نفحات کی مشکل عبارتوں کے حل مکتوب نمبر200دفتر اول

نفحات کی مشکل عبارتوں کے حل کرنے میں جن کی تشریح طلب کی گئی تھی ملاشکیبی اصفہانی کی طرف لکھا ہے ۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالسَّلَامُ عَلٰى سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ وَاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ  اللہ رب العلمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور انکی آل پاک پر صلوۃ وسلام ہو۔ 

آپ نے فرمایا تھا کہ نفحات کی عبارتوں کی جو واقعی مشکل ہیں شرح کی جائے اس لئے چند باتیں لکھنے پر دلیری کی۔ 

میرے مخدوم و مکرم عین القضاۃ ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ ان لوگوں کا حال بیان کرتے ہوئے جو بغیر کسی رہبر کےسلوک راہ پر چلے فرماتے ہیں کہ ان میں بعض کو مغلوبی نے اپنی پناه میں نگاہ رکھا اورمستی ان کے سر کی سائبان ہوگئی اور جو کوئی باتمیز تھا اس کے سر قطع کر دیا۔ . 

راہ مسلوک(معلوم  راستہ) سے مراد واللہ اعلم طريق سلوک اور دس مشہور مقامات کا ترتیب وار اور مفصل طور پر طے کرنا ہے۔ اس طریق میں نفس کا تز کیہ قلب کے تصفیہ پر مقدم ہے اور اس میں انابت و تو بہ ہدایت کی شرط ہے اور راہ نامسلوک( نامعلوم  راستہ)  سے مراد جذبہ اور محبت کا طریق ہے اور اس میں تصفیہ قلب تزکیہ نفس پر مقدم ہے اور یہ اجتباء(برگزیدہ لوگوں ) کا راستہ ہے جس میں انابت و توبہ کی شرط نہیں اور یہ طریق محبوبوں اور مریدوں کا طریق ہے۔ برخلاف پہلے طریق کے کہ وہ محبین اور مریدوں کا طریق ہے۔ 

پس ان میں سے بعض جوقوی جذبہ اور محبت کا غلبہ ( کہ مغلوبی اورمستی اس سے مراد ہے) رکھتے تھے۔ آفاقی(بیرونی) اورانفسی(بیرونی) لیکن ظاہری اور باطنی شیطانوں کی شرارت سے محفوظ رہے اور ان کے بہکانے اور گمراہ کرنے سے بچے رہے۔ اگر ان کا کوئی رہبر نہ تھا لیکن فضل ایزدی نے ان کی رہبری فرما کر ان کو مطلوب حقیقی تک پہنچا دیا اور ان میں سے جو با تمیز تھا یعنی جذبہ کی قوت نہ رکھتا تھا اور محبت کا غلبہ اس کے حق میں مفقود تھا چونکہ کوئی اس کا رہبر نہ تھا۔ اس لئے دین کے دشمنوں نے اس کو رستہ سے بہکا دیا اور اس کو ہلاک کردیا اور دائمی موت میں اس کو گرفتار کیا۔ 

اور منجمله مغلوبوں کے وہ دوترک تھے جن کی نسبت حسین قصاب نے رمز و اشارہ سے حکایت کی ہے کہ میں ایک بڑے قافلہ کے ساتھ ایک راستہ میں جارہا تھا کہ ناگاہ اس قافلہ سےدو ترک باہر نکل گئے اور راہ نامسلوک (غیرمعروف راستے)پر چل دئیے قصہ مختصر کہ یہ راستہ جس پر بڑاقافلہ جارہا تھا وہ راہ سلوک ہے۔ جو مقامات عشرہ و مشہورہ کومفصل اور ترتیب وارقطع کرنے سے طے ہوتا ہے کیونکہ اکثر مشائخ خاص کر متقدمین(پہلے)  اسی طریق سے اپنے مقصد تک پہنچے ہیں اور راہ نامسلوک جو ان دونوں ترکوں نے اختیار کیا اور حسین قصاب نے اس راہ میں ان کی متابعت کی وہ جذبہ اور محبت کا طریق ہے جو اس مشہورمسلوک راہ کی نسبت وصول الی اللہ کے بہت نزدیک ہے اور اس طریق کا مقدمہ لذت اور آرام پانا ہے جو حس سے بے حس ہونے اور شعور سے بے شعور ہونے کے باعث ہے اور اس حالت سےبطور اشارہ رات مراد لی ہے اور جب خلق سےیہ بے حس اور بے شعور ہونا حق تعالیٰ کے ساتھ حضور اور شعور کو شامل ہے ۔ اس حضور اور شعور کو چاند سے اشارہ فرمایا۔ 

یہ مقام کچھ بیان کا طالب ہے گوش و ہوش سے سننا چاہیئے کہ جسم کی تربیت کرنیوالی روح ہے اور قالب(قوائے جسدی) کا تربیت کرنیوالا قلب ہے۔ اورقوائےجسدی قوت روحانی سے(طاقت) حاصل کئے ہوئے ہیں اور حواس قلبی قلب کی نورانیت سے مستفاد(بطور فائدہ حاصل شدہ) ہیں ۔ پس ناچار باری تعالیٰ کی پاک جناب کی طرف قلب اور روح کی توجہ کرنے کے وقت جوطریق جذبہ میں لازم ہے۔ ابتدائے حال میں  کہ نقص کا وقت ہے جسد کی تدبیر اور قالب کی تربیت میں فتور پڑ جاتا ہے جو حس کے بیکار ہونے اور شعور سے بے خبر ہونے کا باعث ہو جاتا ہے اور قویٰ اور اعضا کی بستی تک پہنچا دیتا ہے اور بے اختیار زمین پر سلا دیتا ہے۔ 

اس حالت کوشیخ  اجل شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے فتوحات مکیہ میں” سماع روحی” سے تعبیر کیا ہے اور وہ سماع جس میں رقص اور حرکت دوری ہے اس کو”طبعی سماع” کہا ہے اور اس سے منع کرنے میں بڑا مبالغہ کیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ ظاہری غیبت باطنی حضوری(حضور معنوی) کو شامل ہے اور یہ جسد کا بے حس ہونا شعور روحی پرمشتمل ہے جس کی تعبیر چاند سے مناسب ہے اب ہم پھر اصل بات کو بیان کرتے ہیں۔ 

جاننا چاہیئے کہ چاند کا سیاہ بادل سے چھپ جانا مراد ہے صفات بشریہ کے ظہور سے جو مبتدیوں کے اس حضور و آگاہی کو پردہ میں چھپالیتا ہے اور یہ پردہ میں آجانا احوال کے توسط تک ہی ہے کیونکہ متوسطوں کے لئے یہ استتار(پوشیدگی)نہیں ہے ۔ اگر چہ بغیر استتار کے نہیں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انہی معنوں سے کہا ہو کہ جب آدھی رات ہوئی پھر چاند بادل سے نکلا اور ان دو جوان مردوں کے قدموں کے نشان کو معلوم کیا۔ کیونکہ حالت بسط میں جو حضور و آگاہی کے وقت ہے راستہ روشن ہو جاتا ہے اور مسافت زیادہ طے کی جاتی ہے۔ جب صبح  ہوئی یعنین وہ  غیبت سے دور ہو گیا اور وہ حضور و آگاہی زیادہ ہوگئی اورخلق کی توجہ کے ساتھ جمع ہوئی ۔ اس ظہور سے کنایہ آفتاب کا طلوع ہونا ہے اور پہاڑ سے مراد بشریت کا وجود ہے جو اس وقت اس پر ظاہر ہوا کیونکہ اس طریق میں نفس کا تزکیہ (رذائل سے پاک) قلب کے تصفیے کے بعد ہے اور چونکہ وہ دونوں ترک قوی جذبہ اور محبت کا غلبہ رکھتے تھے۔ اس لئے بہادروں کی طرح بشریت کے پہاڑ پر چڑھ گئے اور ایک دم میں اس کے اوپر جا پہنچے اور ایک قسم کی فنا سے مشرف ہوئے اور حسین قصاب میں چونکہ اس طرح کے جذبہ کی قوت نہ تھی بڑی محنت سے اس پہاڑ پر چڑھا لیکن وہ بھی ان ترکوں کی متابعت کی برکت سے میسر ہوا۔ ورنہ اس کا سر اڑا دیتے اورہلاک کر دیتے۔ 

لشکر گاہ ا عیان ثابتہ کے مرتبہ سے مراد ہے جو حقائق امکانی کے تعینات اور وجوبی علمی تعین کا جامع ہے کہ بے نہایت خیمے ان تعینات سے کنایہ ہے اور ان کے درمیان ایک بڑاخیمہ جس کو سلطانی خیمہ کہا اس سے تعین علمی وجوبی کی طرف اشارہ ہے اور جب حسین قصاب نے سنا کہ وہ سلطانی خیمہ ہے۔ تو خیال کیا کہ اب مطلب کو  پہنچ گیا ۔ چاہا کہ سکرومستی کی سواری سے جس  کی مدد کے بغیر یہ راہ طے نہیں ہوسکتا۔ نیچے اترے اور مطلوب کو پا کر آرام کرے ابھی دایاں پاؤں جو روح سے مراد ہے کیونکہ اس راہ نا مسلوک میں قلب و روح کے پاؤں سے چلتے ہیں نہ علم وعمل کے پاؤں سے کیونکہ یہ راہ مسلوک مناسبت رکھتے ہیں اور اول جومستی سے نکلتا ہے یہی روح ہے اور پھر قلب جس سے مراد بایاں پاؤں ہے ۔رکاب سے نکالا ہی تھا کہ اس کے کان میں الہام پہنچا کہ سلطان خیمہ میں نہیں ہے اور واقعی اس طرح ہے اور حسین قصاب چونکہ جذب کی قوت نہ رکھتا تھا۔ تھوڑی سی بشارت سن کر مستی سے نکل آیا اور وہ دو ترک چونکہ جذب قوی اور غلبہ محبت رکھتے تھے۔ اس قسم کی بشارتوں پر فریفتہ نہ ہوئے ۔ اور بہادروں کی طرح اوپر چڑھ گئے حسین قصاب اگر ہزار سال تک بھی انتظار کرے۔ ہرگز سلطان کو خیمہ میں نہ پائے گا۔ کیونکہ وہ وراء الوراہے۔ 

 قولہ گھوڑے پر چڑھ کر شکار کو گیا ہے ۔ یعنی خوبصورت مظہروں اور جلوہ گاہوں پر بیٹھا ہے اور عاشقوں کے دلوں کو شکار کر رہا ہے۔ یہ آواز اور یہ بات حسین قصاب کے فہم وسمجھ کے موافق تھی جو تنزل کے طور پر اس سے کہی گئی ۔ ورنہ جس جگہ وہ ذات تعالیٰ و تقدس ہے۔ وہاں بیٹھنا اور شکار کیلئے جانا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ ۔

لاوھو زاں سرائے روز بہی         بازگشتند و حبیب و کیسہ تہی

ترجمہ: دریائے معرفت میں ہے سب نے ہاتھ مارا لیکن کسی نے اس کا دیکھا نہیں کنارا 

اس عبارت سے ایک اور معنی ناقص عقل  میں آ ئے جو مقام تفرد اور کبریائی کے مناسب ہیں ۔ اگر چہ یہ معنی بھی اس پاک بارگاہ جل شانہ کے لائق نہیں ہیں لیکن دوسرے معنوں سے زیادہ بہتر اور مناسب ہیں اور وہ معنی یہ ہیں کہ وحدت پر جوتعین اول ہے اور مرتبہ واحدیت سے   بڑھ کر ہے، بیٹھا ہے اور چونکہ مرتبہ وحدت میں تمام علمی اور عینی تعینات کا استہلاک اور فنا ہے اس لئے شکار کو جووحوش و طیور کے ہلاک کا باعث ہے۔ اس مقام کے مناسب جان کر شکار کے لئے گیا ہوا فر مایا۔

شیخ محمد  معشوق طوسی اور امیر علی عبو بادشاہ کی شکار گاہ میں  پہنچ گئے اور اس کا شکار ہوگئے لیکن معشوق طوسی اقدم(زیادہ آگے) اور اقرب (زیادہ قریب)ہے اور حسین قصاب بادشاہ کے واپس آنے کی امید پرواحدیت کے خیموں میں ہی رہا وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْمُرَادِوَمَا فِیْہِ مِنَ الصَّوَابِ وَالسُّدَّادِ   اور حقیقت مراد والله تعالیٰ ہی جانتا ہے اور بہتری اور صواب اسی کومعلوم ہے۔ 

میرےمخدوم طريقہ نقشبندیہ قدس سرہ کے بزرگواروں نے اسی نامسلوک راستے کو اختیار کیا ہے اور یہ غیر مقررہ راستہ ان بزرگواروں کے طریقے تک مقررہ راہ بن گیا ہے اور بے شمار لوگوں کواسی راہ سے توبہ و تصرف کے ساتھ مطلب تک پہنچاتے ہیں اسی طریق کے لئے وصول لازم ہے۔ بشرطیکہ پیر مقتدا کے آداب کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ اس طریق میں بوڑھے اور جوان اور عورتیں اور بچے وصول میں برابر ہیں بلکہ مُردے بھی اس دولت سے امیدوار ہیں۔ 

حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ میں نے حق تعالیٰ سے ایسا طریق مانگا ہے جو بے شک موصل(حق تعالیٰ تک پہنچانے والا) ہے۔ 

: اور حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس سرہ جو آپ کے پہلےخلیفے ہیں۔ اس معنی میں ایک بیت فرماتے ہیں

گر نشکستی دل در بان راز  قفل جهان راہمہ بکشا دے

ترجمہ :اگر نہ ٹوٹتا دل رازداں کا. جہاں کے قفل میں سب کھول دیتا۔

 ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ  عَلىٰ طَرِيْقَۃ ُ هٰؤُلَاءِ الْأَكَابِرِ الله تعالیٰ ہم کو ان بزرگواروں کے طریقہ پر ثابت قدم رکھے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ60ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں