مشاہدہ حق کے عنوان سے پچیسویں باب میں حکمت نمبر 257 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ظاہری ذکر کے باطنی شہود سے پیدا ہونے کی وجہ بیان فرمائی:۔
257) أَشْهَدَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يسْتَشْهَدَكَ فَنَطَقَتْ بِأُلُوهِيَّتِهِ الظَّواهِرُ ، وَتَحَقَّقَتْ بِأَحَدِيَّتِهِ القُلُوبُ وَالسَّرَائِرُ .
اللہ تعالیٰ نے تم سے شہادت طلب کرنے سے پہلے ہی تم کو مشاہدہ کرایا۔ تو ظاہر نے اس کے معبود ہونے کا اقرار کیا۔ اور قلوب اور سرائر ( سرکی جمع) نے اس کے ایک ہونے کا یقین کیا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: روح ، اپنے پیدا ہونے کی ابتداء میں نہایت ہی پاکیزہ اور صاف تھی ۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ نے اس کو عالم ارواح میں ظاہر کیا۔ تو وہ بڑی عالم اور ذہین تھی ۔ اس وقت اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور جلال اور جمال اور اپنی وحدانیت کے کمال کا مشاہدہ کرایا۔ پھر اس سےفرمایا: الستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ہاں تو میرا رب ہے۔
تو سب روحوں نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اقرار کیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے روح کو اس خاکی جسم میں مرکب کیا۔ اس وقت ان روحوں میں سے کچھ نے اس از لی عہد کا اقرار کیا۔ اور ان میں سے کچھ نے اس کو بھلا دیا۔ اور انکار کیا۔ پس جب تم عالم ارواح میں تھے ، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ربوبیت اور وحدانیت کا مشاہدہ کرایا۔ لہذا تم نے اس کی ربوبیت اور وحدانیت کو اس سے پہلے جان لیا ، اور یقین کر لیا۔ کہ وہ تم سے شہادت طلب کرے۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے ازل میں تم سے شہادت طلب کی ۔ تو اس وقت اس نے تمہاری روح کو اپنی ربوبیت اور وحدانیت کا عالم پایا۔ لہذا تم نے اپنی ظاہری زبانوں سے اس کی اس الوہیت کا اقرار کیا ، جس کو تم نے ازل میں پہنچانا تھا۔ اور تم نے اس کی اس وحدانیت کا یقین کیا ، جس کا مشاہدہ تم نے قلوب اور سرائر کے مرکب ہونے سے پہلے کیا تھا۔ لہذار بو بیت کا جو اقرار عالم شہادت میں ظاہر ہوا، وہ اس شہادت کی شاخ ہے، جو عالم غیب میں پہلے ہو چکی ہے۔ اور وحدانیت پر قلوب کا جو یقین ظاہر ہوا ، وہ اس علم کی شاخ ہے۔ جو علوم غیب میں پہلے حاصل ہوا ۔ لہذا بندے پر واجب ہے، کہ وہ ظاہری اقرار اور باطنی توحید کے درمیان جامع ہو۔ لہذا پہلے یعنی ظاہر کی شہادت فرق ہے۔ اور دوسرا یعنی قلب کا یقین جمع ہے۔ حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کی طرف اپنے اس کلام میں اشارہ فرمایا ہے:۔
قدْ تَحَقَقْتَ بِسِرَى حِيْنَ نَاجَاكَ لِسَانِي فَاجْتَمَعْنَا لِمَعَانٍ وَافْتَرَقْنَا لِمَعَانِ
تم نے میرے راز کا یقین کیا جس وقت میری زبان نے تم سے سرگوشی کی۔ لہذا ہم حقیقت کے لئے جمع ہوئے اور حقیقت کے لئے متفرق ہوئے۔
إِنْ يَكُنْ غَيْبَكَ التَّعْظِيمُ عَنْ لَحْظِ عَیَانِي فَقَدْ صَبَّرَكَ الْوَجُدُ مِنَ الْأَحْشَاءِ دَانِي
اگر تعظیم تم کو میری آنکھوں کے دیکھنے سے غائب کر دیتی ہے تو وجد تم کو میرے قلب و جگر سے قریب کر دیتی ہے۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی