مقبول و غیر مقبول دعائیں (تیئسواں باب)

مقبول و غیر مقبول دعائیں کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 219 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنےاس قول میں بیان فرمایا ہے۔
219) لا تَيْأَسْ مِنْ قَبُولِ عَمَلٍ لا تَجِدُ فِيْهِ وُجُودَ الحُضُورِ ، فَرُبَّمَا قَبِلَ مِنَ العَمَلِ مَا لَمْ تُدْرَكْ ثَمَرَتُهُ عَاجِلاً.
تم اس عمل کے قبول ہونے سے مایوس نہ ہو ۔ جس میں تم کو حضوری قلب حاصل نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ اکثر اوقات وہ عمل مقبول ہوتا ہے، جس کا پھل فو رانہیں ملتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے۔ جس شخص کو اس کے عمل کا نتیجہ فورامل جاتا ہے۔ تو یہ اس کے عمل کے قبول ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں ہے۔ کہ اگر کسی عمل کا پھل عامل کو فورانہ ملے تو وہ عمل غیر مقبول ہے۔ بلکہ وہ عمل مسکوت عنہ ہے۔ یعنی اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ لہذا اگر اس عمل میں شریعت کے اعتبار سے قبولیت کے لوازمات زیادہ پائے جائیں۔ اور اگر اس میں اخلاص اور تقوی اور شرعی مضبوطی شامل ہو، تو انشاء اللہ وہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہے۔ خواہ عامل کو فورا (یعنی اس دنیا میں ) اس کا پھل ملے یا نہ ملے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينِ در حقیقت اللہ تعالیٰ متقین ہی سے قبول کرتا ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-
لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ مُسَمَّع وَلَا مُرَاءٍ اللہ تعالیٰ سنانے والے اور دکھانے والے یعنی ریا کار کے عمل کو قبول نہیں کرتا ہے۔
لہذا اگر تم اپنی طاقت کے مطابق اپنے ظاہر اور باطن میں تقوی اختیار کئے ہوئے ہو۔ اور اپنے اعمال میں تم اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص ہو۔ لیکن تم عمل کی لذت اور اپنے قلب کی حضوری نہیں پاتے ہو۔ اور وجد والوں کے احوال اور عارفین کے ذوق میں سے تم کو اپنے عمل کا پھل نہیں حاصل ہوتا ہے۔ تو تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے عمل کے قبول ہونے سے مایوس نہ ہو جاؤ۔ کیونکہ حال کا موجود ہونا اور لذت کا حاصل ہونا عمل کے لئے شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف ایک علامت ہے اور علامت ، اپنی ضد کو لازم نہیں کرتی ہے۔ لہذا اکثر اوقات وہ عمل مقبول ہوتا ہے۔ جس کا پھل فورا نہیں ملتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کا ثواب تم کو آخرت میں عطا فرمائے گا۔ یا اسی دنیا میں دیر سے عطا کرے گا ۔ لہذا تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ تم اپنے عمل کو حقیر سمجھ کر چھوڑ دو۔ اس لئے کہ اس میں تم کو حضوری قلب حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ یا اس لئے کہ تم کو اس میں لذت نہیں مل رہی ہے۔ بلکہ تمہارے اوپر یہ واجب ہے۔ کہ تم ہمیشہ عمل کرتے رہو۔ یہاں تک کہ تم کو اس کا پھل حاصل ہو جائے ۔ کیونکہ جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ قریب ہے کہ اس کے لئے دروازہ کھول دیا جائے ۔ ایک عارف شاعر کے کلام میں غور کرو
أَطْلُبُ وَلَا تَضْجَرَنْ مِنْ مَّطْلَبٍ فَافَةُ الطَّالِبِ أَنْ یَضْجَرًا
تم طلب کرو۔ اور کسی مطلب سے تنگ دل اور پریشان نہ ہوں۔ کیونکہ تنگ دل ہو جانا ہی طالب کے لئے مصیبت ہے۔
امَا تَرَى الْحَبْلَ بِتَكْرَارِه فِي الصَّخْرَةِ الصَّمَّاءِ قَدْ اثرا
کیا تم نہیں دیکھتے ہو، کہ رسی جب سخت پتھر کی چٹان پر بار بار رگڑ کھاتی ہے تو پتھر میں نشان پیدا کر دیتی ہے۔
تم اس عابد کے قصے کو یاد کرو۔ جو مکہ معظمہ میں چالیس سال تک مقیم رہ کر عبادت کرتے رہے۔ اور جب وہ کہتے ( لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ) ”اے میرے اللہ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں ۔ تو ہاتف غیب اس کے جواب میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا :- لا لبيك وَ لَا سَعْدَیْكَ وَ حَجَّكَ مَرْدُودٌ عَلَيْكَ نہ میں تیرے پاس حاضر ہوں۔ (یعنی تیری حاضری میرے پاس مقبول نہیں ہے ) نہ میں تیری مدد کروں گا۔ اور تیراحج تیرے اوپر لوٹا دیا گیا۔ لیکن وہ عابد برابر اپنی جگہ پر قائم رہے۔ نہ وہاں سے ہٹے ، نہ لبیک کہنے سے باز آئے۔ ایک روز ایک شخص ان کی زیارت کرنے کے لئے ان کے پاس آیا۔ جب عابد نے کہا ۔
لبیک ۔ تو اس کے جواب میں ہاتف نے کہا : لا لبیک ۔ یہ سن کر زیارت کے لئے آنے والا شخص واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور اپنے دل میں کہا ۔ شخص مردود بارگاہ ہے ۔ عابد نے اس کو پکار کر پوچھا: ۔ تم کو کیا ہوا۔ تم کیوں واپس جا رہے ہو؟ اس شخص نے کہا ۔ یا حضرت! آپ نے کہا ۔ لبیک ۔ اس کے جواب میں غیب سے آواز آئی – لا لبیک ۔ اس لئے میں واپس جارہا ہوں ۔ عابد نے اس شخص سے کہا :- چالیس سال سے میں یہ جواب سن رہا ہوں ۔ لیکن کیا کروں۔ کیا یہاں اس دروازہ کے سوا کچھ دوسرے دروازے بھی ہیں ۔ کہ میں وہاں جاؤں۔ اس لئے میں اسی کے دروازے پر کھڑا ہوں ۔ اگر وہ مجھ کو ہزار مرتبہ بھی بھگائے گا۔ جب بھی میں اس کے دروازے سے نہ ہٹوں گا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول فرما لیا۔ اور جب پھر انہوں نے کہا ۔ لبیک ۔ تو اس کے جواب میں غیب سے آواز آئی ۔ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ لہذا غور کرو ۔ جو شخص مضبوطی سے دروازے پر کھڑا رہا۔ وہ کس طرح دوستوں میں شامل ہو گیا۔ اور اس کے لئے دروازہ کھول دیا گیا۔
اسی لئے حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے :-
أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگر چہ وہ کم ہو ۔
نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا:-
إِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا جب تک تم نہیں تھکو گے، اللہ تعالیٰ نہیں تھکے گا۔
اور تحمل سے مراد : – عبودیت کے طریقے پر قائم رہنا اور ربوبیت کی تعظیم کرنی ہے۔ اور عمل سے احوال اور مقامات کی خواہش مراد نہیں ہے۔ کیونکہ تو حید خاص والوں کے نزدیک ، یہ اخلاق میں نقص ہے۔ اور کبھی حال ، اس شخص کے لئے حجاب کا سبب ہو جاتا ہے ۔ جو حال کے ساتھ ٹھہر جاتاہے۔ اور اس میں لذت حاصل کرتا ہے۔ اسی لئے بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ عبادت کی لذت سے بچو۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس شخص کے لئے زہر قاتل ہے۔ جو اس کے ساتھ ٹھہر گیا۔ اور اکثر مجھ کو معبود برحق کا شہود اس کے ساتھ حاصل ہوا ہے۔ لہذا تم حال کے بندے نہ بنو۔ بلکہ حال پیدا کرنے والے کے بندے ہو۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں