مخلوق کی تکلیف کا سبق (چوبیسواں باب)

مخلوق کی تکلیف کا سبق  کےعنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 235 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اولیاء اللہ کو مخلوق کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:-
235) إِنَّمَا أَجْرَى الأَذَى عَلَى أَيْدِيهِمْ كَيْ لا تَكُونَ سَاكِناً إِلَيْهِم ، أَرَادَ أَنْ يُزْعِجَكَ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى لا يَشْغَلَكَ عَنْهَ شَيْءٌ .
اللہ تعالیٰ تم کو مخلوق سے اس لئے تکلیف پہنچاتا ہے۔ تا کہ تم انہیں کی طرف ساکن ( سکون حاصل کرنے والے ٹھہر نے والے ) نہ ہو جاؤ۔ وہ چاہتا ہے کہ تم کو ہرشے سے بے زار کر کے نکالے ۔ تا کہ کوئی شے تم کو اپنے میں مشغول کر کے اللہ تعالیٰ سے غافل نہ کرے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ روح ، جب عالم سفلی یعنی اس دنیا کی طرف آتی ہے اور اس میں سکونت اختیار کرتی ہے۔ اور اس میں موجود چیزوں سے محبت کرتی ہے۔ تو عالم ملکوت کی طرف جس کو عالم روحانی کہتے ہیں ، اس کا منتقل ہونا ، دشوار ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اہل و اولا داور اصحاب اور خاندان کی محبت سے مانوس ہو جاتی ہے۔ تو اپنے ولی کے اوپر یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مہربانی اور احسان ہے کہ وہ اچھی چیزوں کو اس کے اوپر پریشان اور منتشر کر دیتا ہے، جنکی طرف اس کا نفس مائل ہوتا ہے۔ اور جن سے اس کی روح زیادہ محبت کرتی ہے۔ پھر اور زیادہ محبت کرتی ہے۔ لہذا سب سے پہلے اس کی بیوی اور اولاد ، اس کا انکار کرتی ہے۔ پھر اس کے پڑوسی اور اس کے دوست اس کا انکار کرتے ہیں۔ پھر سارا عالم اس کا انکار کرتا ہے۔ تو جب روح یہ دیکھتی ہے کہ یہ سارا عالم اس کا منکر یعنی مخالف ہو گیا ۔ اور یہ عالم اس کے لئے تنگ ہو گیا ۔ تو وہ اپنے مولائے حقیقی کی طرف سفر کرتی ہے۔ اور اس عالم کی طرف اس کی توجہ بالکل باقی نہیں رہتی ہے۔ لہذا اب اللہ تعالیٰ سے اس کا وصل مکمل ہو جاتا ہے اور اس کی فنا اور بقا ثا بت ہو جاتی ہے اور اگر نفس مرتبہ اور عزت کے سایہ میں پرسکون حالت میں قائم رہتا ہے۔ تو وہ اس عالم سے بالکل سفر نہیں کرتا ہے۔
اور اولیائے کرام کو جس قدر زیادہ اور سخت تکلیفیں اور مصیبتیں پہنچتی ہیں ، اسی قدر ان کا مرتبہ اور مقام اللہ تعالیٰ کے پاس بلند ہوتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ مجری اور منشا اور فاعل حقیقی ہونے کی حیثیت سے مخلوق کے ہاتھوں سے تمہاری طرف تکلیفیں اور مصیبتیں اس لئے جاری کرتا ہے۔ تا کہ تم اپنے قلب اور روح کے ساتھ پر سکون ہو کر اسی کی طرف مشغول نہ ہو جاؤ۔ پھر تمہارا یہ سکون اور مشغولیت، عالم ملکوت کی طرف ترقی کرنے سے تم کو روک دے۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم کو اس عالم کی ہرشے سے بیزار اور متنفر کر کے نکالے۔ یہاں تک کہ تم کسی شے پر بھروسہ اور توجہ نہ کرو۔ اور نہ کوئی شے تم کو اپنے میں مشغول کر کے اللہ تعالیٰ کے شہود سے غافل کرے۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا بھی مشاہدہ کرو اور اس کے ساتھ غیر اللہ کا بھی مشاہدہ کرو ۔ یا تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرو اور اس کے ساتھ غیر اللہ سے بھی محبت کرو ۔ محبت اس سے انکار کرتی ہے کہ تم اپنے محبوب کے سوا کسی دوسرے کو دیکھو ۔ پھر جب محبت مضبوطی سے قائم ہو جاتی ہے اور شہود کامل ہو جاتا ہے۔ تو اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اپنے اولیائے کرام کو اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے ان کا مرشد بنا کر عروج سے نزول میں واپس کر دیتا ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے لطائف المنن میں فرمایا ہے ۔ ابتدا میں اولیاء اللہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے او پر مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے تا کہ وہ اغیار کے باقی ماندہ ذروں سے پاک ہو جائے اور ان کے اندر فضائل مکمل ہو جائیں اور مخلوق پر اعتماد کر کے ان میں سکونت نہ اختیار کریں اور ان کے او پر بھروسہ کر کے ان کی طرف مائل نہ ہوں ۔ کیونکہ جس شخص نے تم کو تکلیف پہنچائی ، اس نے اپنے احسان کی غلامی سے تم کو آزاد کر دیا۔ اور جس نے تمہارے ساتھ احسان کیا ، اس نے اپنےاحسان سے تم کو غلام بنا لیا۔ اس لئے حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-
