منافق کی پہچان

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

یہ آخر زمانہ نفاق کا زمانہ ہے۔ اب تو غرور اور تکبر دائمی ہیں، کفر دائمی ہے، غرور کا حجاب تجھے اللہ کی نظر سے گرادے گا اور تیری کچھ قدر نہ رہے گی ، یہ دونوں ضد یں ہیں جو کہ اللہ کی راہ میں تیرے دل کو روکنے والی ہیں ۔ اگرکوئی کہنے والا یہ کہے کہ نفاق کیا چیز ہے تا کہ ہم اس سے بچ سکیں ، اس سے کہا جائے گا کہ رسول اکرم ﷺنے منافق کی پہچان بیان فرمائی ہے کہ منافق :

 جب وعدہ کرتا ہے،پور انہیں کرتا۔ جب بات کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔

ایمان والا جب تک اپنے ٹھہرنے کی جگہ نہیں جان لیتا، اور اپناو ہ لقب جو عالم ملکوت میں ہے نہیں سن لیتا، تب تک اسے :

نہ لباس اچھا معلوم ہوتا ہے نہ نکاح ،نہ کسی طرح کی خوشی اچھی لگتی ہے، نہ امن ہوتا ہے نہ قرار۔

 آخر کار وہ خلوت میں اپنی سابقہ تقدیر کو اور اپنے نام کوسن لیتا ہے، وہ تقدیر اور فرشتوں پر اعتماد کر کے میدانوں اور جنگلوں میں سو جا تا ہے، وہ اپنی حالت کو دیکھ لیتا ہے، اور اپنے لقب کو سن لیتا ہے، فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ یہ  کون ہے، اس کے جواب میں بعض فرشتوں سے بعض کہتے ہیں کہ:

 فلاں محبوب اور دوست ہے، چالیس ابدال میں سے ایک بدل ہے، یا  سات غوثوں میں ایک غوث ہے، یا تین قطبوں میں سے ایک قطب ہے، اس کا ایسا مرتبہ ہے، یہ مرتبہ ہے اور ایسا مرتبہ ہے۔

 تقدیر الہٰی اسے دائیں بائیں کروٹیں دلاتی رہتی ہے، تقدیر بھی اس کے پہلو بدلواتی رہتی ہے، اور اسے غذا پہنچاتی ہے ۔ اللہ ان کا احاطہ کرنے والا ہے، اسے اس کے دل کی جانب سے بات چیت کی آواز آتی ہے، اس سے کہا جا تا اپنے گھر کی طرف لوٹ ، اپنے خزانے کی حفاظت کر اپنےنفس ولقب کو چھپا کر رکھ اسے ایسا سمجھ کر وہ خواب تھا، تیرادل اور باطن اس کی طرف ترقی کر رہا ہے،اور کوئی کہنے والا موجود نہیں ہے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 665،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں