قلب کی موت کے عنوان سے باب ششم میں حکمت نمبر48 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
باب ششم
قلب کے حیات اور موت کی علامت ، اور سبب کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔
48) مِنْ عَلَامَاتِ مَوْتُ الْقَلْبِ عَدَمَ الْحُزْنِ عَلَىَ مَا فَاتَكَ مِنَ الْمُوَافِقَاتِ، وَتَرْكُ الْنَّدَمِ عَلَىَ مَافَعَلَهُ مِنْ وُجُوْدِ الْزَلّاتِ.
جو طاعتیں تم سے فوت ہو گئی ہیں، ان پر رنج و غم نہ ہونا اور جو گناہ تم نے کئے ہیں اس پرشرمندہ نہ ہونا ، قلب کی موت کی علامت ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں قلب کی موت کا سبب تین چیزیں ہیں۔1۔ دنیا کی محبت 2۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت 3۔ جسمانی اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں آزاد چھوڑ دینا۔
اور قلب کی زندگی کا سبب تین چیزیں ہیں : 1۔ دنیا میں زہد 2۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو نا 3۔ اولیاء اللہ کی صحبت ۔
اور قلب کی موت کی علامت : تین چیزیں ہیں۔ 1۔ جو طاعتیں فوت ہوگئی ہیں ، ان پر رنجیدہ نہ ہونا۔ 2۔ جو گناہ تم نے کئے ہیں ان پر شرمندہ نہ ہونا 3۔ غافل، مردہ لوگوں کے ساتھ تمہاری صحبت ۔
اور یہ اس لئے کہ بندے سے عبادت کا صادر ہونا ، نیک بختی کی پہچان ہے۔ اور معصیت کا صادر ہوتا ، بدبختی کی علامت ہے۔ پس اگر قلب معرفت اور ایمان کے ساتھ زندہ ہے تو جو چیز اس کی بد بختی کا سبب ہوتی ہے وہ اس کو رنجیدہ کرتی ہے اور جو چیز اس کی نیک بختی کا سبب ہوتی ہے وہ اس کو خوش کرتی ہے۔ یا اس طرح کہو ۔ بندے سے طاعت کا صادر ہونا ، اس کے مولا کی رضا مندی کی علامت ہے۔ اور معصیت کا صادر ہوتا، اس کے غضب کی علامت ہے ۔ پس زندہ قلب ، اس چیز کو محسوس کرتاہے، جو اس کو مولا کا دوست بنا دیتی ہے، تو وہ خوش ہوتا ہے اور اس چیز کو محسوس کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا مولا اس پر ناراض ہوتا ہے۔ تو اور نجیدہ ہوتا ہے۔ اور مردہ قلب :۔ کچھ نہیں محسوس کرتا ، اس کے نزدیک طاعت ، اور معصیت دونوں برابر ہوتے ہیں۔ وہ طاعت سے خوش نہیں ہوتا ، اورلغزش اور معصیت سے رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔ جیسا کہ محسوس کرنے کے معاملہ میں مردے کی حالت ہوتی ہے۔
حدیث شریف میں حضرت رسول اکرم ﷺ سے روایت ہے۔
حضرت نےفرمایا: ۔منْ سَرَّتُهُ حَسَنَانُهُ ، وَسَاءَ تَهُ سَیِئَاتِهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ
جس شخص کو اس کی نیکیاں خوش کرتی ہیں، اور اس کی برائیاں رنجیدہ کرتی ہیں ، وہ مومن ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے کہ گویا وہ پہاڑ کی جڑ میں ہے۔ اور پہاڑ کے اپنے اوپر گرنے سے ڈرتا ہے۔ اور فاجر، اپنے گناہوں کو اس مکھی کی طرح سمجھتا ہے ، جو اس کے ناک پر بیٹھی ہے ۔ تو وہ اس کو کہتا ہے ۔ ایسے تو اس کو اڑا دیتا ہے۔ لیکن بندے کیلئے یہ مناسب نہیں کہ اکثر اپنے گناہ ہی کی طرف خیال رکھے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہو کہ اس کی رجاء یعنی امید کم ہو جائے ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدظنی میں مبتلا ہو جائے ۔