مَن ‌أَسْدَى إلَيْكمْ مَعْرُوفًا ‌فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوَا لَهُ جس شخص نے تمہارے ساتھ کوئی احسان کیا ، تم اس کا بدلہ چکا دو ۔ اور اگر تم بدلہ پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہو تو اس کے لئے دعا کرو۔ لہذا یہ سب تکلیفیں اس لئےپہنچتی ہیں ، تا کہ قلب مخلوق کے احسان کی غلامی سے آزاد ہوجائے ۔ اور بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ سے متعلق ہو جائے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا :- حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا ہے :۔ جتنا تم برے لوگوں سےبھاگتے ہو، اس سے زیادہ تم اچھے لوگوں سے بھا گو ۔ اس لئے کہ نیک لوگوں کی نیکی تمہارے قلب میں مصیبت پیدا کرتی ہے۔ اور برے لوگوں کی برائی کا اثر صرف تمہارے جسم پر ہوتا ہے۔ اور جو مصیبت تمہارے جسم پر پہنچے وہ اس مصیبت سے بہتر ہے جو تمہارے قلب پر پہنچے اور وہ دشمن جس کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ تک پہنچو، اس دوست سے بہتر ہے، جوتم کو اللہ تعالیٰ سے جدا کر دے۔ اور مخلوق کے اپنی طرف متوجہ ہونے کو رات سمجھو۔ اور اپنے سے ان کی روگردانی کو دن تصور کرو۔
کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ لوگ جب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں تو تمہارے لئے فتنہ کاسبب ہوتے ہیں۔ حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا ہے :۔ ابتدائے طریقت میں اولیاء اللہ پر مخلوق کو مسلط کرنا، اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-
وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ اور وہ ہلا دیئے گئے ۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان والے پکارا ٹھے ۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی ۔
اور اس آیہ کریمہ کے سوا دوسری آیات بھی ہیں۔ جو اس مفہوم پر دلیل ہیں۔
ایک عارف نے فرمایا ہے :- نفوس کی شان یہ ہے کہ وہ عزت اور شان و شوکت کے مقام پر رہنے میں لذت حاصل کرتے ہیں۔ تو اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دے، تو وہ بلاک ہو جا ئیں ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر موذیوں کی ایذا رسانی اور مخالفین کے اعتراضات کو مسلط کر کے اس مقام سے بیزار اور متنفر کر کے نکالا اور اس مفہوم میں ایک عارف کے یہ اشعارہیں :-
عِدَاتِي لَهُمْ فَضْلٌ عَلَيَّ وَمِنْةٌ فَلَا ابْعَدَ الرَّحْمَنُ عَنِى الْأَعَادِيَا
میرے دشمنوں کا میرے اوپر فضل و احسان ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ میرے دشمنوں کو مجھ سے دور نہ کرے۔
فَهُمْ بَحَثُوا عَنْ زَلَّتِي فَاجْتَنبَتُهَا وَهُمْ نَافَسُونِي فَارُ تَكَبْتُ الْمَعَالِيَا
انہوں نے میری غلطیوں پر بحث کیا۔ تو میں نے غلطیوں سے پر ہیز کیا۔ اور انہوں نے میرا مقابلہ کر کے مرتبے میں مجھ سے بڑھ جانے کی حرص کی تو میں بلند مرتبوں پر پہنچ گیا۔
ایک عارف نے فرمایا :- دشمن کی نصیحت اللہ تعالیٰ کا کوڑا ہے۔ جس کے ذریعے قلوب لوٹائے جاتے ہیں ۔ جب وہ غیر اللہ کی طرف ٹھہر جاتے ہیں۔ ورنہ قلب عزت اور مرتبہ کے سایہ میں ٹھہر جائے گا ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ سے بہت بڑا حجاب ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ایک مرتبہ مجھ کو ایک شخص نے تکلیف پہنچائی ۔ میں نے اس پر صبر کیا۔ جب میں سو گیا۔ تو میں نے خواب میں دیکھا، کہ مجھ سے کہا جارہا ہے ۔ دشمنوں کی زیادتی ۔ صدیقیت کی ایک علامت ہے ۔ جبکہ وہ ان کی پرواہ نہ کرے۔ جب یہ ثابت ہو گیا تو تم نے یہ معلوم کر لیا کہ ولی اللہ کے لئے ایذا رسانی ،اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کی سنت ماضیہ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلاً پس تم اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی ہر گز نہ پاؤ گے۔
اور ہمارے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے حالات میں غور کرو ۔ آپ ﷺ نے قریش اور بنی وائل کے ہاتھوں کتنی مصیبتیں جھیلیں ۔ اعلان نبوت کے بعد جومخلوق سے تکلیف پہنچنے کا مقام تھا۔ آپ ﷺ ان لوگوں کے ساتھ تیرہ سال رہے ۔ ہر سال آپ پر ماردھاڑ اورسختی و مصیبت کے ساتھ گزرا۔ اور جب حضور اقدس ﷺ مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرما گئے ۔ تب بھی آپ ﷺ کو آرام نصیب نہ ہوا۔ آپ ہمیشہ جہاد کرتے اور تعلیم دیتے رہے۔ اور علمائے یہود کی دشمنی وایذا رسانی اوشر انگیزی برداشت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور شرف وکرم اور بزرگی و عظمت کے کمال پر جا پہنچے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں