موت کی تیاری

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کے ملفوظات میں سے ہے۔

 ہرنمازایسے ادا کر گویایہ نماز آخری ہے

اے بیٹا تو اپنی آرزوکوگھٹا دے اور اپنی حرص میں کمی پیدا کر، ہر نماز ایسے ادا کر گویا یہ نماز آ خری ہے، کسی مؤمن کے لئے اس وقت تک سونا مناسب نہیں جب تک کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے سرہانے تلے نہ ہو، اللہ اگر اسے عافیت کے عالم میں بیدار کر دے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے، ورنہ اس کے گھر والے اس کی لکھی ہوئی وصیت پالیں گے ، جس کے مطابق فائدہ اٹھائیں گے اور اس کے لئے رحمت کی دعا کریں گے۔ اے بیٹا! تیرا کھانا پینا ، اپنے اہل وعیال میں رہنا سہنا اور اپنے دوستوں سے ملنا ملانا دنیا سے رخصت ہونے والے کی طرح ہونا چاہئے جس کا سب کچھ غیر کے قبضے میں ہو، اس کا حال ایسا کیوں نہ ہو کہ مخلوق میں سے چند ایک لوگ ایسے ہیں جنھیں وہ سب کچھ معلوم ہوتا ہے جوان کے لئے غیب میں ہے، وہ یہ کہ  ان کے لئے کیا ہونا طے پایا ہے۔ ان کے ذریعے کیا کچھ ہوتا ہے، –

ان کی موت کب واقع ہوگی؟یہ سب باتیں ان کے دل کے خزانے میں پوشیدہ ہوتی ہیں ، یہ سب با تیں وہ اس طرح اسے کھلی دیکھتے ہیں جیسے تم اس آفتاب کو دیکھتے ہو، ان کی زبانیں اس کا اظہار نہیں کرتیں۔ اس کی خبر پہلے باطن کو ہوتی ہے ، پھر دل کو، پھر دل ، نفس مطمئنہ کوخبر کر دیتا ہے اور اسے پوشیدہ رکھنے کی تاکید کر دیتا ہے، نفس اس امر پر مؤدب ہونے اور دل کی خدمت گزاری اور اس کی معیت میں رہنے کے بعد خبر دار ہوتا ہے، مجاہدے اور تکلیفیں برداشت کر کے اس کا اہل ہوتا ہے اور پھر اس مقام پر پہنچتا ہے، چنانچہ زمین پر وہ اللہ کا نائب اور خلیفہ بن جاتا ہے ، وہ اللہ کے اسرار کا دروازہ ہوتا ہے جن کے پاس ان دلوں کے خزانوں کی چابیاں آ جاتی ہیں جو اللہ کے خزانے ہیں، یہ ایسی چیز ہے جو مخلوق کی سمجھ سے کہیں بلند ہے۔ ہے۔عارف باللہ میں جو باتیں ظاہر ہوتی ہیں، وہ: –

اللہ کے پہاڑ کا ایک ذرہ

 اس کے دریا کا ایک قطرہ

اس کے آفتاب کا ایک چراغ ہوتی ہیں ۔

 اللهم إني أعتذر اعتذارا إليك من الكلام في هذه الاسرار وانت تعلم إني مغلوب

الہی میں تیرے اسرار کے بارے میں بات کرنے سے معافی چاہتا ہوں اور تیری طرف عذر پیش کرتا ہوں، اور توجانتا ہے کہ میں مغلوب ہوں‘‘۔

 اللہ کے ایک ولی نے فرمایا کہ جس بات پر مجھے معذرت کر نا پڑے اس سے خود کو بچانا چاہئے مگر میں جب اس کرسی پر بیٹھ جا تا ہوں تو تم سے غائب ہو جا تا ہوں اور جس سے عذر چاہنے کی ضرورت پیش آئے وہ میرے دل کے سامنے باقی ہی نہیں رہتا، اور جس کی وجہ سے میں تم پر کلام کرنے سے غیرت کروں ، میں تمہارے پاس ایک بار بھا گا اور تم ہی میں پھر آ پڑا ۔ میں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ ہر رات نئی جگہ گزاروں ، اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف، اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کی طرف سیر کرتا ہوں اور مسافرت کے عالم میں خود کو چھپائے رکھوں حتی کہ موت کا وقت آ جائے ۔یہ تو ارادہ میرا تھا جبکہ اللہ کا ارادہ اس کے برخلاف تھا جو کہ ہوا اور جس سے بھا گا تھاوہیں آ پڑا۔

دل کی درستی اور تکوین کا میدان :

دل جب درست ہو جا تا ہے اور آستانہ الہی پر اس کے قدم جم جاتے ہیں تو وہ تکوین کے میدان اور اس کے جنگلوں اور دریاؤں میں جا پڑتا ہے ۔

کبھی اس کا سرانجام اس کے کلام سے ہوتا ہے۔

کبھی اس عارف کی ہمت سے ،

اور کبھی اس کی توجہ سے،

یہ اللہ کافعل بن جا تا ہے ۔ یہ یکسو ہو جا تا ہے اور فنا ہو جا تا ہے، اور وہی باقی رہتا ہے،تم میں سے اس کی تصدیق کرنے والے کم ہیں، جبکہ اکثریت تکذیب کرنے والوں کی ہے ۔ اس کی تصدیق کرنا اور اس پرعمل کرنا انتہائی مقام  ہے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 570،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں