندوں کے سپردکرے۔ 

پھر عرض کیا کہ کیا ان کو جبر کرتا ہے؟ فرمایا کہ یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ پہلے کسی بات پر مجبور کرے اور پھر اس پر عذاب دے۔ 

پھر عرض کیا کہ یہ بات کس طرح ہے؟امام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے بین بین ہے یعنی نہ جبر کرتا ہے اور نہ سپرد کرتا ہے اور نہ اکراه اورتسلیط ہے (یعنی نہ جبر اور غلبہ سے کسی کام پر لگاتا ہے۔) اسی واسطے اہلسنت و جماعت کے لوگ فرماتے ہیں کہ بندوں کے اختیاری فعل خلق و ایجاد کی حیثیت سے الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہیں اور کسب و اکتساب کی کوشش و سعی کے تعلق کے باعث بندوں کی طرف منسوب ہیں ۔ بندوں کی حرکت کو حق تعالیٰ کی قدرت کی طرف منسوب کرنے کے اعتبار سے خلق کہتے ہیں اور بندے کی قدرت کی طرف منسوب کرنے کی اعتبار سے اس کا نام کسب رکھتے ہیں۔ برخلاف (امام ابو الحسن)اشعری کے کہ وہ اس طرف گیا ہے کہ بندوں کا اپنے افعال میں ہرگز کچھ اختیار نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بطریق جرى العادت (یعنی عادت اللہ اسی طرح جاری ہے) بندوں کے اختیار کے بعد افعال کو ایجاد کیا ہے کیونکہ وہ قدرت حادثہ کے لئے کوئی متاثر نہیں جانتا۔ یہ مذہب بھی جبر کی طرف راجع ہے۔ اس واسطے اس کو جبرالمتوسط کہتے ہیں۔ 

استاد ابواسحاق اسفرائی اصل فعل میں قدرت حادثہ کی تاثیر کا اور دونوں قد رتوں کے مجموعہ سے فعل کے حاصل ہونے کا قائل ہے اور اس نے اثر واحد پر دومختلف جہتوں کے لحاظ سے دو موثروں کا جمع ہونا جائز قرار دیا ہے۔ 

قاضی ابوبکر باقلانی وصف فعل میں قدرت حادثہ کی تاثیر کا قائل ہے۔ اس طرح پر کہ اس فعل کو طاعت و معصیت کے ساتھ موصوف کیا جائے۔ 

اس خاکسار بنده ضعیف کے نزدیک مختار یہ ہے کہ اصل فعل دونوں میں قدرت حادثہ کی تاثیر ہے کیونکہ اصل کی تاثیر کے بغیر وصف کی تاثیر کے کچھ معنی نہیں ہیں اور وصف اس کا اثر ہے جو اسی پرمتفرع ہے یعنی اسی سے نکلا ہوا ہے لیکن وہ اصل فعل کی تاثیر کی محتاج ہے کیونکہ وصف کا وجود اصل کے وجود پر زائد ہے اور تاثیر کے قائل ہونے میں کوئی معذور نہیں ہے۔ 

اگرچہ یہ بات اشعری پرنا گوار ہے کیونکہ قدرت میں تاثیر کا ہونا بھی صواب اور بہتری کے زیادہ قریب ہے اور اشعری کامذہب در حقیقت دائر ہ جبر میں داخل ہے کیونکہ اس کے نزدیک ہرگز اختیار نہیں ہے اور نہ ہی قدرت حادثہ کی کوئی تاثیر ہے۔ سوائے اس کے فعل اختیاری جبریہ کے نزدیک فاعل کی طرف حقیقی طور پر منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ مجازی طور پر اور اشعری کے نزدیک حقیقی طور پر فاعل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر چہ اس کے لئے حقیقی طور پر اختیار ثابت نہیں کیونکرفعل حقیقی طور پر بندہ کی قدرت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ خواہ قدرت مجمل طور پرموثر ہو جیسا کہ اشعری کے سوا اہلسنت و جماعت کا مذہب ہے یا مدار محض ہو جیسا کہ اشعری کا مذہب ہے اور اس فرق سے اہل حق کا مذہب اہل باطل کے مذہب سے جدا ہو جاتا ہے۔ فعل کے فاعل کی طرف سے حقیقی طور پر نفی کرنی اور مجازی طور پر اس کے لئے ثابت کرنا جیسا کہ جبریہ کامذ ہب ہے محض کفر ہے اور ضرورت کا انکار ہے۔ 

اور صاحب تمہید نے کہا ہے کہ جبر یہ میں سے جو اس بات کا قائل ہے کہ بندہ سے فعل کا صار ہونا ظاہری اور مجازی طور پر ہے لیکن حقیقت میں اس کے لئے کوئی استطاعت و طاقت نہیں جیسا کہ درخت جو ہوا کے ہلانے سے ہوتا ہے۔ اسی طرح بندہ بھی درخت کی طرح مجبور ہے، یہ بات کفر ہے اور جس شخص کا یہ اعتقاد ہو وہ کافر ہے۔ 

اور نیز مذہب جبریہ میں اس بات کے قائل ہیں کہ افعال خواہ شر ہوں خواہ خیر حقیقی طور پر بندوں کے نہیں ہیں۔ بندے جو کچھ کرتے ہیں، ان کافاعل الله تعالیٰ ہی ہے۔ کبھی کفر ہے۔ 

اگر کوئی سوال کرے کہ جب بندہ کی قدرت کو افعال میں کچھ تاثیرنہیں اور نہ ہی حقیقت میں اس کا کچھ اختیار ہے تو پھر اشعری کے نزدیک افعال کو بندوں کی طرف حقیقی طور پر منسوب کرنے کے کیا معنی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت کی اگرچہ افعال میں تاثیر نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود افعال کا مدار بنایا ہے اس طرح پر کہ اللہ بطریق جرى العادت بندوں کو افعال کی طرف اختیار اور قدرت دینے کے بعد افعال کو پیدا کردیتا ہے۔ گویا قدرت افعال کے وجود کے لئے علت عادی ہے۔ پس اس لحاظ سے عادت کے طور پر افعال کے صادر ہونے میں قدرت کا دخل ہے کیونکہ قدرت کے سوا اور عادت پائی نہیں جاتی۔ اگرچہ افعال میں اس کی کوئی تاثیر نہیں۔ پس علت عادیہ کے اعتبار سے بندوں کے افعال ان کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ مذہب اشعری کی تصحیح میں نہایت کلام یہی ہے لیکن ابھی اس کلام میں محل تامل ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ اہلسنت و جماعت قدر(تقدیر) کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ قدرت کا خیر وشر شیریں ہو یا تلخ  ، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے کیونکہ قدر کے معنی احداث اور ایجاد کے ہیں اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا اور کوئی محدث اور موجد نہیں ہے۔ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ‌خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے اس کی عبادت کرو ) اور معتزلہ اور قدریہ نے قضا و قدر کا انکار کیا ہے اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ بندوں کے افعال صرف بندوں کی قدرت ہی سے حاصل ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ شرکو قضا کرے اور پھر اس پر عذاب دے تو یہ اس کا جور ہے۔ ان کی یہ بات جہالت پرمبنی ہے کیونکہ قضا بندہ سے قدرت اور اختیار کو سلب نہیں کرتی بلکہ اس طرح قضا فرمائی ہے کہ بندہ اپنے اختیار سے اس کو کرے یا چھوڑ دے۔ 

حاصل کلام یہ کہ قضا اختیار کو واجب کرتی ہے اور اختیار کا ثابت ہونا اس کے منافی نہیں اور نیز حق تعالیٰ کے افعال میں نقص لازم آتا ہے کیونکہ قضا کی طرف نظر کرنے کے اعتبار سے الله تعالیٰ کے افعال یا واجب ہیں باممتنع ۔ اس لئے کہ اگر قضا کا تعلق وجود کے ساتھ ہو تو واجب ہوتا ہے اور اگر عدم کے ساتھ ہو توممتنع ہوتا ہے پس اگر اختیار کے ساتھ فعل کا واجب ہونا اس کے منافی ہوتو حق تعالیٰ مختار نہ ہوگا اور یہ کفر ہے اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اس بات کا قائل ہونا کہ بندے کو با وجود کمال ضعف کے افعال کے ایجاد میں مستقل طور پر قدرت حاصل ہے۔ نہایت بیوقوفی اور کمال نادانی ہے۔ اسی واسطے مشائخ ماوراء النهر شكر الله تعالى سعيهم نے اس مسئلہ میں ان کی تضلیل اور تکفیر میں بہت مبالغہ کیا ہے اور یہاں تک فرمایا ہے 

کہ مجوس ان سے کئی درجے بہتر ہیں کہ انہوں نے ایک شریک کے سوا اور کو ثابت نہیں کیا اور معتزلہ نے اس قدر شریک ثابت کئے ہیں جو شمار سے باہر ہیں اور جبریہ نے یہ خیال کیا ہے کہ بندہ کا اپنا ہرگز فعل نہیں ہے اور اس کی حرکات جمادات کی حرکات کی مانند ہیں جن کے لئے کوئی قدرت نہیں ہے۔ نہ قصداًنہ اختیاراً۔ نیز انہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ بندوں کو خیر پر ثواب ملے گا اور شر پر عذاب نہ ہوگا اور کافرو عاصی معذور ہیں ان سے کچھ نہ پوچھا جائے گا کیونکہ افعال سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور بندہ ان میں مجبور ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔ یہ مرجیہ ملعون وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ معصیت ضرر نہیں دیتی اور عاصی کو عذاب نہ دیا جائے گا۔ 

نبی ﷺسے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہلُعِنَتِ الْمُرْجِئَةُ ‌عَلَى ‌لِسَانِ ‌سَبْعِينَ نَبِيًّا مرجیہ کو ستر نبی کی زبان پرلعنت کی گئی ہے اور ان کامذہب باطل ہے اس لئے کہ حرکت بطش اور حرکت ارتعاش میں فرق ظاہر ہے اور سب کو معلوم ہے اور ہم بھی جانتے ہیں کہ حرکت اول اس کے اختیار سے ہے اور دوسری نہیں اور نصوص قطعیہ اس مذہب کی نفی کرتی ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‌جَزَاءً ‌بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ یہ اس کی جزاء ہے جوعمل کرتے تھے) اور فرماتا ہے فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ جو چاہے مومن بن جائے جو چاہے کافر بن جائے۔ جاننا چاہیئے کہ اکثر لوگ اپنی کم ہمتی اور بد نیتی کے باعث عذر خواہی طلب کرتے ہیں اور اپنی جانوں سے سوال کو دفع کرتے ہیں اورکبھی مذہب اشعری کی طرف اورکبھی مذہب جبری کی طرف میلان کرتے ہیں ۔ کبھی اس طرح کہتے ہیں کہ بندہ کا در حقیقت کوئی اختیار نہیں ہے اور اس کی طرف فعل کی نسبت مجازی ہے اور کبھی ضعف اختیار کے قائل ہوتے ہیں جو اجبار کو مستلزم ہے۔ 

اس کے علاوہ اس مقام میں بعض صوفیہ کے کلام کو سنتے ہیں کہ فاعل ایک ہی ہے اس کے سوا اور کوئی فاعل نہیں ہے اور بندہ کی قدرت کو افعال میں کوئی تاثیرنہیں اور اس کی حرکات جمادات کی حرکات کی طرح ہیں بلکہ بندہ کا وجود ذات و صفت میں جنگل کے سراب کی طرح ہے جس کو پیاسا پانی سمجھ کر جب اس کے نزدیک آ تا ہے تو اس کو کچھ نہیں پاتا۔ اس قسم کی باتیں ان کو اقوال و افعال میں مداہنت اورسستی پر زیادہ دلیر کرتی ہیں ۔ پس ہم اس مقام کی تحقیق میں کہتے ہیں اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اگر اختیار حقیقی طور پر بندہ کیلئے ثابت نہ ہوتا جیسا کہ اشعری کا مذہب ہے تو اللہ تعالیٰ ظلم کو بندوں کی طرف منسوب نہ کرتا کیونکہ اشعری کے نزدیک نہ ہی بندوں کا اختیار ہے اور نہ ہی ان کی قدرت کی تاثیر ہے بلکہ قدرت اس کے نزدیک محض مدار ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید میں کئی جگ ظلم کو بندوں کی طرف منسوب کیا ہے اور تاثیر کے سوامحض مدار ہونا ظلم کو واجب نہیں کرتا۔ ہاں حق تعالیٰ کا بندوں کو رنج و عذاب دینا بغیر اس امر کے کہ ان کے لئے اختیار ثابت ہو۔ ہرگز ظلم نہیں ہے کیونکہ حق سبحانہ وتعالیٰ خودمختار بادشاہ ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اپنے ملک میں تصرف کرتا ہے لیکن ظلم کی نسبت ان کے اختیار کے ثبوت کومستلزم ہے اور اس نسبت میں مجاز کا احتمال خلاف متبادر ہے جس کو بلاضرورت اختیارنہیں کیا جاتا لیکن ضعف اختیار کا قائل ہونا دو حال سے خالی نہیں۔ اگر ضعف سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے اختیار کی نسبت بندہ کا اختیار ضعیف ہے تو یہ بات مسلم ہے اور اس میں کسی نوع کو نزاع نہیں ہے اور اگر ضعف کے یہ معنی ہیں کہ افعال کے صادر ہونے میں بندہ کا استقلال نہیں تو یہ بھی مسلم ہے لیکن اگر ضعف سے یہ مراد ہو کہ افعال میں بندے کے اختیار کو ہرگز خل نہیں تو ممنوع ہے اور وہی پہلا مسئلہ ہے اور منع کی سند مفصل گزر چکی ہے اس بات کو جاننا چا ہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان کی طاقت اور استطاعت کے موافق تکلیف دی ہے اور ان کے ضعف خلقت کے موافق تکلیف میں تخفیف کی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ‌يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ( اللہ تعالیٰ تم پر تخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے اور کیونکر تخفیف نہ کرے جبکہ اللہ تعالیٰ حکیم اور رؤف اور رحیم ہے۔ اس کی حکمت اور رافت اور رحمت کے لائق نہیں کہ بندے کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ایسے ایسے بھاری پتھر اٹھانے کی تکلیف نہیں دی جن کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں بلکہ ایسی چیزوں سے مکلف کیا ہے جو بندے پر نہایت ہی آسان ہیں مثلا نماز جو قیام و رکوع وسجود اور قرأت میسرہ پرمشتمل ہے۔ یہ سب کے سب نہایت ہی آسان ہیں اور ایسے ہی روزوں کا حال ہے کہ نہایت سہولت میں ہیں اور ایسے ہی زکوة ہے کہ چالیسواں حصہ مقرر ہے اور آدھا یا کل مقرر نہیں کیا تا کہ بندوں کو گراں معلوم نہ ہو۔ یہ اس کی کمال رافت و مہربانی ہے اور ماموربہ(فرض و واجب) کیلئے خلیفہ بنایا اگر اصل دشوار ہویعنی وضو کیلئےتیمم کو خلیفہ بنایا اور ایسے ہی حکم کیا ہے کہ جو قیام پر طاقت نہ رکھتا ہو وہ بیٹھ کر پڑھے اور جو بیٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ لیٹ کر ادا کرے۔ ایسے ہیں جو رکوع و سجود کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ اشارے سے ادا کرے۔ وغیرہ وغیرہ جو احکام شرعیہ میں اعتبار و انصاف کی نظر سے دیکھنے والے پرمخفی نہیں ہیں۔ ان تمام شرعیہ تکلیفات(شرعی پابندیاں)  کی حد نہایت آسانی اور سہولت میں ہے اور ان تکلیفات کے صفحوں میں اللہ تعالیٰ کی کامل رافت کا مطالعہ ہوتا ہے۔ ان تکلیفات کی تخفیف کا مصداق عام لوگوں کی خواہش اور تمنا ہے جوان مامور و تکلیفات کے زیادہ ہونے میں کرتے ہیں۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ فرضی روز ے زیادہ ہوتے اور بعض کہتے ہیں کہ فرضی نماز یں زیادہ ہوتیں، علی ہذالقیاس اور اس قسم کی تمنا کمال تخفیف ہی کے باعث ہے اوربعض لوگوں کو ادائے احکام میں آسانی کا معلوم نہ ہونا۔ اس سبب سے ہے کہ ان پرنفانی ظلمتیں اور طبعی کدورتیں غالب ہیں جو نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کی خواہش سے پیدا ہوتی ہیں اورنفس امارہ اللہ تعالیٰ کی دشمنی میں قائم ہے۔ ‌كَبُرَ ‌عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ (مشرکوں پر وہ بات بہت ہی بھاری ہے جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (خاشعین کے سوا نماز سب پر بھاری ہے جس طرح ظاہری مرض احکام کو مشکل ادا کرنے کا موجب ہے۔ اسی طرح باطنی مرض بھی اس دشواری کا باعث ہے اور شرع شریف نفس امارہ کی رسوم کو مٹانے اور اس کی خواہشات کو دور کرنے کے لیے وارد ہوئی ہے۔ گویا ہوائے نفس اور شریعت کی متابعت دو طرفیں ہیں جو ایک دوسرے کی نقیض ہیں ۔ پس اس دشواری کا وجود ہوائے نفس کے وجود پر دلالت کرتا ہے اور جس قدر ہوائے نفس زیادہ ہوگی اسی قدر یہ دشواری زیادہ ہوگی ۔ پس جب خواہش نفس بالکل دور ہو جائے گی۔ یہ دشواری بھی بالکل دور ہو جائے گی لیکن بعض صوفیہ کی کلام جو اختیار کی نفی یا اس کے ضعف میں ابھی مذکور ہو چکی ہے تو جاننا چاہیئے کہ اگر ان کی کلام احکام شرعیہ کے مطابق نہیں ہے تو اس کا ہرگز اعتبار نہیں ہے اور نہ ہی حجت کے لائق ہے کیونکہ جہت اور تقلید کے لائق علمائے اہل سنت و جماعت کے اقوال ہیں۔ پس صوفیہ کا جو کلام علمائے اہل سنت و جماعت کے اقوال کے موافق ہے، وہ قبول ہے اور جوان کے اقوال کے مخالف ہے وہ مر دود اور نامقبول ہے۔ اس کے علاوہ ہم بھی کہتے ہیں کہ مستقيم الاحوال صوفیہ احوال و اعمال اور علوم و معارف میں ہرگز شریعت سے تجاوز نہیں کرتے اور جانتے ہیں کہ شریعت کا بقیہ خلاف حال کی خرابی اور نادرستی سے پیدا ہے۔ اگر حال درست و صادق ہوتا تو شریعت حقہ کے مخالف نہ ہوتا۔ غرض خلاف شریعت زندقہ کی دلیل اور الحاد کی علامت ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اگر صوفیہ غلبہ حال یا سکر(مستی) وقت میں اپنے کشف سے کوئی ایسا کام کرے جو شریعت کے مخالف ہوتو وہ معذور ہے اور اس کا کشف غیرصحیح ہے اور اس کی تقلید ناجائز اور نادرست ہے۔ اس کی کلام کو ظاہر کی طرف سے اور معنی کی طرف حمل کرنا اور پھیرنا چاہیئے کیونکہ اہل سکر کی کلام ظاہر کی طرف سے محمول و معروف کی جاتی ہے۔ هٰذَا مَاتَیَسَّرَلِیْ فِيْ هٰذَا الْمُقَامِ بِعَوْنِ اللهِ  سُبْحَانَہٗ وَ تَوْفِيْقِهٖ (یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور اس کی حسن توفیق سے مجھ سے ہوسکا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ397 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں