محبت کا حکم

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

دنیا کی تمنا اور اللہ سے محبت کا حکم :

ایک شخص کچھ دنیا مانگنے کے لئے آپ کے سامنے کھڑا ہوا، آپ نے اسے بٹھا دیا اور ارشاد فرمایا: میں تجھے دنیا،اس کے بعد آخرت سے بے رغبت ہونے کا حکم دیتا ہوں، اس کے بعد اللہ سے مانگنا، پھر زہد اختیار کر ، نوبت یہاں تک آ جائے کہ اللہ تجھے دے لیکن تو نہ لے۔

اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی :

اے عیسی تو اس بات سے ڈر کہ میں تجھے بھلا دوں؟‘‘

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کے حضور عرض کیا : مجھے وصیت و نصیحت فرما‘‘

ارشادفرمایا: اے موسی ! میں تجھے اپنی محبت کا حکم دیتا ہوں‘‘۔

حضرت موسی علیہ السلام نے پھر گزارش کی بارگا والہٰی سے پھر یہی حکم ہوا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے عرض کی ، ہر بار انہیں ایک ہی جواب ملا:

میں تجھے اپنی محبت کا حکم دیتا ہوں حتی کہ تیری ہستی کابیضہ تجھ سے جدا ہو جائے ، شرع مقدس کا بازو تجھے اپنی طرف ملالے اور تجھے آواز کرنا سکھادے تب تو فضل کے دانے چگنے لگے گا اور اس سے اثر حاصل کرےگا۔

اس سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ تھا کہ تو مخلوق کو وعظ کہنا اور انہیں اللہ کی طرف بلا نا تب تک چھوڑ دے کہ اللہ کی طرف سے تیرے پاس ، کشش اور وعظ گوئی اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی اہلیت نہ پیدا ہو جائے ، تم اس ظاہری حکم پر عمل کر کے اسے مضبوط کرلو، پھر دیکھنا کہ اللہ کے قرب اور مناجات سے تمہیں کیا لذت حاصل ہوتی ہے، عوام تو بس کھانے کے دیوانے ہیں، میں اس حال میں کلام کرتا ہوں کہ زمین اور آسمان سب معدوم ہوتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ کے سوا مجھے کوئی نفع ونقصان پہنچانے والا نہیں ہے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 634،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں