نفحات کی عبارت کے حل اورضروری نصیحتیں مکتوب نمبر210دفتر اول

نفحات کی عبارت کے حل کرنے اور بعض ضروری نصیحتوں کے ذکر میں ملاشکیبی اصفہانی کی طرف لکھاہے۔ 

آپ کا شریف و لطیف خط جواز روۓ شفقت و مہربانی کے اس حقیر بے سروسامان کے نام لکھا ہوا تھا شرف صدور لایا اور اس کے مطالعہ سے بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ آپ سلامت رہیں اور سلامت ہی جائیں اور جب تک رہیں فقراء کی محبت پر رہیں اور جب چاہیں ان کی محبت کا سرمایہ لے کر جائیں اور جب اٹھیں ان کی محبت میں اٹھیں۔ بحرمت اس وجود پاک کے جس نے فقر پر فخر کیا اور اس کو دولت مندی پر اختیار کیا وَصَلَّى اللَّهُ تَعَالٰی  سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ۔ 

آپ نے ازروئے کرم کے لکھا تھا اس حکایت کا اصل معاملہ کیا ہے جونفحات میں شیخ ابن السکینہ قدس سرہ کے مرید کی نسبت مذکور ہے کہ ایک دن دریائے دجلہ(عراق) میں غسل کے موقع پرغوطہ لگایا اور سر دریائے نیل(مصر) سے جا نکالا اور مصر میں چلا گیا اور وہاں شادی کی اور اس کے ہاں بچے پیدا ہوئے اور سات سال تک مصر میں مقیم رہا۔ اتفاقا پھر ایک دن غسل کے لئے دریائے نیل میں غوطہ لگایا اور سر دریائے دجلہ میں جا نکالا دیکھا کہ اس کے کپڑے جو دریائے دجلہ کے کنارہ پر رکھے تھے، بدستور موجود ہیں۔ ان کپڑوں کو پہن کر گھر آیا۔ اس کی بیوی نے کہا کہ مہمانوں کے کھانا جو آپ نے فرمایا تھا، تیار ہے۔ الی آخرہ۔ 

میرے مخدوم !اس حکایت کا اشکال اس وجہ سے نہیں ہے کہ برسوں کا کام ایک گھڑی میں کیسے میسر ہوگیا کیونکہ اس تم کا معاملہ بہت واقع ہوتا ہے۔ 

حضرت رسالت خاتمیت ﷺشب معراج میں عروج   کے مرتبے طے کرنے اور رسول کی منزلیں قطع کرنے کے بعد جو کئی ہزار برسوں میں میسر ہوئیں جب اپنے دولت خانہ میں واپس آئے تو دیکھا کہ بستر خواب ابھی گرم ہے اور کوزہ میں وضو کا پانی ابھی حرکت میں ہے۔ 

اس کی وجہ وہی ہے جواس حکایت کے نقل کرنے کے بعد نفحات میں مذکور ہے کہ یہ بات بسط زمان کی قسم سے ہے بلکہ اس حکایت کا اشکال اس سبب سے ہے کہ بغداد میں جو وقت ہو، وہی مصر میں ہو۔ حالانکہ عرصہ سات سال کا درمیان پیدا ہو۔ مثلا اہل بغداد اس وقت سن تین سو ساٹھ ہجری (360)میں ہوں اور اہل مصر اس وقت تین سو سڑسٹھ(367) ہجری میں عقل ونقل اس بات کو پسند نہیں کرتی۔ یہ معاملہ ایک یا دوشخصوں کی نسبت ہو تو جائز ہے لیکن شہروں اور متعدد مکانوں کی نسبت محال ہے جو کچھ اس فقیر کی خاطر فاتر میں گزرتا ہے وہ یہ ہے حکایت حالت بیداری سے نہیں ہے بلکہ خواب و واقعات کی قسم سے ہے کہ سننے والے کے لئے خواب رؤیت سے مشتبہ ہوگئی ہے اور نیند سے بیداری کا وہم گزرا ہے۔ اس قسم کے اشتباه بہت واقع ہوتے ہیں بلکہ اسی اشتباه کے ظن سے ہے کہ خواب میں دیکھا ہے اور خواب میں اپنے پیر سے کہا ہے اور فرزندوں کو لایا ہے وغیرہ وغیرہ اور وہ حکایت بھی جو اس حکایت کے بعد محی الدین بن عربی قدس رہے نقل کرتے ہیں اسی قسم سے ہے۔ ۔ وَاللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بِحَقَائِقِ ‌الْأُمُورِ كُلِھَا اور تمام امور کی اصلی حقیقت الله تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ 

آپ نے لکھا تھا کہ اس عبارت کی شرح لکھنی چاہیئے کہ جسد کا مر بی روح ہے اور قالب(جسم) کامربی قلب۔ میرے مخدوم ان دونوں عبارتوں کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ انسان کے عالم خلق کو اس کے عالم امر سے تربیت کرتا ہے اور چونکہ جسد کا لفظ روح کے لفظ کے ساتھ اکثر استعمال واقع ہوتا ہے اور قالب و قلب کے درمیان لفظی مناسبت ہے اس واسطے ہر ایک کو اپنے مناسب لفظ کے ساتھ جمع کر کے عبارت کا اختلاف اختیار کیا گیا ہے آپ نے نیتوں کی طلب ظاہر فرمائی تھی۔ 

میرے مشفق مخدوم !شرم آتی ہے کہ باوجود اس خرابی اور گرفتاری اور بے سامانی اور بے حاصلی کے اس بارہ میں کچھ لکھے اور صریح طور پریا اشارہ کے طور پر اس قسم کی کلام کرے لیکن اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر قول معروف سے اپنے آپ کو معاف رکھے تو اس سے خست اورکمینہ پن ظاہر ہوتا ہے اور بخل و کنجوسی کی نوبت پہنچتی ہے۔ اس لئے چند باتیں لکھنے کی جرأت   کرتا ہے۔ 

میرے مخدوم ! دنیا کی بقاء کی مدت بہت قلیل ہے اور اس قلیل سے بھی اکثر تلف ہوگئی ہے اور بہت کم باقی رہ گئی ہے اور بقائے آخرت کی مدت خلود اور دوام ہے اور معاملہ خلود کو بقائے چند روزہ کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ بعد ازاں یا دائمی راحت ہے یا دائمی عذاب۔ 

مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خبر دی ہے وہ یہ ہے اس میں خلاف کا احتمال نہیں ہے اپنی عقل دور اندیش سے کام لینا چاہیئے۔ 

میرے مخدوم ! عمر کا بہتر اور قیمتی حصہ ہوا و ہوس میں گزر گیا اور خدائے تعالیٰ کے دشمنوں (نفس و شیطان)کی رضا مندی میں بسر ہوا اور عمر کا نکما حصہ باقی رہ گیا ہے اگر آج ہم اس کو خدائے تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے میں صرف نہ کریں اور اشرف(عمر کی غفلتوں) کی تلافی ارذل (عمر کی عبادتوں)سے نہ کریں اور تھوڑی محنت کو ہمیشہ کے آرام کا وسیلہ نہ بنائیں اور تھوڑی نیکیوں سے بہت سی برائیوں کا کفارہ نہ کریں۔ کل کونسا منہ لے کر ہم خدائے تعالیٰ کے سامنے جائیں گے اور کیا حیلہ پیش کریں گے۔ یہ خواب خرگوش کب تک رہے گی اور غفلت کی روئی کب تک کانوں میں پڑی رہے گی۔ آخر ایک دن بینائی سے پردے اٹھادیں گے اور غفلت کی روئی کانوں سے دور کر دیں گے لیکن پھر کچھ فائدہ نہ ہوگا اور سوائے حسرت و ندامت کے کچھ حاصل نہ ہوگا موت کے آنے سے پہلے ہی اپنا کام بنالینا چاہیئے اور وَاشَوْقًا(اے شوق) کہتے ہوئے مرنا چاہیئے۔ اول عقائد کا درست کرنا ضروری ہے اور اس امر کی تصدیق سے جو تواتر و ضرورت کے طور پر دین سے معلوم ہوا ہے، چارہ نہیں ہے۔ دوسرا ان باتوں کا علم و عمل ضروری ہے جن کا متکفل(ذمہ دار) علم فقہ ہے اور تیسرا طریقہ صوفیہ کا سلوک بھی درکار ہے۔ نہ اس غرض کے لئے کہ غیبی صورتیں اور شکلیں مشاہدہ کریں اور نوروں اور رنگوں کا معائنہ کریں حسی(محسوس ہونے والی) صورتیں اور انوار کیا کم ہیں کہ کوئی ان کو چھوڑ کر ریاضتوں اور مجاہدوں سے میں (غیبی)صورتوں اور انوار کی ہوس کرے حالانکہ یہ حسی صورتیں اور انوار و ہ غیبی صورتیں اور انوار دونوں حق تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور حق تعالیٰ کے صانع ہونے پر روشن دلیلیں ہیں۔چاندو سورج کا نور جو عالم شہادت سے ہے ان انوار سے جو عالم مثال میں دیکھیں۔ کئی گنا زیادہ ہیں لیکن چونکہ یہ دید دائمی ہے اور خاص و عام اس میں شریک ہیں اس لئے اس کو نظر اور اعتبار میں نہ لا کر انوارغیبی کی ہوس کرتے ہیں۔ ہاں۔ 

آبے که رود پیش درت تیره نماید ترجمہ: سیاه پانی نظر آئے تجھے در پر جو جاری ہے 

بلکہ طریق صوفیہ کے سلوک سے مقصود یہ ہے کہ معتقدات شرعیہ میں یقین زیادہ حاصل ہو جائے تا کہ استدلال کی تنگی سے کشف کے میدان میں آ جائیں۔ 

مثلا واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کا وجود جو اول استدلال با تقلید کے طور پرمعلوم ہوا تھا اور اس کے اندازہ کے موافق یقین حاصل ہوا تھا جب طریق صوفیہ کا سلوک میسر ہو تو یہ استدلال و تقلید کشف شہود(مشاہدہ) سے بدل جاتا ہے اور یقین کامل حاصل ہو جاتا ہے۔ سب اعتقادی امور میں یہی قیاس ہے اور نیز طریق صوفیہ کے سلوک سے  یہ مقصود ہے کہ احکام فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی حاصل ہو جائے اور وہ مشکل دور ہو جائے جو نفس کی آمادگی سے پیدا ہوتی ہے اور اس فقیر کا یہ یقین ہے کہ طریقہ صوفیہ حقیقت میں علوم شرعیہ کا خادم ہے۔ نہ شریعت کے مخالف کچھ اور امر اور اپنی کتابوں اور رسالوں میں اس معنی کی تلقین کی ہے اور اس غرض کے حاصل ہونے کے لئے تمام طریقوں میں سے طریقہ علیہ نقشبندیہ کا اختیار کرنا بہت مناسب اور بہتر ہے کیونکہ ان بزرگواروں نے سنت کی متابعت کو لازم پکڑا ہے اور بدعت سے کنارہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر متابعت کی دولت ان کو حاصل ہو اور احوال کچھ نہ رکھتے ہوں تو خوش ہیں اور اگر باوجود احوال کے متابعت میں قصور معلوم کریں تو ان احوال کو پسند نہیں کرتے۔

حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے فرمایا کہ اگر تمام احوال و مواجید ہمیں دے دیں اور ہماری حقیقت کو اہلسنت و جماعت کے اعتقاد سے نوازش نہ فرمائیں تو سوائے خرابی کے ہم کچھ نہیں جانتے اور اگر اہل سنت و جماعت کا اعتقاد ہم کو دے دیں اور احوال کچھ نہ دیں تو پھر کچھ غم نہیں ہے اور نیز اس طریق میں نہایت بدایت میں مندرج ہے۔ پس یہ بزرگ پہلے قدم میں وہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو دوسروں کو نہایت میں جا کر حاصل ہوتا ہے۔ اگرفرق ہے تو صرف اجمال و تفصیل اور شمول وعدم شمول کا ہے۔ یہ نسبت بعینہ اصحاب کرام علیہم رضوان کی نسبت ہے کیونکہ اصحاب حضرت خیر البشر ﷺکی پہلی صحبت میں وہ کچھ حاصل کر لیتے تھے جو اولیائے امت کو نہایت میں بھی شاید ہی حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ اویس قرنی قدس سره جوخیرالتا بعین ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی کے مرتبہ نہیں پہنچتا جس کو صرف ایک ہی دفعہ خیرالبشر ﷺکی صحبت نصیب ہوئی کیونکہ صحبت کی بزرگی تمام فضیلتوں اور کمالوں سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ ان کا ایمان شہود ی ہے اور دوسروں کو یہ دولت ہرگز نصیب نہیں ہوئی ۔ 

شنیده کی بود مانند دیده ترجمہ:سنی ہوئی کبھی دیکھی ہوئی کے برابر نہیں

 یہی وجہ ہے کہ ان کا ایک مد جو خرچ کرنا دوسروں کے پہاڑ جتنا سونا خرچ کرنے سے بہتر ہے اور تمام اصحاب اس فضیلت میں برابر ہیں۔ پس سب کو بزرگ جاننا چاہیئے اور نیکی سے یاد کرنا چاہیئے کیونکہ اصحاب سب کے سب عادل ہیں اور روایت اور تبلیغ احکام میں سب برابر ہیں۔ ایک کی روایت کو دوسرے کی روایت پر کوئی زیادتی نہیں ہے۔ قرآن مجید کے اٹھانے والےیہی لوگ ہیں اور آیات متفرقہ کو ان کے عادل ہونے کے بھروسے پر ایک سے دو آیتیں یا تین آیتیں کم و بیش اخذ کر کے جمع کیا ہے۔ اگر اصحاب میں سے کسی ایک پرطعن کریں تو طعن قرآن مجید کے طعن تک پہنچا دیا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بعض آیات کا حاصل وہی ہو اور ان کی مخالفتوں اورجھگڑوں کو نیک نیتی پرمحمول کرنا چاہیئے اور ہوا و تعصب سے اپنے آپ کو بچانا چاہیئے۔ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے جو صحابہ کے احوال کو بخوبی جانتے ہیں۔ فرمایا کہ تِلْکَ دِ مَاءٌ طَهَّرَاللهُ عَنْهَا اَیْدیْنَا فَلْنُطَھِّرَ عَنْهَا اَلْسِنَتِنَا یہ وہ خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو الله تعالیٰ نے پاک رکھا۔ پس ہم اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھتے ہیں۔اور اسی قسم کا مقولہ امام اجل حضرت امام جعفر صادق رضی الله عنہ سے بھی منقول ہے۔ وَالسَّلَامُ أَوَّلاً وَّاٰخِرًا ۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ84ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں