نعمتوں کے اصول و فروع کے عنوان سے باب دہم میں حکمت نمبر 97 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے نعمتوں کے اصول و فروع کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
97) نِعْمَتانِ ما خَرَجَ مَوْجودٌ عَنْهُما ، وَلا بُدَّ لِكُلِّ مُكَوَّنٍ مِنْهُما : نِعْمَةُ الإيجادِ ، وَنِعْمَةُ الإِمْدادِ.
دو نعمتیں ہیں، جن سے کوئی موجود خارج نہیں ہے ۔ اور کل موجودات ( مخلوقات ) کے لئے دونوں لازمی و ضروری ہیں ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ایجاد کی نعمت وہ عالم غیب سے عالم شہادت میں، یا عالم امر سے عالم خلق میں، یا عالم ارواح سے عالم اجسام میں، یا عالم قدرت سے عالم حکمت میں، یا عالم تقدیر سے عالم تکوین میں ظاہر کرتا ہے۔ امداد کی نعمت وہ اشیاء کے وجود کے بعد اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ قائم ہونا ہے۔ اور ان کے لئے ان چیزوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی امداد جو ان کے وجود کے قائم رہنے کے لئے ضروری ہے۔ اور یہ دونوں نعمتیں سب کے لئے عام ہیں۔ اور انسان ان نعمتوں کے لئے خاص کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس میں دو ضدیں ( متضاد، ایک دوسرے کیخلاف ) جمع کی گئی ہیں۔ اور وہ نور و ظلمت، اور لطافت و کثافت ہیں۔
پس اے انسان! اگر تو اسی عدم ( نیستی) کی حالت پر باقی رہتا جو عالم قدم (قدیمی) میں تھی ۔ تو تو ، دو نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھاتا: اجسام کی نعمت ، اور ارواح کی نعمت۔ اور اگر تیرے اندر ایک طرف سے تجلی ہوتی تو تو معرفت کے شہود میں ناقص رہتا۔ اور آدمی کی فضیلت ،معرفت میں زیادہ ہوتی ہے۔ اور مجاہدہ کے مطابق مشاہدہ میں ترقی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کے اندر کثافت اور لطافت ہے۔ تو جب وہ کثافت سے لطیف یعنی پاک ہوتا ہے۔ اپنے رب کے مشاہدہ میں ترقی کرتا ہے۔ اور اس وجہ سے کہ اس کے اندر نور اور ظلمت ہے۔ تو جب ظلمت ختم ہوتی ہے۔ نور قوی ہوتا ہے۔ بخلاف غیر انسان کے مثلاً جن اور غیر مقرب فرشتے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے حق میں فرمایا ہے: (وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُوم) اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقرر مقام یعنی مرتبہ ہے۔
پس آدمی کی مثال: سیاہ یا قوت کی طرح ہے۔ جو تمام یا قوتوں سے بڑا اور قیمتی ہوتا ہے۔ جتنا تم اس کو صیقل (صاف) کرو گے وہ اتنا ہی چمکے گا۔ اور اس کی روشنی اور خوب صورتی بڑھے گی۔ اور فرشتوں کی مثال: آئینہ کی طرح ہے۔ جب ایک مرتبہ صیقل کیا جاتا ہے تو پوری طرح صاف ہو جاتا ہے۔ اور اس کی چمک اپنی اصل سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ پس اے انسان! اگر تو قدم کے قبضے کے بعد اسی عدم یا لطافت کی حالت پر تو باقی رہتا ، جس پر تو تھا تو تجھ کو دوسروں (جن، اور فرشتوں ) پر کوئی فضیلت نہ ہوتی ۔ اور اس حقیقت پر، کہ آدمی کی تجلی کی بڑی خصوصیت اس کے قلب اور نظر کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول رہنمائی کرتا ہے: (وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ) اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور کلام صرف خواص کے ساتھ ہے۔ کیونکہ آدمیوں کے خواص الخواص: یعنی انبیاء علیہم السلام فرشتوں کے خواص سے مرتبے میں بلند ہیں۔ اور فرشتوں کے خواص، یعنی مقربین آدمیوں کے خواص، یعنی عارفین سے مرتبے میں بلند ہیں۔ اور عارفین : عام فرشتوں سے مرتبہ میں بلند ہیں۔ اور عوام فرشتے آدمیوں کے عوام سے مرتبہ میں بلند ہیں ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
پس اے انسان! حق سبحانہ تعالیٰ نے پہلے ایجاد کی نعمت سے تیرے اوپر انعام کیا۔ اور رحمت اور محبت کو تیرے ساتھ کر دیا۔ تا کہ تیری فضیلت ظاہر ہو ۔ اور تیری نعمت پوری ہو جائے ۔ پھر دوبارہ ظاہری و باطنی امداد کی نعمت سے تیرے اوپر انعام کیا ۔
ظاہری اعداد: وہ بشریت کی غذا ہے۔ اس کی پیدائش کی ابتدا ہے، اس کی آخری انتہا تک ۔
باطنی امداد و ہ یقین و علوم معارف واسرار سے روح کی غذا ہے۔
اور باطنی امداد: اپنی کیفیت کے اعتبار سے تین قسم میں منقسم ہے۔ پہلی باطنی امداد: وہ ہے جو نہ زیادہ ہوتی ہے نہ کم ۔ اور وہ فرشتوں کی امداد ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُوم) اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقرر مقام ہے ۔ باطنی امداد کی دوسری قسم وہ ہے جو زیادہ اور کم ہوتی رہتی ہے۔ اور وہ عوام آدمیوں کی امداد ہے۔
باطنی امداد کی تیسری قسم وہ ہے۔ جو زیادہ ہوتی ہے کم نہیں ہوتی۔ اور وہ خواص آدمیوں کی امداد ہے۔ مثلاً انبیاء و مرسلین علیہم السلام، واولیائے عظام رضی اللہ عنہم اور وہ فقراء ومریدین سائرین جوان سے تعلق رکھتے ، اور ان کی تربیت میں داخل ہوتے ، اور ان کی خانقاہوں میں جمے رہتے ہیں۔ پس ان کی امداد ہمیشہ زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ اور روح کے لئے یہ امداد: اس کے بشریت کے ساتھ ملنے سے قبل ثابت ہے۔ کیونکہ اسی میں ربوبیت کا اقرار کیا۔
امداد کے سبب ارواح نے عالم ذر (عالم ارواح ) مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تنویر میں فرمایا ہے۔ تم یہ جان لو کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر سے تمام حالات میں تمہاری سرپرستی فرمائی اور ان تمام حالات میں اپنے احسانات کو تمہارے ساتھ قائم رکھا۔ پھر تمہارے لئے بہترین تدبیر کے ساتھ یوم مقادیر روز اول يوم الستُ بِرَبِّكُمْ قَالُو بَلی میں قائم ہوا۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا۔ ہاں ، ہیں۔
اور تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی بہترین تدبیروں میں سے یہ ہے: اس نے تمہیں اپنی معرفت عطا کی۔ تو تم نے اس کو پہچانا۔ اور تمہارے سامنےتجلی کی ۔ تو تم نے اس کا مشاہدہ کیا۔ اور اس نے تمہیں بات کرنی سکھائی۔ اور اپنی ربوبیت کے اقرار کرنے کا تم کو الہام کیا۔ تو تم نے اس کی وحدت کا اقرار کیا۔ پھر اس نے تم کو نطفہ بنا کر پشتوں میں امانت رکھا۔ وہاں اس نے اپنی تدبیر کے ساتھ تمہاری ، اور جس میں تم تھے، اس کی حفاظت کرتے ہوئے تمہاری سر پرستی فرمائی ۔ اور اپنے باپ داداؤں میں حضرت آدم علیہ السلام تک جتنے لوگوں میں تم تھے، ان کے وسیلے سے تم کو مدد پہنچا کر تمہاری سر پرستی کی ۔ پھر اس نے تم کو ماں کے رحم میں ڈالا۔ پھر بہترین تدبیر سے تمہاری سر پرستی فرمائی ۔ اور رحم کو تمہارے لئے قبول کرنے والی زمین بنائی تا کہ اس میں تمہارا پو دا پروان چڑ ھے۔ اور امانت گاہ بنائی ۔ تا کہ اس میں تم کو تمہاری زندگی عطا کی جا سکے۔ پھر اس سبحانہ تعالیٰ نے تمہیں دو نطفوں ماں اور باپ کے درمیان جمع کیا۔ اور تمہارے لئے ان دونوں میں محبت پیدا کی۔ پھر انہیں دونوں کے ذریعے تم اس چیز کے اہل ہوئے جس پر حکمت الہٰی کی بنیا د رکھی گئی ہے۔ یعنی کہ ازدواج ہی پر وجود کا بالکل انحصار ہے۔ پھر تم کو نطفہ کے بعد ایسا علقہ (جونک کی طرح جما ہوا خون ) بنایا ، جو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق دوسری حالت کی طرف منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔
پھر علقہ کے بعد مضغہ بنایا۔ (لوتھڑا) پھر اللہ تعالیٰ نے لوتھڑے میں تمہاری صورت کا نقشہ اور تمہاری بنیاد یعنی ڈھانچہ بنایا۔ پھر اس کے بعد تمہارے اندر روح پھونکی ۔ پھر اس نے رحم مادر میں حیض کے خون سے تم کو غذا پہنچائی۔ پھر اس نے تم کو رحم مادر سے نکال کر وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لئے اپنی روزی مقرر کی۔ پھر اس نے تم کو رحم مادر میں باقی رکھا۔ یہاں تک کہ تمہارے اعضاء قوی اور ہاتھ پاؤں مضبوط ہو گئے تا کہ وہ تم کو اس کی طرف جو تمہارے لئے یا تمہارے اوپر مقدر کی گئی ہے نکلنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اور تا کہ وہ تم کو نکال کر ایسے گھر کی طرف لے جائے جس میں تم اپنے اوپر اس کے فضل و کرم ، اور اپنے ساتھ اس کے عدل وانصاف کو پہچانو ۔ پھر جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تم کو رحم مادر سے زمین پر نازل کیا۔ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ تم سخت قسم کی غذاؤں کو نہیں کھا سکتے اور نہ تمہارے منہ میں دانت ہیں نہ داڑھ، جس سے تم اپنے کھانے کی چیزوں میں مدد حاصل کر سکو۔ تو اس نے دونوں پستانوں میں ہلکی لطیف غذا ( دودھ ) جاری کیا۔ اور ان دونوں میں دودھ پیدا کرنے کے لئے رحمت اور شفقت کے اس جذ بہ کو مقرر کیا جو اس نے ماں کے دل میں پیدا کیا ہے۔ تو جب بھی دودھ نکلنے سے رک جاتا ہے تو وہ رحمت اور شفقت اس کو نکلنے کے لئے آمادہ کرتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ماں کے دل میں پیدا کیا ہے۔ ایسی آمادگی جس میں سستی نہیں ہوتی۔ اور ایسا ابھارنا جس میں کمی نہیں ہوتی ۔ پھر اس سبحانہ تعالیٰ نے باپ اور ماں کو تمہاری بھلائیوں کے حاصل کرنے ، اور تمہارے اوپر شفقت اور رحمت کرنے ، اور تمہاری طرف محبت کی نظرت دیکھنے میں مشغول کیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ رحمت ہے، جس کو اس نے بندوں کے لئے باپ اور ماں کے مظاہر میں اپنی محبت کو پہچان کرانے کے لئے جاری کیا۔ اور در حقیقت تمہاری سر پرستی صرف اس کی ربوبیت نے کی۔ اور تمہاری پرورش اس کی الوہیت نے کی۔ پھر اس سبحانہ تعالیٰ نے سن بلوغ تک تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری نگہداشت کرنا باپ پر لازم کر دیا۔ اور یہ اس نے ان کے اوپر تمہارے ساتھ اپنی رحمت کی بناء پر واجب کیا۔ پھر اس نے تمہاری سمجھ کے مکمل ہونے کی عمر تک تکلیف کے قلم کو تمہارے اوپر سے اٹھا لیا۔ (یعنی فرائض و احکام کی پابندی کی تکلیف عاقل، بالغ ہونے سے پہلے نہیں دی ) اور بالغ ہونے کا وقت : احتلام کے جاری ہونے کا وقت ہے۔ اور کہولت (ادھیٹر) کی عمر میں تمہارے پہنچنے تک اپنی بخشش اور فضل تم سے نہیں روکا۔ پھر جب بوڑھے ہو جاؤ گے ۔ پھر جب اس کی طرف جاؤ گے ۔ پھر جب اس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے۔ پھر جب وہ تم کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ پھر جب وہ تمہیں اپنے عذاب سے نجات دے گا۔ پھر جب وہ تم کو اپنے ثواب کے گھر جنت میں داخل کرے گا۔ پھر جب وہ تم سے اپنا حجاب دور کر دے گا۔ اور تم کو اپنے اولیاء اور احباب کی مجلس میں بٹھائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيکٍ مُّقْتَدِرٍ
بے شک متقی لوگ سچائی کے مقام میں اقتدار والے بادشاہ کے پاس باغوں میں ہوں گے جن میں نہریں بہتی ہوں گی۔ تو تم اللہ تعالیٰ کے کس کس احسان کا شکر ادا کرو گے؟ اور کن کن نعمتوں کو یاد کرو گے ؟ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان سنو:
وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ اور تمہارے پاس جو کچھ نعمت ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
تم یہ جان لو: تم اللہ تعالیٰ کے احسان سے باہر نہیں ہوئے ہو۔ اور اس کا فضل و کرم تم کو بھی نہ چھوڑے گا۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی کتاب تنویر میں بیان کیا ہے۔ اور وہ ایجاد اور امداد، دونوں نعمتوں پر شامل ہونے کی وجہ سے اس حکمت کی شرح ہے۔ اور باطنی امداد کی نعمت میں سے اسلام اور احسان کی نعمت ہے۔ اور اس کی حفاظت ، اور اس کا ہر وقت اور ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہمیشہ رہتا، اور معرفت اور یقین میں ترقی کی زیادتی ہے قیامت تک (فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ )پس سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔
پھر چونکہ ان دونوں نعمتوں کی طرف نظر کرنے سے مقصود انسان ہے۔ اگر چہ یہ دونوں نعمتیں تمام مخلوق میں عام ہیں۔ کیونکہ ان کا شکر ادا کرنے کے لئے اور ان کا ذکر بیان کرنے کے لئے انسان میں مطلوب ہے۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی