مؤمن کی خوشی

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

مؤمن کی خوشی اس کے چہرے پر اور غم دل میں ہوتا ہے:

مؤمن کی خوشی اس کے چہرے پر ہوتی ہے اور اس کا غم دل میں چھپا ہوتا ہے، ترقی کرنے کے بعد معاملہ اس کے الٹ ہو جاتا ہے، غم چہرے سے جھلکنے لگتا ہے جبکہ خوشی اس کے دل میں ہوتی ہے، چہرے پر غم مخلوق کے ادب سکھانے کے لئے ہوتا ہے اور دلی مسرت قضاوقدر کی وجہ سے ہوا کرتی ہے،  قضاوقد ر کی طرف دیکھ کر ہنستا رہتا ہے، اور ان دونوں سے خوش ہوتا ہےجب تقوی اس دل میں گھر کر لیتا ہے تو وہ دنیا سے نکل جا تا ہے اور اپنے قید خانے اور تنگی سے الگ ہو جا تا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ اور جو اللہ سے ڈرتا ہے تو وہ اس کے لئے کوئی راستہ نکال دیتا ہے اور جہاں سے اسے خیال بھی نہیں ہوتا، وہ اس کے لئے رزق پہنچاتا ہے۔

 وہ اپنے بیضہ وجود سے نکل جاتا ہے، شریعت کا دانہ چگنے لگتا ہے، قرب الہٰی کا بازو اسے اپنے پہلو میں لے لیتا ۔  اسے اپنے سے ملا لیتا ہے ،ایساشخص طباقوں اور خوانوں کا مالک بن جاتاہے ۔

اے احمق

 تیرے ساتھ بجلی ہے جسے قرار نہیں، تیرے ساتھ اسباب ہے ، جیسے آئے گا چلا جائے گا ، تو محتاج ہے کہ تو ہزار با رفنا ہواور ہزار بارمرے

پھر آخر میں تو درخت کی طرح قرار پکڑے گا ، رات دن آتے ہیں، اور وہ پھل دیتا رہتا ہے، اپنی حالت سے نہیں پلٹتا بڑھتا رہتا ہے ، نشوونما پا کر سایہ ڈالتا رہتا ہے، اس کے بعد کہ تو ساتوں زمین کی میخ بن جائے ، یہ حالت پیدا ہو گی، تو پاگل پنے کی بات نہ کر کوئی دعوی نہ کر ۔

تجھے ایک چیونٹی کاٹ لے تو تجھ پر قیامت برپا ہو جاتی ہے،  تیری غذا میں سے ایک لقمہ ضائع ہو جائے تو تجھ پر قیامت برپا ہو جاتی ہے،

تو اپنی حالت کو چھوڑ دے، اپنے میں داخل ہونے دے، وہ تیرے دل میں مل جائے ، جوڑ پیدا کرے اور تیرے بچہ پیدا ہو جو کہ ہوا میں اڑے اور تیرے باطن کی بلندی پر جا کر ٹھہرے، شرق و غرب، جنگل و دریا میں آمد ورفت کرے۔ تو تو سویا پڑا ہے، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا:

لوگ سوئے ہوئے ہیں ، جب موت طاری ہوگی تب آنکھ کھلے گی‘‘۔ وہ شخص بہت برا ہے جس کی آنکھ مرنے کے بعد کھلے گی ، فقیر کے لئے لازم ہے کہ وہ قناعت کی تہہ بند باند ھے، پارسائی کی چادر اوڑھے، یہاں تک کہ وہ اللہ کی طرف پہنچ جائے ۔ اس کی طرف قرب الہٰی کے دروازے کو طلب کرتا ہوا ، دنیا وآخرت اور ساری خلقت اور موجودات سے بھا گتا ہوا سچائی کے قدم سے دوڑے ، اس کی خواہش میں سرگرداں رہے، اللہ کی عنایت اور اس کی شفقت، اس کی رحمت اور اس کا شوق ، اس کے جذبات اور نظر میں، اور اس کا فرشتوں پرفخر فرمانا اور پھر نبیوں اور رسولوں کی روحیں اور فرشتوں کے گروہ اس کا استقبال کر یں گئے، فرشتے اور نبیوں اور رسولوں کی روحیں اس کے مصاحب ہوکر ، اس کے ہمراہ آ کر اسےدلہن کر طرح بنا سجا کر دربار الہٰی میں پہنچادیں ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 636،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں