مجمل اور مفصل واردات(تیئسواں باب)

مجمل اور مفصل واردات کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 215 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا
215) الْحَقَائِقُ تَرِدُ فِى حَالِ التَّجَلِّى مُجْمَلَةً ، وَبَعْدَ الْوَعْىِ يَكُونُ الْبَيَانُ {فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، ثُمَّ أن عَلَيْنَا بَيَانَهُ}
حقائق تجلی کی حالت میں مجمل طور پر وارد ہوتے ہیں۔ پھر یاد کر لینے کے بعد اس کی تشریح ہوتی ہے ۔ جب ہم قرآن کو پڑھیں، تو آپ اس پڑھنے کی پیروی کیجئے۔ یعنی اس کو یاد کیجئے۔ پھر اس کو بیان کرنا یعنی تشریح کرنا ہمارے ذمے ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ حقائق و ہ علوم اور حکمتوں اور معرفتوں کی تجلیاں ہیں، جو عارف کے قلب پروارد ہوتی ہیں۔ تو وہ حقائق کبھی علوم ہوتے ہیں اور کبھی وہ حکمتیں اور معارف ہوتے ہیں اور کبھی وہ اس غیب کا کشف ہوتے ہیں، جو گذر چکا یا آئیندہ ہوگا۔ اور اس کی حکمت یہ ہے۔ کہ روح جب حس کی ظلمت سے نکل کر پاک وصاف ہو جاتی ہے۔ تو اکثر اس میں جو کچھ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ سچ ہوتا ہے۔ پھر یہ حقائق کبھی تجلی کی حالت میں مجمل طور پر وارد ہوتے ہیں۔ اور انسان ان کو اسی طرح یاد کر لیتا ہے جس طرح کہ وہ وارد ہوتے ہیں۔ پھر ان میں غور و فکر کرتا ہے۔ تو ان کے معانی ظاہر ہوتے ہیں لہذا بیان یعنی معانی کی تشریح بعد میں ہوتی ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے وحی الہٰی کی آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے۔ کیو نکہ وحی کی چار قسمیں ہیں۔
ایک قسم :- وحی الہام – دوسری قسم : وحی منام ۔ تیسری قسم وحی اعلام ۔ چوتھی قسم ۔ وحی احکام ۔
اور اولیائے کرام رضی اللہ عنھم وحی کی تین قسموں ، وحی الہام اور وحی منام اور وحی اعلام میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ شریک ہیں۔ اور وجی اعلام :- اللہ تعالیٰ کے متعلق سمجھ حاصل ہوتا ہے۔ اور وحی احکام صرف انبیا ءعلیھم السلام کے ساتھ مخصوص ہے۔ لہذا اولیائے کرم کیلئے وحی الہام ہے۔ وہ پہلے قلب میں مجمل طور پر وارد ہوتی ہے۔ پھر جب وہ اس کو پڑھتا ہے اور اس کی پیروی کو ظاہر کرتاہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
فَإِذَا قَرَانَاهُ فَاتَّبِعُ قَرانَهُ كَمَا قَرَانَاهُ عَلَيْكَ (ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ) جب ہم اس کو پڑھیں ، تو آپ اس پڑھنے کی پیروی کریں۔ یعنی جس طرح ہم نے پڑھا ہے ، اس طرح پڑھیں ۔ پھر اس کے بعد اس کا بیان یعنی تشریح ہمارے ذمے ہے۔
یہاں تک کہ دو اس کو سمجھتا ہے اور لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔
حضرت نبی کریم علیہ الصلاة والسلام نازل شده آیت کے بھول جانے کے خوف سے یہ طریقہ اختیار کرتے تھے۔ کہ جب کوئی آیہ کریمہ نازل ہوتی تھی۔ تو پہلے حضرت علیہ السلام حضرت جبریل علیہ السلام سے سنتے تھے ۔ پھر اس آیہ کریمہ کو خود اسی طرح پڑھتے تھے ۔ جس طرح وہ نازل کی گئی ۔ لہذا وحی احکام محفوظ ہے۔ اس کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ وہ بھلائی نہیں جا سکتی ہے۔ بخلاف وحی الہام کے۔ لہذا ولی کو چاہیئے کہ وہ ان واردات کو جلد یاد کرے۔ کیونکہ حکمت تجلی کی حالت میں پہاڑ کی طرح ہوتی ہے۔ لیکن جب اس سے غفلت کی جاتی ہے، تو وہ اونٹ کی طرح ہو جاتی ہے۔ پھر اگر اس کے بعد بھی اس سے غفلت کی جاتی ہے۔ تو وہ بیل کی طرح ہو جاتی ہے۔ پھر مینڈھے کی طرح، پھر انڈے کی طرح، پھر غائب ہو جاتی ہے۔
اسی لئے ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ دوات اور قلم اور کاغذہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ تا کہ واردات الہٰیہ کو فوراً لکھ لیں ۔ اور اسی طرح ہمارے سب شیوخ کرام کرتے تھے اور ایساہی کرنے کا حکم دیتے تھے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ یہ سب تشریحیں جو میں لکھ رہا ہوں ۔ یہ سب در حقیقت واردات و مواہب ہی ہیں۔ کیونکہ جب میں حکمت کی تشریح لکھتا ہوں۔ اور سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا لکھوں ۔ تو میں اس کے انتظار میں ٹھہر جاتا ہوں ، جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی شے وارد ہوتی ہے تو پہلے میں اسے لکھ لیتا ہوں ۔ پھر میں حضرات صوفیائے کرام کی کتا بوں میں دیکھتا اور غور کرتا ہوں۔ اگر میں کوئی بہترین نقل اس کے موافق پاتا ہوں ، جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو فیضیاب کیا ہے۔ تو میں اس کو حفاظت سے لکھ لیتا ہوں۔ ورنہ اس کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے میرے قلب میں عطا فرمایا ہے، اس کو کافی سمجھتا ہوں۔ اور اکثر و بیشتر جب میں کسی کلام کی شرح لکھتا ہوں، پھر بعد میں اس کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھ کو تعجب ہوتا ہے، کہ یہ میں نے لکھا ہے ۔ یا یہ عبارت مجھ سے صادر ہوئی ہے۔ اور یہ سب ہمارے شیوخ کرام کی برکتوں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کو ہماری طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے ۔ اور اکثر میں ریاضت اور مجاہدہ کے حال میں ہوتے ہوئے جب تفسیر یا اس کے علاوہ کسی دوسری شے کے بارے میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ تو میں بیان کرنا شروع کر دیتا ہوں ، پھر میں گم ہو جاتا ہوں ۔ اور میں محسوس کرتا ہوں ، کہ بیان مجھ سے بے اختیار صادر ہو رہا ہے۔ گویا کہ وہ برسنے والا بادل ہے۔ اور اس وقت مجھ سے علوم اور حکمتیں صادر ہوتی ہیں ۔ پھر جب میں خاموش ہو جاتا ہوں ۔ تو ان میں سے صرف تھوڑا سا باقی رہ جاتا ہے۔ ایک روز ہماری مجلس میں ایک نیک بوڑھا آدمی حاضر ہوا ۔ اس نے ہماری گفتگو سنی اور اس نے کہا اللہ کی قسم، میں علمائے کرام اور صالحین عظام کی مجلسوں میں حاضر ہوتا رہا ہوں ۔ لیکن اللہ کی قسم ، اس قسم کے جواہروں اور یا قوتوں کو جو فلاں حضرت کی زبان مبارک سے صادر ہوتے ہیں، میں نے ان کی مجلسوں میں صادر ہوتے نہیں دیکھا۔ میں ایک زمانہ تک اسی طرح رہا۔ نہ میں کچھ یاد کرتا تھا۔ اور نہ کچھ لکھتا تھا۔ پھر میری یہ کیفیت تبدیل ہوئی۔ اور اس کے بعد میرے لئے زبان کی عبارت سے قلم کی عبارت زیادہ فصیح ہوگئی ۔ یعنی زبان کے بیان سے تحریر کی اہمیت زیادہ ہوگئی بعض عارفین اپنے مریدین سے فرماتے تھے :۔ جب میں تم لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہوں، تو جو کچھ اللہ تعالیٰ میری زبان پر جاری کرتا ہے۔ اس سے میں خود بھی اسی طرح فائدو حاصل کرتا ہوں ، جس طرح تم فائدہ حاصل کرتے ہو ۔ اسی حقیقت کے بارے میں حضرت ابن فارض رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
وَلَا تَكُ مِمَّنْ طَيَّشَتْهُ طُرُوْسُهُ بِحَيْثُ اسْتَحَفَّتْ عَقْلَهُ وَاسْتَفَزَّتْ
اور تم ان لوگوں میں سے نہ ہونا، جن کو ان کی کتابوں نے اس طرح ہلکا کیا۔ کہ انہوں نے اپنی عقل کو ہلکا سمجھ لیا۔
فَثَمَّ وَرَاءَ النَّقْلِ عِلْمٌ يَدِقُ عَنْ مَدَارِكِ غَايَاتِ الْعُقُولِ السَّلِيمَةِ
لیکن نقل یعنی کتاب کے علاوہ بھی ایک علم ہے۔ جو صحیح عقلوں کی انتہائی سمجھ سے باریک ہے۔
تَلْقَيْتَهُ مِنِى وَ عَنِي أَخَذْتَهُ و نَفْسِي كَانَتْ مِنْ عَطَائِي مُمِدَّتِي
تم نے اس علم کو مجھ سے حاصل کیا ۔ اور میرا نفس میری بخشش سے میرا مددگار ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں