تجلی ذاتی کے مقامات مکتوب نمبر3 دفتراول

یاروں کے ایک خاص مقام پر رک جانے اور بعض یاروں کے اس مقام سے گزرنے اور تجلی ذاتی کے مقامات تک پہنچنے کے بیان میں یہ بھی اپنے پیر بزرگوار قدس سرہ کی خدمت میں لکھا ہے۔

گزارش ہے کہ وہ یار جو یہاں ہیں اور ایسے ہی وہاں کے یار، ہر ایک ان میں سے خاص مقام پر رکا ہوا ہے۔ ان مقامات سے ان کے نکالنے کا طریق مشکل ہے۔ بندہ اس قدر طاقت جو اس مقام کے مناسب ہے اپنے آپ میں نہیں پاتا۔حق سبحانہ و تعالی حضور کی توجہ کی برکت سے ترقی بخشے۔

اس خاکسار کے خویشوں میں سے ایک آدمی اس مقام سے گزر کرتجليات ذاتی کی ابتداء تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا حال بہت اچھا ہے۔ خاکسار کے قدم پر قدم رکھتا ہے۔ دوسروں کے حق میں بھی امیدوار ہے۔

دوسرا یہ عرض ہے کہ وہاں کے یاروں میں سے بعض یار مقربین(وہ اولیائے کاملین جو ذکر و فکر، مراقبات، تجرید و تفرید، فنا و بقا اور استہلاک و استغراق کے ذریعے منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے واصل باللہ ہوں وہ مقربین کہلاتے ہیں) کے طریق کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے۔ ان کے حال کے موافق ابرار (وہ اَولیائے کرام جو احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کے علاوہ مجاہداتِ شدیدہ اور ریاضاتِ شاقّہ کے ذریعے مراتب سلوک طے کرکے واصل بحق ہوں ابرار کہلاتے ہیں)کا طریق ہے۔ غرض جو یقین کہ انہوں نے حاصل کیا ہے وہ بھی غنیمت ہے۔ اسی طریق پرحکم فرمانا چاہئے ۔

ہر کسے راہ بہر کا رے ساختند     ترجمہ ہر ایک کسی  کے واسطے ایک کام ہے

 مفصل طور پران کے نام لکھنے میں اس واسطے جرأت نہ کی کہ حضور سے مخفی نہ ہوں گے اس واسطے زیادہ گستاخی نہ کی۔

عریضہ لکھنے کے دن میر سید شاہ حسین نے اپنی مشغولی و مراقبہ میں ایسا دیکھا کہ گویا ایک بڑے دروازہ پر پہنچا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ دروازہ حیرت (سالک کا مرتبہ احدیت میں محو ہو جانا اور تجلی اسم ھو کا مشاہدہ کرنا اس کے لیے مقام حیرت ہے)ہے اس کے اندر جو نظر کرتا ہے۔ .

 حضورﷺکو اور اس خاکسار کو دیکھتا ہے اور ہر چند کوشش کرتا ہے کہ اپنے آپ کو اس کے اندر ڈالے لیکن اس کے پاؤں یاری نہیں کرتے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ39 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں