عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرَیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِاﷲِثُمَّ قَرَأَ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰےَاتٍ لِّلْمُتُوَسِّمِیْنَ (سنن الترمذی:کتاب تفسیر القرآن ومن سورۃ الحجر)
حضرت ابو سعید الخدری ص روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ انے فرمایامومن کی فِراست سے ڈراکرو کیونکہ وہ اﷲتعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے اور پھر آپ انے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی’’بے شک اس میں نشانیاں غور فکر کرنے والوں کیلئے‘‘
’’متوسمین‘‘ کے کئی معنی ہیں بعض نے غور فکر اور بعض نے ’’المتفرسین‘‘نور فِراست رکھنے والے مراد لیا ہے ،علامہ سیوطیؒ نے اس آیت کو فِراست کی بنیاد کہا ہے ۔ فِراست یہ ہے کہ کوئی بات اﷲتعالیٰ اپنے اولیاء کے دلوں میں ڈال دیتا ہے جس سے انہیں دوسروں کے احوال کی خبر ہوجاتی ہے اسے کرامت کہتے ہیں اسے صوفیاء الہام سے تعبیرکرتے ہیں گویا ایک قلبی نور ہے جو فِراست پیدا کرتا ہے۔اسکی ضد’’ العمی‘‘ اندھا پن ہے فِراست صادقہ سچ اور جھوٹ، حق اور باطل کے درمیان فرق اورپہچان کرنے کی صلاحیت ہے ۔اس کا حصول تگ ودو یا جدو جہد سے نہیں یہ تو عطا ہے ۔ ذالک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء۔
تاج العروس میں فِراست کا معنی علامہ زبیدی ؒنے’’ ادراک الباطن‘‘ لکھا ہے باطنی احوال کی خبر رکھنا۔
معجم لغۃ الفقہاء میں محمد قلعجی لکھتے ہیں’’ ما یقع فی القلب‘‘جو قلب میں واقع ہو۔
علامہ علاء الدین المتقی الہندیؒ لکھتے ہیں’’الفراسۃالشرعیۃبمعنی الخوارق،والحکمۃ بمعنی الاستدلال بالشئی علی الشئی وفیہ علامات محبۃاﷲ تعالٰی للعبد‘‘(کنز العمال)
شرعی فراست(جو شریعت کی حدود کے اندر ہو ) خوارق (عام عادت کے خلاف )کے معنی میں ہے اور حکمت ایک شے سے دوسری شے کے استدلال کے معنی میں ہو تی ہے فراست میں اﷲ تعالیٰ کی بندے سے محبت کی علامات بھی ہو تی ہیں ۔
اسکی وضاحت اس عبارت سے بھی ہوتی ہے ’’الفراسۃالمھارۃفی تعرف بواطن الامور من ظواھرھا‘‘
ظاہری امور سے باطنی امور کی معرفت میں مہارت کو فراست کہا جاتا ہے ۔ (دیوان امام الشافعی)
امام قشیریؒ فرماتے ہیں’’الفراسۃ مکاشفۃ الیقین،ومعائنۃ الغیب وھو من مقامات الایمان‘‘(الرسالۃ القشیریۃ)
فراست ایمان کے مقامات میں سے ایک مقام ہے جس سے یقین کا کشف اور غیب کو دیکھنا ہوتا ہے۔
علامہ الشعرانی ’’الطبقات الکبریٰ‘‘میں فِراست کے متعلق لکھتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ اسباب کو کھول دیتے ہیں ،حجاب اٹھا لئے جاتے ہیں اوراﷲ باطنی طریقوں سے اطلاع فرماتے ہیں ‘‘
قال احمد بن عاصم الانطاکی’’اذا جلستم اھل الصدق فجالسوھم بالصدق فانھم جواسیس القلوب یدخلون فی قلوبکم ویخرجون منھا من حیث لا تحسون‘‘(الرسالۃ القشیریۃ،بحر الفوائد)
حضرت احمد بن عاصم الانطاکی ؒ فرماتے ہیں ’’جب تم اہل صدق میں بیٹھو تو صدق سے بیٹھا کرو کیونکہ وہ دلوں کے جاسوس ہوتے ہیں جو تمہارے دلوں میں داخل ہو کر وہاں سے وہ کچھ نکال لیتے ہیں جنہیں تم محسوس بھی نہیں کر سکتے ‘‘
اسی بارے میں مولانا روم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
چوں زند او نقد ما را بر محک پس یقین رابا ز داند او زشک
جب وہ ہمارے نقد کو کسوٹی پر رگڑتا ہے تو وہ یقین کو شک سے جدا کر لیتا ہے
چوں شود جانش مِحَکِّ نقد ہا پس بہ بیند نقد را او قُلب را
جب اس کی جان نقدوں کی کسوٹی بن جاتی ہے تو وہ کھرے اور کھوٹے کو سمجھ جاتا
من ترک النظر المحرم عوضہ اﷲ فراسۃ صادقۃ ،ونورا وجلاء،ولذۃیجدھا فی قلبہ(دروس رمضان از الشیخ محمد ابراہیم)
جو کوئی اﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو چھوڑتا ہے اور محبت رکھنے والی چیزوں محبت کرتا ہے تو اسے اﷲ تعالیٰ فِراست صادقہ عطا فرماتا ہے یہ ایک نور اور روشنی ہے اورایک لذت ہے جو قلب کو محسوس ہوتی ہے ۔
اور جس ہستی کو یہ روشنی ملتی ہے وہ لوگوں میں ممتاز ہو جاتا ہے کیونکہ وہ غیب کی خبریں دیتے ہیں اور باطنی حکمتوں کو کھولتے ہیں جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یا ساریۃ الجبل کہا تھا (القرطبی)
حضرت شاہ الکرمانی ؒفِراست کے حصول اور اسباب کے متعلق فرماتے ہیں :۔
’’جس شخص کی ظاہری عمر اتباع سنت میں گذرے،باطن ہمیشہ مراقبہ میں ہو ،حرام کردہ چیزوں سے آنکھ کو محفوظ رکھے،شہوات سے اپنے نفس کو روکے رکھے اور حلال غذا کھائے اسے اس کی فِراست کبھی خطا نہ کرائیگی من ترک ﷲ شیئا عوضہ اﷲ تعالیٰ خیرا منہ جو اﷲ کیلئے کسی چیز کو چھوڑتا ہے اﷲ تعالیٰ اس سے بہتر عوض دیتا ہے ۔جب اس نے ظاہری آنکھ کو بچایا اس کا عوض باطنی آنکھ کا کھلنانور بصیرت کا حاصل ہونا ہے ‘‘(سلوۃ الاخزان)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی زندگیاں ایسے اعمال کا پتہ دیتی ہیں کہ یہ نور وافر طریقے سے انہیں میسر تھا مثلاً:۔
ایک دفعہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوئے کہ راستہ میں کسی عورت پر نظر پڑ گئی تھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھتے ہی فرمایاید خل احدکم علیّ وفی عینیہ اثرالزنی (بعض لوگ میرے پاس آتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں زنا کا اثر ہوتا ہے)حضرت انس رضی اللہ عنہ بول اٹھے اوحیا بعد رسول ا ﷲﷺ (کیا رسول اﷲا کے بعد پھر وحی اترنا شروع ہوگئی ہے) تو جواب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا لاولکن برھان وفراسۃ وصدق( نہیں لیکن یہ تو دلیل و فِراست اور صداقت کا نتیجہ ہے )(القرطبی)
مولانا روم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
مومن ار ینظر بنور اﷲ نبود عیب مومن را برہنہ چوں نمود
اگر مومن ینظر بنوراﷲنہیں تھا تو اس نے مومن کا عیب صاف طور پر کیسے بتا دیا
اور جب ہم اولیاء اﷲ کی زندگیاں دیکھتے ہیں تو ان میں بھی اﷲ کا نور اسی طرح روشنیاں بکھیرتا نظر آتا ہے
ایک عیسائی نوجوان مسلمانوں جیسی شکل و صورت بناکر حضرت جنید بغدادیؒ کے پاس آیا اورپوچھا
’’اے ابو القاسم اس قول رسول ا کے کیا معنی ہیں (اسی حدیث مبارکہ اتقوا فرسۃ المؤمن کوپڑھا) تو آپ نے سر کو اوپر اٹھا کرفرمایا کہ(اسلم فقد آن لک ان تسلم) اسلام لے آاب تیرا وقت اسلام لانے کا آ چکاہے ۔وہ مسلمان ہو گیا (البدایہ والنھایہ)
اس کا ذکر رسول اﷲ ا نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں ایسی فِراست والے تھے جنہیں ’’محدَّث‘‘کہا جاتا اور فرمایا
(فانہ ان کان فی امتی ھذہ فھو عمر بن الخطاب)اگر میری امت سے کوئی بھی ہوا تو وہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہو گا ۔
علامہ اسماعیل حقی ؒفرماتے ہیں یہ محدّث ہونے کی نفی نہیں بلکہ حضرت عمر فاروق ص کی فضلیت ہے۔
امام المتفرسین ،وشیخ المتوسمین حضرت عمر بن الخطاب ص کو کہا جاتا ہے جنکی فِراست نے کبھی خطا نہ کی اور جنکی فِراست کی تائید وحی الٰہی کے ذریعے ہوئی۔
حضرت عبد اﷲ ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنھما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا خواب میں مجھے ایک دودھ کا پیالہ دیا گیا میں نے اچھی طرح پی لیا حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو دے دیا صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اﷲﷺ آپ نے اس کی کیا تعبیر لی ؟آپﷺ نے فرمایا علم (صحیح بخاری: کتاب العلم :باب فضل العلم)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں’’وکان عمر بن الخطاب اعظم الناس فراسۃ‘‘(فتاویٰ الکبریٰ) حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فراست میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے۔
امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت خضرؑ کو علم فِراست حضرت موسیٰ ؑکی صحبت کی وجہ سے نصیب تھا جو برہان کیلئے عطا ہوتا ہے تو حبیب کی امت کو یہ علم حقیقی صحبت مصطفی ﷺسے کیوں نہ نصیب ہو گا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو علم تعبیر عطا ہوا جو علم فِراست اور الہامی علوم کا حصہ ہے یہ بھی اﷲ تعالیٰ کی عطا ہے ۔
امام قشیریؒ فرماتے ہیں المؤمن ینظر بنور الفراسۃ،والعارف ینظر بعین التحقیق،والنبیﷺ ینظر باﷲولا تستتر علیہ شیئا(روح البیان)
مومن نور فراست سے دیکھتا ہے اور عارف تحقیق کی آنکھ سے دیکھتا ہے نبی اﷲ سے دیکھتا ہے اوراس پر کوئی شے پوشیدہ نہیں رہتی ۔
اﷲ تعالیٰ بعض علم غیب سے ولی کو بھی نوازتا ہے جو رؤیائے صادقہ ،فِراست یا تجلی قلب کے ذریعہ سے ہوتا ہے کیونکہ ہر ولی کی کرامت نبی کے معجزے کا پرتو ہوتا ہے
اور حضرت جنیلؒ سے سوال کیا گیا کہ فِراست کیا ہے تو جواب دیا :۔
’’آیات ربانیۃتظہر فی اسرار العارفین فتنطق ألسنتھم بذالک فتصادف الحق‘‘(روح المعانی)
عارفوں کے اسرار کو ظاہر کرنے والی اﷲ کی نشانیاں جس سے ان کی زبانیں اس طرح باتیں کرتی ہیں کہ حق سے دور نہیں ہوتیں ۔
قرآن پاک میں ہے :۔
واتینہ الحکم صبیا(مریم:12)’’ اور ہم نے انہیں دانائی عطا کی جبکہ وہ ابھی بچے تھے‘‘ حضرت یحیٰؑ تین سال کے تھے کہ انہیں فہم و حکمت عطا ہوگئی اس حکمت کو نبوت عطا ہونے سے پہلے فِراست صادقہ سے تعبیر کیا گیا اسے ابو نعیمؒ نے یوں بیان کیا ورواہ ابو نعیم وتنطق بتوفیق اﷲ(ابن کثیر)کہ وہ اﷲ کی توفیق سے بولتے تھے۔
حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں کہ تین لوگوں نے بہترین فِراست دکھائی
ایک عزیز مصر نے جب حضرت یوسف ؑکو حاصل کیا اورکہا عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا(یوسف:21)
دوسری حضرت شعیبؑ کی بیٹی نے جب اس نے اپنے باپ کو حضرت موسیؑ کے متعلق کہا استاجرہ ان خیر من استاجرت القوی الامین(القصص:26)
اور تیسری حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا (القرطبی)
مومنین کیلئے فِراست مخصوص ہے یہ وہ ہدایت ہے جو اﷲ تعالیٰ مومن کے حال کے مطابق عطا کرتا ہے۔گویا ایک قلبی آنکھ ہے جو صاحب فِراست کو ملتی ہے
وقال ابو عثمان الفراسۃ ظن وافق الصواب والظن یخطی ویصیب لانہ اذا ذاک یحکم بنوراﷲلا بنفسہ
حضرت ابو عثمان ؒفرماتے ہیں ’’کہ فِراست بھی ایک گمان ہے جو صحیح سے موافقت کئے ہے ظن صحیح اور خطا ہو سکتا ہے فِراست خطا نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کے نور سے ہے نہ کہ نفس سے ‘‘(طبقات الصوفیہ)
اﷲ والوں کو اﷲ کی طرف سے یہ عطا ہوتی ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں سے آگاہ ہوتے ہیں لہذا ان سے بات چیت کرتے ہوئے دلوں کے آداب کی انتہائی ضرورت ہو تی ہے ان کے سامنے بیٹھ کر اس نور کے تصدق سے اپنے دلوں کے اندھیرے کو دور کرنا اہل ایمان کا شیوہ رہا ہے اور جو لوگ اس دل کے اندھیرے کو دور کرنے کے اہل تو نہیں ہوتے لیکن دعویٰ کرتے ہیں اﷲ کے نور سے نہیں اﷲ کی نار (آگ)سے دیکھتے ہیں ان کی ظاہر ی پہچان یہ ہوتی ہے کہ ان کے اعمال اور کردار میں اﷲ اور اس کے رسول ا کی نافرمانی جھلک رہی ہوتی ہے ۔
چونکہ تو ینظر بنار اﷲبُدی نیکوئی را ندیدی از بدی
چونکہ تو ینظر بنار اﷲ تھا اس لئے نیکی کو بدی سے نہ پہچان سکا
اﷲتعالیٰ اپنے فِراست والے بندوں کا ادب کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